ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے اور ایک عجیب سا خیال دیکھئے ۔نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو، اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے ۔سچ مچ یہ دنیا جینے نہیں دیتی اور بعض اوقات تو مرنے بھی نہیں دیتی۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔یہ خدائی فوجدار رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ہیں انتہائی تخریبی سوچ جسے وہ تعمیری سمجھتے ہیں ایسے میں پروین شاکر یاد آ گئیں: باد کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں کتنے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے آمدم برسرمطلب، میں کل ایک احتجاج میں شریک تھا کہ پورے علاقے یعنی مرغزار کالونی کی فلاح کا معاملہ تھا ۔کالونی کے سب لوگ سراپا احتجاج باہر نکل آئے اور وہ اپنے صدر چودھری محمد شہزاد چیمہ کی بحالی کے لئے مطالبہ کر رہے تھے معلوم نہیں کچھ سرکاری لوگ کس طرح سیاسی طور پردبائو میں آ جاتے ہیں اور معاملے کو تہس نہس کر دیتے ہیں کہ موجود شخص خواہ کتنا ہی کارآمد مخلص ہو ،وہ اپنی سیاسی وابستگی کا اعلان کرے۔پڑھنے والے بات سمجھ رہے ہونگے کہ موجودہ سناریو میں آنے والے یا یوں کہیں کہ متوقع لوگ آنے سے پہلے راستے ہموار چاہتے ہیں اور ہو چکے اچھے کاموں کو اپنے نام کرنے کے درپے ہیں۔سرکاری یا کوآپریٹورجسٹرار اس مقصد کے لئے اپنا کاندھا پیش کر دیتے ہیں اور کسی بھی محبوب عہدیدار کوفائرکر دیتے ہیں اور علاقے کا سارا ترقیاتی کام رک جاتا ہے۔ یادش بخیر کہ ہم نے مرغزار کالونی کے صدر کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا کہ چھ سال یعنی دو مدتوں تک صدر رہنے کے باوجود اہل علاقہ کی فرمائش پر تیسری مرتبہ بھی صدر بنے اور 85فیصد ووٹ لے کر دوبارہ کالونی کی فلاح میں جت گئے تیسری مرتبہ ان کو لانے کے لئے دستور میں بھی تبدیلی کرنا پڑی۔ یہ ان کے کام کے باعث تھا کہ ان کے آنے سے پیشتر کالونی کا برا حال تھا۔ قبرستان تک کی جگہ بیچ دی گئی تھی اور لوٹ مار مچائی گئی تھہ۔ محمد شہزاد چیمہ آئے تو نئی سڑکیں تک بن گئیں، صاف پانی کے پلانٹ لگ گئے، نوجوانوں کے لئے کرکٹ میچ بیڈ منٹن کورٹ سے لے کر ڈسپنسری تک کیا کچھ نہیں بنا۔ کالونی کا داخلی گیٹ بنایا گیا جس کا نام خاتم النبیین گیٹ رکھا گیا مسجدوں کی طرف توجہ دی گئی ۔کانفرنسز تقاریب اور مشاعرے تک منعقد کئے۔کہنے کا مطلب یہ کہ لوگوں کی توقعات سے بڑھ کر کام کئے گئے۔ اسی باعث مخالفین دب کر رہ گئے مگر وہ اپنے کام میں لگے رہے کہ کوئی ٹیکنیکل خامی پکڑی جائے۔ پتہ یہ چلا کہ کوئی پرانے معاملات جس سے شہزاد چیمہ کا دور کا بھی واسطہ نہیں جنہیںبنیاد بنا کر انہیں اور سیکرٹری کو فارغ کر دیا گیا ہاں ان پر ایک الزام لگا کہ انہوں نے کسی پلاٹ کی غلط تقسیم کی تھی مگر یہ کوئی ایسی غلطی نہیں کہ آپ پوری کالونی کو مشکل میں ڈال دیں۔کالونی کے ہزاروں لوگ ہیں احتجاج میں کیسے کیسے برگزیدہ لوگ بھی شریک ہوئے ان کا کہنا تھا کہ محمد شہزاد چیمہ کا ہٹایا جانا انہیں قبول نہیں۔ وہ دوبارہ الیکشن کروا لیں دوبارہ 85فیصد کی بجائے سو فیصد ووٹوں سے اس شخص کو لے کر آئیں۔ لوگ کام سے محبت کرتے ہیں اور یہ مثال بہترین مثال ہے۔سرکار کو کام کرتا ہوا شخص کیوں تکلیف دیتا ہے یہ سراسر سیاسی پریشر ہے اور وہ لوگ ابھی آئے نہیں اور انہوں نے دخل در معقولات شروع کر دیا ہے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہاں پرانی انتظامیہ سے تنگ آ کر یہاں کے معززین نے ایک فلاح مرغزار تنظیم بنائی تھی جس کے تحت یہاں ایک بڑی تبدیلی آئی تھی ان لوگوں میں ڈاکٹر ناصر قریشی ‘ ملک محمد شفیق‘ میاں نعیم ‘اورنگزیب اور ایسے بہت سے معتبر لوگوں نے کاوش کی اور اہل علاقہ نے ان پر مکمل اعتماد کیا۔ وہی کہ اپنی حالت کے بدلنے کا سوچا اور پھر حالت بدل گئی۔ اتنا کام ہوا کہ اس کالونی میں زمین کی قیمت بڑھ گئی۔کاموں میں 80فٹ روڈ کی تعمیر بہت اہم ہے اس کے علاوہ تجاوزات کو ختم کیا گیا۔ غیر قانونی تعمیرات کو روکا گیا جو اب چیمہ صاحب کے الگ ہونے پر پھر دھڑا دھڑ شروع ہیں ہمارے سرکاری لوگوں کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی اثر کے تحت غیر قانونی کام کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ میں تو نگران وزیر اعلیٰ محترم جناب محسن نقوی سے گزارش کروں گا کہ وہ اس فیصلہ کا فوراً نوٹس لیں بلکہ وہ خود بھی وزٹ کر سکتے ہیں۔حیرت تو اس بات کی ہے کہ جن سیاسی لوگوں کے کہنے پر یہ سب کچھ ہوا وہ کچھ سمجھدار بھی نہیں کہ اس طرح ان کی شہرت اچھی نہیں رہے گی میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل علاقہ کی دشمنی مول لے رہے ہیں۔سرکار کو چاہیے کہ وہ مرغزار کالونی کے لوگوں کی خواہشات اور حقوق کا خیال کریں۔ اس احتجاج میں غلام عباس خواجہ شاہد ‘ محمد آصف‘ ندیم خان‘ عبدالغفور ایڈووکیٹ‘ ڈاکٹر افتخار منہاس‘ محمد سعید ملک‘ میاں نعیم‘ قاری فضل دین‘ محمد ریاض‘ رانا سہیل اور کئی دوست شریک تھے۔تقاریر بھی ہوئیں اور نعرے بھی لگے۔ ڈاکٹر ناصر قریشی جو کہ وائس پریذیڈنٹ ہیں اور حنیف رامے جو کہ سیکرٹری ہیں ،نے متبادل خدمات سے انکار کر دیا ہے اور چوہدری محمد شہزاد چیمہ پر ہی اعتماد کا اظہار کیا ہے کبیر اطہر کا ایک شعر: پرانے دکھ نئے کپڑے پہن کر آ گئے ہیں یہ اپنے شہرمیں آزوردگاںکیا چل رہا ہے
QOSHE - ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی

9 0
27.11.2023




ہے کیوں تعمیر میں صورت خرابی کی توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے اور ایک عجیب سا خیال دیکھئے ۔نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو، اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے ۔سچ مچ یہ دنیا جینے نہیں دیتی اور بعض اوقات تو مرنے بھی نہیں دیتی۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کام کرتے ہیں نہ کرنے دیتے ہیں۔یہ خدائی فوجدار رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ہیں انتہائی تخریبی سوچ جسے وہ تعمیری سمجھتے ہیں ایسے میں پروین شاکر یاد آ گئیں: باد کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں کتنے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے آمدم برسرمطلب، میں کل ایک احتجاج میں شریک تھا کہ پورے علاقے یعنی مرغزار کالونی کی فلاح کا معاملہ تھا ۔کالونی کے سب لوگ سراپا احتجاج باہر نکل آئے اور وہ اپنے صدر چودھری محمد شہزاد چیمہ کی بحالی کے لئے مطالبہ کر رہے تھے معلوم نہیں کچھ سرکاری لوگ کس طرح سیاسی طور پردبائو میں آ جاتے ہیں اور معاملے کو تہس نہس کر دیتے ہیں کہ موجود شخص خواہ کتنا ہی کارآمد مخلص ہو ،وہ اپنی سیاسی وابستگی کا اعلان کرے۔پڑھنے والے بات سمجھ رہے ہونگے کہ موجودہ سناریو میں آنے والے یا یوں کہیں کہ متوقع لوگ آنے سے پہلے راستے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play