کس نے سیکھا ہے نقشِ پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا اور پھر ’’پانیوں پر بہار اترے گی۔ تم وہاں نقش اک بنا رکھنا‘‘ تو صاحبو! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا صرف محاورہ ہی نہیں کبھی کبھی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ آپ تواتر سے ویرانے میں بس چلیں تو وہاں اک راستہ بن جاتا ہے۔ ’’ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی۔ منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے‘‘ اس راہ کے مسافر ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ وہ اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب ہوں یا سید عامر محمود کہ جو غزالی ٹرسٹ کے روح و رواں ہیں۔ مندرجہ بالا تمہید سے وابستہ تو ہمارا ایک سفر ہے کہ ہمیں غزالی ایجوکیشن کے ایک سکول میں لے جایا گیا۔ نورالہدیٰ نے بتایا کہ شیخوپورہ جانا ہے۔ سوچا کہ ارشد نعیم جیسے دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی مگر شیخو پورہ پار کر گئے اور پھر فاروق آباد کے سنگ گلی کوچوں میں ہم چا پہنچے۔ غصہ تو بہت آیا کہ شیخوپورہ کا کہا گیا تھا لیکن جب ہم نے غزالی سکول دیکھا اجلے اجلے لباس میں ننھے منے بچے دیکھے تو دل خوشی سے بھر گیا۔ کشادہ صحن والا سکول۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ غزالی ایجوکیشن فائونڈیشن کے سکولوں میں یتیم اور مستحق طلبا میں ونٹر پیکج تقسیم کیا جاتا ہے تو ہم اسی سلسلہ میں آئے تھے۔ اصل میں یہ فائونڈیشن پاکستان میں دیہاتوں کا تعلیمی نیٹ ورک ہے۔ اس نے تقریباً 800 سکول قائم کئے ہیں وہ 48000 طلباء و طالبات کی کفالت کر رہے ہیں۔ سید عامر محمود ایک حوصلہ مند اور خوبصورت شخص کا نام ہے۔ ایک عجز و انکسار ان کے لب و لہجہ میں ہوتا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے اب میں اس تقریب پر آتا ہوں، جہاں مجھے عزت بخشی گئی۔ ساڑھے تین صد کے قریب بچے تھے اور ان کے استاد۔ تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا تو حفصہ نے تلاوت کی اور پھر خمسہ رانی نے اقبال کی نعت سچ مچ سماں باندھ دیا۔ جس نے بے شمار تقاریب میں نعت سن رکھی ہے۔ مگر خمسہ کی ادائیگی میں عجیب سروش و خروش تھا۔ میں نے اپنی بات اسی قرأت اور نعت سے اٹھائی۔ یعنی قرآن اور سنت کو اساس بنایا۔ میں نے اساتذہ اور بچوں کو بتایا کہ اقرا سے شروع کریں تو سب بھید کھلتے جاتے ہیں۔ پہلا سبق ہی یہی تھا کہ جبرائیل نے کہا ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘ اور پھر یہ بھی کہا کہ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا اور انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم اس امت کی وراثت ہے۔ نبی آخر الزماںؐ نے خود بھی تو کہہ دیا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ آپ رحمت اللعالمین بن کر آئے۔ اللہ کا اس کے عہد کے ساتھ تعلق استوار کرنا تھا۔ بات کو مختصر کرتا ہوں کہ تعلیم کا حصول اور اس پھیلانا ہمارے حصے میں آیا کہ یہ نبیوں والا کام ہے۔ اس حوالے سے غزالی ٹرسٹ ہمارے ملک کے ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے جو وسائل نہیں رکھتے، یتیم ہیں یا بے سہارا۔ میں نے کہا کہ یہ غزالی والوں کا کوئی کمال نہیں یہ اللہ نے ان کو آپ کے دروازے تک بھیجا ہے او رآپ کو قدرت نے موقع مہیا کیا ہے۔ غزالی والے تو ایک سبب ہیں یا یوں کہیں کہ یہ عظیم سعادت ان کے حصے میں آئی ہے۔ وہاں کے سربراہ اظہار احمد نے وہ جگہ بھی وزٹ کروائی جہاں سلائی کڑھائی بھی سکھائی جاتی ہے۔ ثمینہ سید جو کہ ایک اوریجنل فکشن رائٹر اور شاعرہ ہیں نے بھی بچوں سے گفتگو کی اور ان کے ذوق و شوق کو سراہا اور رقیہ اکبر چوہدری جو کہ شاعرہ اور سوشل ایکٹوسٹ ہیں نے بھی بچوں سے باتیں کیں اور اپنے بچپن کے دن یاد کئے۔ میں نے بھی بچوں کو بتایا کہ ایک زمانے میں ہم نے ان کے لیے بہت کچھ لکھا۔ خاص طور پر ٹی وی پروگرام کا ٹائٹل سانگ۔ ہم ہیں پھولوں جیسے بچے، ہم ہیں سب کو پیارے اپنے دم سے گھر ہے روشن، ہم ہیں آنگن تارے آنگن آنگن تارے غزالی ایجوکیشن فائونڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر محمود نے اپنا ایک سفرنامہ ’’ہنگام سفر‘‘ بھی عنایت کیا۔ ضرور پڑھوں گا۔ انہیں دیہاتوں میں خواندگی بڑھانے کے لیے کردار ادا کرنے پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کا اصل انعام تو وہ محبت ہے جو لوگوں کے دلوں میں ہے ان پر لوگوں کا اس قدر اعتماد ہے کہ ایک شخص نے آ کر اپنی ایک فرنشڈ کوٹھی اس ٹرسٹ کے نام کر دی کہ مرنے کے بعد وہ مالک ہیں اور پھر یہ ان صاحب کا صدقہ جاریہ بن گیا۔ وہی سرسید کے حوالے سے اکبر کا مصرعہ یاد آتا ہے ’’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے‘‘ وہاں فاروق آباد میں بھی افتخار احمد ملنے آئے اور اپنا شعری مجموعہ ’’سیپیاں‘‘ دیا۔ پتہ یہ چلا کہ ہمارے دوست ڈاکٹر جواز جعفری ہی نہیں بلکہ منشا اور امجد اسلام امجد کا تعلق بھی اس جگہ سے رہا۔ غزالی کے تقسیم کا سلسلہ جاری ہے اور عارف حسین آر فن اور لیڈی سپورٹ پروگرام کے انچارج ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ان کے ہاں باقاعدہ ایک تنظیم اور نظم و ضبط ہے۔ مزے کی بات یہ کہ نعیم جو ہماری گاڑی ڈرائیور کر رہے تھے وہ ہمارے محسن ظہیر الدین بابر کے بھتیجے نکلے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پراپرٹی کا کام بھی کرتے ہیں مگر غزالی کے ساتھ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آئے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ کئی سال سے ان کے لیے جگہ جگہ جاتے ہیں۔ واقعتاً یہ سنہرے لوگ ہیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ مجھے بھی یہ لوگ اپنا سفیر سمجھتے ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت۔ باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا
QOSHE - کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے

7 0
07.12.2023




کس نے سیکھا ہے نقشِ پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا اور پھر ’’پانیوں پر بہار اترے گی۔ تم وہاں نقش اک بنا رکھنا‘‘ تو صاحبو! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا صرف محاورہ ہی نہیں کبھی کبھی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ آپ تواتر سے ویرانے میں بس چلیں تو وہاں اک راستہ بن جاتا ہے۔ ’’ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی۔ منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے‘‘ اس راہ کے مسافر ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ وہ اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب ہوں یا سید عامر محمود کہ جو غزالی ٹرسٹ کے روح و رواں ہیں۔ مندرجہ بالا تمہید سے وابستہ تو ہمارا ایک سفر ہے کہ ہمیں غزالی ایجوکیشن کے ایک سکول میں لے جایا گیا۔ نورالہدیٰ نے بتایا کہ شیخوپورہ جانا ہے۔ سوچا کہ ارشد نعیم جیسے دوستوں سے ملاقات ہو جائے گی مگر شیخو پورہ پار کر گئے اور پھر فاروق آباد کے سنگ گلی کوچوں میں ہم چا پہنچے۔ غصہ تو بہت آیا کہ شیخوپورہ کا کہا گیا تھا لیکن جب ہم نے غزالی سکول دیکھا اجلے اجلے لباس میں ننھے منے بچے دیکھے تو دل خوشی سے بھر گیا۔ کشادہ صحن والا سکول۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ غزالی ایجوکیشن فائونڈیشن کے سکولوں میں یتیم اور مستحق طلبا میں ونٹر پیکج تقسیم کیا جاتا ہے تو ہم اسی سلسلہ میں آئے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play