تاریخ نے دنیا کو ایک سبق پڑھایا ہے‘ سب ریاستوں نے اس سبق کے نتائج الگ الگ دیکھے ہیں۔ یورپ کو گھٹتی ہوئی ورک فورس کا مسئلہ ہے‘ امریکہ دنیا بھر سے باصلاحیت افراد جمع کرنا چاہتا ہے‘ کینیڈا چاہتا ہے کہ اس کے وہ علاقے آباد ہوں جہاں انسانی آبادی نہیں۔ وہ ان بے آباد زمینوں اور قدرتی وسائل کو اپنی معیشت کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ان ملکوں نے برسہا برس سے اپنی پالیسیوں کو اس اعتدال کے ساتھ نافذ کر رکھا ہے کہ نئے لوگوں کا آنا ایک معاشی سرگرمی بن گیا ہے۔پاکستان اور اس جیسے ملکوں کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے تشخص کے معاملے میں حساس ہیں۔ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ غیر ملکیوں کو پناہ دینے سے ملک میں نئے گروپ پیدا ہو جائیں گے جو الگ نظریات کے مالک ہوں گے‘ وہ پہلے سے علاقائی و لسانی تقسیم کے شکار سماج کو مزید تقسیم کریں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس بات کا ادراک کیا ہوتا تو افغان مہاجرین کے متعلق بے روک ٹوک پالیسی نہ دیتے۔ افغان روایات کا سیاسی حصہ اس مغربی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا جو ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ افغان مہاجرین جب پاکستان میں آباد ہوئے تو دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا بڑا پھاٹک کھل گیا۔ مہربانی اس حد تک کی گئی کہ شناختی دستاویزات تک نہ دیکھی جاتیں۔ مہاجرین مخصوص کیمپوں میں رہنے کی بجائے پورے ملک میں پھیل گئے۔ الگ بستیاں بنا لیں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا داخلہ محال تھا۔اسلام آباد کے درمیان ایسی بستی نے کئی بار سکیورٹی کے خدشات پیدا کئے‘ کراچی میں کئی بار پاکستانی پرچم کی ان بستیوں میں توہین کی گئی۔14اگست کی ریلیوں کے دوران ہنگامہ آرائی ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کا حصہ بن کر پرتشدد سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ ایک اور سبق یہ تھا کہ بے شناخت مہاجر کچھ زمانے کے بعد اپنا الگ صوبہ یا ملک مانگ لیتے ہیں۔اس لئے افغان مہاجرین کو محبت کے ساتھ واپس بھیجنا ضروری ہو گیا۔ جن جماعتوں کو ہم ووٹ دیتے ہیں ہمیں چاہیے ان سے اچھی گورننس کا مطالبہ کرتے رہیں۔ ان جماعتوں کے رہنمائوں اور نمائندوں سے تقاضا کرتے رہیں کہ وہ ملکی مسائل کے حل کا منصوبہ بتائیں۔سیاسی نظام کی خامی ہے کہ ووٹر اور عام آدمی زیادہ با اختیار نہیں ہو سکا۔ بے اختیار ووٹر کے پاس یہ حق ہی نہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ کسی موثر پلیٹ فارم پر اپنی بات پہنچا سکے۔ بھلا ہو نگران حکومت اور عسکری قیادت کا کہ انہوں نے افغان مہاجرین کے معاملے کو گہری نظر سے دیکھا۔ شہری جو بات دل میں لئے پھر رہے تھے اسے ایک منصوبے کی شکل دی۔عالمی اداروں کو باور کرایا کہ ملک خود معاشی مشکلات کا شکار ہے‘ دہشت گردی نے اس کے لئے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ خوراک کا معاملہ سنگین ہوتا جا رہا ہے‘ سیاست اور سماج میں اجنبی منفی روایات شامل ہو رہی ہیں۔اس لئے افغان مہاجرین کی مزید مہمان نوازی ممکن نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں ان کے وہ پیارے پیارے بچے پہلی بار اپنا آبائی وطن دیکھ رہے ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہیں سفری صعوبت تو اٹھانا پڑی ہے لیکن ان کا ملک اب خوشحال‘ پرامن اور ان کے رہنے کے قابل ہو چکا ہے اس لئے ان کا جانا خود ان کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ ہر روز پاک افغان سرحد سے کئی خاندان افغانستان لوٹ رہے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے بڑا انوکھا تجربہ بیان کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ اور خلیجی ممالک میں ایسے ہزاروں افغان ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ایسے کچھ لوگ نانبائی اور حجام کا کام سیکھ کر ان ملکوں میں آ گئے ہیں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ یہ انڈین سمجھ کر ہماری بہت آئو بھگت کرتے ہیں‘ جونہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں یہ سروسز دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہو چکے ہیں۔ اس نوع کے واقعات دبئی اور شارجہ کے کرکٹ سٹیڈیمز میں بھی دیکھے جا چکے ہیں جہاں افغان ٹیم کی ہار پر پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں کام کرنے والے افغان تماشائیوں نے پاکستانی تماشائیوں پر حملہ کر دیا۔ یہ سب محبت کے مظاہرے نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہیں کہ ہم بھائی بھائی ضرور ہیں لیکن ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ انسان عجیب ہے۔کئی بار وہ جس ظلم کا خود ارتکاب کرتا ہے کسی دوسرے کو وہی کرتے دیکھ کر اسے مظلوم پر از حد ترس آنے لگتا ہے۔ افغان مہاجرین کا معاملہ انسانی اور ملی شکل میں پیش کرنے کے لئے ماضی میں بھر پور مہم چلائی گئی۔ اس مہم نے پاکستانی قوم کو فکری طور پر کمزور کیا۔ اب جب ریاست اپنی غلطی سدھارنے کی کوشش کر رہی ہے تو عشروں کی مہم اور اس سے جڑے طاقتور کردار نئے خدشات کا اظہار کر کے معاملے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں یہی وہ وقت ہے جب ریاست کے مفاد کو اجاگر کرتے ہوئے ایک قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے۔ اس قومی بیانیہ میں بلا شبہ یہ امر اہمیت رکھتا ہے کہ خطہ پاکستان کی سرزمین پر نئی مہاجر شناختوں کا رہنا ریاست کی سلامتی کے پہلو سے مناسب نہیں۔ پاکستان ذرخیز زمینوں‘ بے پناہ قدرتی وسائل‘ موسموں کی رنگا رنگی اور کروڑوں نوجوان افرادی قوت کے باوجود اس لئے خوشحال نہیں کہ اس کے وسائل اس کے پسماندہ طبقات تک نہیں پہنچ رہے۔ افغان ہوں یا کوئی دوسرے باشندے وہ پاکستان میں پاکستانیوں کے وسائل اور کاروبار پر تصرف کر رہے تھے۔ افغان مہاجرین کی واپسی پر بات کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ضرورت ہے کہ ریاست اور سماج کو انتشار سے بچانے کے لئے ایسے فیصلوں کا دفاع کیا جائے۔
QOSHE - افغان مہاجرین کی واپسی:سماجی و معاشی اصلاح کا آغاز - اشرف شریف
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

افغان مہاجرین کی واپسی:سماجی و معاشی اصلاح کا آغاز

9 0
02.12.2023




تاریخ نے دنیا کو ایک سبق پڑھایا ہے‘ سب ریاستوں نے اس سبق کے نتائج الگ الگ دیکھے ہیں۔ یورپ کو گھٹتی ہوئی ورک فورس کا مسئلہ ہے‘ امریکہ دنیا بھر سے باصلاحیت افراد جمع کرنا چاہتا ہے‘ کینیڈا چاہتا ہے کہ اس کے وہ علاقے آباد ہوں جہاں انسانی آبادی نہیں۔ وہ ان بے آباد زمینوں اور قدرتی وسائل کو اپنی معیشت کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ان ملکوں نے برسہا برس سے اپنی پالیسیوں کو اس اعتدال کے ساتھ نافذ کر رکھا ہے کہ نئے لوگوں کا آنا ایک معاشی سرگرمی بن گیا ہے۔پاکستان اور اس جیسے ملکوں کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے تشخص کے معاملے میں حساس ہیں۔ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ غیر ملکیوں کو پناہ دینے سے ملک میں نئے گروپ پیدا ہو جائیں گے جو الگ نظریات کے مالک ہوں گے‘ وہ پہلے سے علاقائی و لسانی تقسیم کے شکار سماج کو مزید تقسیم کریں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے اس بات کا ادراک کیا ہوتا تو افغان مہاجرین کے متعلق بے روک ٹوک پالیسی نہ دیتے۔ افغان روایات کا سیاسی حصہ اس مغربی جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا جو ہم سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ افغان مہاجرین جب پاکستان میں آباد ہوئے تو دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کا بڑا پھاٹک کھل گیا۔ مہربانی اس حد تک کی گئی کہ شناختی دستاویزات تک نہ دیکھی جاتیں۔ مہاجرین مخصوص کیمپوں میں........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play