جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے اور اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے ایسا ہی ہے کہ ایک بے اختیاری ہے وہ جو خالد احمد نے کہا تھا یعنی پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔حلقہ اختیار سا کچھ ہے۔ پھر یوں ہے کہ گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے سوئے ہوئے نگر تو نگر بولنے لگے۔اپنی ہی چھیڑ چھاڑ یونہی منظروں کے ساتھ چھولیں جو شام کو تو سحر بولنے لگے۔ بات شروع کرتے ہیں نواز شریف کے بیان سے کہ سازشوں نے وطن اجاڑ دیا۔ جہاں آئے روز وزیر اعظم جیلوں میں ہوں وہ ملک کیسے چل سکتا ہے معاف کیجیے! ایسا ہمیشہ تو ہرگز نہیں ہوتا کہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کا کیس اور اس کے علاوہ بھی معاملات تھے مگر سب شور مچاتے رہ گئے اور انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا گیا۔اس سے پیشتر بھی ایسا ہوا کہ جسے جیل میں ہونا چاہتے تھا اسے ایوان صدر میں بٹھا دیا گیا اور اس نے کہا کہ مجھے تو اب یہاں سے آپ ایمبولینس پر ہی باہر نکال سکتے ہیں یہ درست کہ ایک وزیر اعظم کو تو کھڑے کھڑے ہی فارغ کر دیا گیا کہ اسے خط لکھنا نہیں آتا تھا۔ پھر میموگیٹ سکینڈل میں تو وزیر اعظم اور صدر کے خلاف ایک شخص وکیل بن کر حاضر ہوا تھا حافظ برخوردار یاد آ گئے: میں نیل کرائیاں نیلکاں مرا تن من نیلو نیل میں سودے کیتے دلاں دے تے رکھے نین وکیل آپ سب بلیم گیم کا حصہ ہیں ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ سیاست میں بدتمیزی اور کردار کشی کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا یہ الگ بات کہ اسے ایک یوتھ نے مقام عروج تک پہنچایا مگر یہ میچ تو کسی اور نے شروع کیا تھا وہ پرانے کھلاڑی اب بھی دعوے دار ہیں اور انہوں نے ججوں تک کو بلیک میل کیا۔ بات پھیلی تو مجھ سے بھی نہیں سنبھلے گی۔ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ نواز شریف کو ہٹانے والے اور لاڈے کو لانے والے خود بھی رل گئے۔اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اصل میں رل تو عوام گئے نہ ہٹنے والے اور ہٹانے والے نقصان میں رہے کہ سب کے اپنے اپنے آسودہ خانے ہیں۔ کوئی لندن میں جا بسیرا کرتا ہے اچھے اور آرائش والے دن گزار کر اپنی باری کا انتظار کرتا ہے تو کوئی دبئی میں جا بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد وہیں اجلاس اور معاملات ہوتے ہیں۔پہلے بھی وہاں گول میز کانفرسیں ہوا کرتیں تھیں اور اب بھی وہ میز کچھ زیادہ ہی گول ہو چکی ہے۔ ایک تعجب ضرور ہوتا ہے کہ اب امریکہ کو مرکز بن جانا چاہیے شاید وہ فاصلہ زیادہ ہے۔ ویسے باتیں سب ہی بڑی دلچسپ کرتے ہیں کہ جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہے۔ آپ ماشاء اللہ عاقل بالغ ہیں اور آپ نے میلوں ٹھیلوں میں موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والے کو بھی دیکھا ہو گا وہ کسی سرگرمی ہے اور آپ نے وہ مہارت بھی دیکھی ہو گی کہ بازو باندھ کر جو پیراکی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کسی کو بھی جلسوں سے نہیں روکیں گے مگر یہ تو جلسے کروانے والے شناخت میں ضرور آ جائیں گے فراز نے خوب کہا تھا: یہی کہا تھا کہ میری آنکھ دیکھ سکتی ہے تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا باتیں تو ہزار ہیں مگر پتے کی بات یہ ہے کہ حالات و واقعات ایسے ہیں کہ انتخاب سے پہلے ہی نظر آ رہا ہے کہ کون آ رہا ہے ایک ریڑھی والے کو بھی شرح صدر ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے بلکہ کیا کچھ ہو چکا ہے۔ہاں جاوید لطیف کی بات قابل غور ہے کہ انتخابات کو چند لوگ متنازع بنا رہے ہیں یعنی یہ کیسی پیش بندی ہے وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کے نتائج تو بالکل واضح ہیں کیونکہ شہباز شریف کی کارکردگی ان کے پاس ہے یہ بھی نہایت دلچسپ ہے کہ کوئی بغیر کسی وجہ سے نکال دیا گیا اور جس کے پیچھے وجہ ہے وہ خود نہیں نکل رہا اب کریں تو کیا کریں ہر دور میں خطوط کا معاملہ رہا اور یہ خطوط غالب کے خطوط سے زیادہ اہم ہیں کوئی نہ کوئی خط لکھنے پر مجبور ہوتا ہے وہ غالب نے کہا : خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے اب الیکشن کمشن نے عام انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے لئے وزارت داخلہ کو خط لکھا ہے۔ فیصلہ وزارت داخلہ کر دے گی بتایا کہ پولیس کی قلت کے باعث دوسرے اداروں سے لوگ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب کے تعیناتی خفیہ بھی ہو گی اور شاید کچھ بھی خفیہ نہ رہے او اب تو ویسے بھی اعلان ہو چکا ہے کہ مایوسی پھیلانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ بلاول بے چارے بھی اپنے ووٹرز کی طبیعت بحال رکھنے کے لئے شخصیات سے ملاقات کر رہے ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں بنا دی ہیں یہ کمیٹیاں ڈالنے والے کارکن بھی ایسے ہی خوش رہتے ہیں ن لیگ اس حوالے سے بہت آگے ہے یقینا پی پی کی کمیٹی نکلنے کی نہیں اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی کمیٹی ماری جائے بساط تو بچھ چکی ہے اور شاطر کے ارادے بھی سبھی سمجھ رہے ہیں۔ آخری بات ایک بیان پر کہ وفاداریاں بدلنے والوں کو لوگ مسترد کر دیں گے آپ بھی اس پر قہقہہ لگا لیجئے کہ یہی وفاداریاں بدلنے والے ہی کسی کو بدل دیتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ لوٹے اکثریت میں ہیں اور ہر کامیاب کو ان لوگوں کا ہار اپنے گلے میں ڈالنا ہی پڑتا ہے ہائے ہائے ابراہیم ذوق: لائی حیات آئے‘ قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنے خوشی چلے
QOSHE - اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

8 0
29.11.2023




جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے اور اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے چپ تھے وہ سوچ کر کہ انہیں اختیار ہے جب کچھ نہ بن پڑا تو بشر بولنے لگے ایسا ہی ہے کہ ایک بے اختیاری ہے وہ جو خالد احمد نے کہا تھا یعنی پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔حلقہ اختیار سا کچھ ہے۔ پھر یوں ہے کہ گر بولتا ہوں میں تو یہ فطری سی بات ہے سوئے ہوئے نگر تو نگر بولنے لگے۔اپنی ہی چھیڑ چھاڑ یونہی منظروں کے ساتھ چھولیں جو شام کو تو سحر بولنے لگے۔ بات شروع کرتے ہیں نواز شریف کے بیان سے کہ سازشوں نے وطن اجاڑ دیا۔ جہاں آئے روز وزیر اعظم جیلوں میں ہوں وہ ملک کیسے چل سکتا ہے معاف کیجیے! ایسا ہمیشہ تو ہرگز نہیں ہوتا کہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کا کیس اور اس کے علاوہ بھی معاملات تھے مگر سب شور مچاتے رہ گئے اور انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا گیا۔اس سے پیشتر بھی ایسا ہوا کہ جسے جیل میں ہونا چاہتے تھا اسے ایوان صدر میں بٹھا دیا گیا اور اس نے کہا کہ مجھے تو اب یہاں سے آپ ایمبولینس پر ہی باہر نکال سکتے ہیں یہ درست کہ ایک وزیر اعظم کو تو کھڑے کھڑے ہی فارغ کر دیا گیا کہ اسے خط لکھنا نہیں آتا تھا۔ پھر میموگیٹ سکینڈل میں تو وزیر اعظم اور صدر کے خلاف ایک شخص وکیل بن کر حاضر ہوا تھا حافظ برخوردار یاد آ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play