جتنی بھی رسوائی تھی میں نے آپ کمائی تھی سب نے جس کو شعر کہا اندر کی شہنائی تھی اور اسی روانی میں پڑھ لیں اس کو دیکھا تھا میں نے ۔آنکھ مری پتھرائی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں جھیلوں سی گہرائی تھی شبنم جیسے پتھر پر سعد جوانی آئی تھی۔ سوچتے سوچتے آخر کو۔ آنکھ مری بھر آئی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ میں سخن سرائی سے ماحول بنایا ہے کہ بات تو بڑھائی جائے۔ صورت حال نہایت دلچسپ ہے کہ نواز شریف سے مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کا بتاتے ہوئے مولانا نے اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا ہے مگر جو کچھ بھی انہوں نے کہا وہ سب کچھ ہمارے دل میں تھا۔ وہی جو بھارت کے ایک شاعر نے کہا تھا کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو ہم کو سنائی دیتا ہے اب یہ بات بھی کوئی بتانے والی ہے کہ ن لیگ کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہائے غالب کہاں یاد آ گئے: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے مجھے مولانا کی ایک بات بہت پسند ہے کہ وہ کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ ایک صحافی نے جب یہ پوچھا تھا کہ کوئی بھی آئے آپ شریک اقتدار ہو جاتے ہیں تو مولانا نے بڑے رسان سے کہہ دیا تھا کہ سب سیاستدان اقتدار کے لئے ہی سیاست کرتے ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ اکثریت سیاستدانوں کی یہی کہتی ہے کہ وہ اقتدار کے بھوکے نہیں حالانکہ وہ اقتدار کے لئے ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں۔ بوٹ پالشی بھی ارزاں دستیاب ہو جاتی ہے۔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے جب اترتا ہے تو جسم ٹوٹنے لگتا ہے اقتدار کے بغیر وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں۔ساتھ ہی مولانا نے پیپلز پارٹی کو بھی تسلی دی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی انتہا پسندانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ انہوں نے کہا کہ انتخاب سے پہلے سفیر ملتے ہی ہوتے ہیں۔امریکی سفیر کے ملنے کو غلط رنگ نہ دیا جائے۔ دوسری طرف نواز شریف نے بھی اپنے رتنوں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ آپ اسے مشاورت کہہ لیں کہ اب کیسے سرخرو ہوا جائے کہ شہباز شریف نے تو گلے میں پڑا ڈھول بجایا تھا اور وہ ڈھول ماتمی ثابت ہوا۔ ظاہر ہے کوئی ایجنڈا تو ہو گا جس کی بریفنگ لازم ہے۔ ایک اور مسئلہ حصہ بقدر حثہ تو ہوتا ہے مگر ہر کوئی اپنے جثے کو بڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے اب بلاول کا ردعمل کچھ زیادہ ہی بڑھ چکا ہے وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی لیگ کا چہرہ سب نے دیکھ لیاہے اور یہ بھی کہا کہ شیر تو بلی نکلا ۔ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ بلاول نے پی ڈی ایم کی حکومت کے تمام ثمرات اٹھائے ہیں ایسے ایسے ملکوں کے دورے بھی بحیثیت وزیر خارجہ کر لئے جو نقشے پر مشکل سے ملتے ہیں اور اگر شیر بلی نکلا ہے تو کسی اچھی عینک کا استعمال کریں اگر شیر گیدڑ نکل آئے تو محاورہ سجتا ہے۔ ہاں بلی شیر کی خالہ ضرور ہے مگر بلی نے شیر کو درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا۔ دیکھا جائے تو بلاول کھمبا نوچ رہے ہیں۔ دیکھنے والے بہت کچھ دیکھ کر ڈیل کرتے ہیں۔ بلاول کے ہاتھ میں ایک سندھ ہے وہ بھی پوری طرح نہیں۔چھوڑیے وہ نغمہ سنیے کہ: ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر اس کے علاوہ ایک اور دنیا ہے کہ جہاں کمزور لوگوں کو استحکام کی انجکشن لگائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کوئی بات نہیں تم بھی شیر بنو۔ تمہیں بھی کہیں ایڈجسٹ کریں گے۔اس حوالے سے مجھے کل عرفان صدیقی صاحب کے ایک بیان پر بڑی ہنسی آئی کہ سیاستدانوں کو کسی کے اشارے پر نہیں چلنا چاہیے کیونکہ سیاستدان اشاروں پر صرف چلتے ہی نہیں دوڑتے بھی ہیں اور اگر کہا جائے تو رقص کناں بھی ہوتے ہیں۔کچھ تو خود ہی کہتے ہیں ’’اج ساڈا نچنے نوں جی کردا‘‘کے ’’اج سانوں رج کے نچا سوہنیاں‘‘ مگر وہ بزم تو کب کی اجڑ گئی: آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو ساری باتوں کے باوجود وہ سوال ابھی تک پوچھا جا رہا ہے کہ کیا الیکشن ہونگے۔حالانکہ یقین دلایا جا چکا ہے مگر کسی کا کوئی اعتبار ہی نہیں رہا۔ وہی کہ اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے ۔ سمجھ میں سچ مچ کچھ نہیں آتا کہ امریکی سفارت خانے نے اڈیالہ جیل کے دورے کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ شاید کسی امریکی قیدی کو ملنے گئے تھے اور یقین جانیے کہ مجھے پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ کوئی امریکی قیدی بھی ہماری جیلوں میں ہو سکتا ہے۔کہ ہم تو ریمنڈ ڈیوس جیسے تہرے قتل کے مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے ہیں تو وہ ہمارے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور جان کے لالے پڑ جاتے ہیں کہ اس قاتل سے چھٹکارا کیسے پائیں اور باقی کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ نے تو خودکشی کر لی تھی کہ انصاف نہیں ملے گا۔ بہرحال کچھ نہ کچھ زیر زمین ہے وہی جو شہزاد احمد نے کہا تھا: چلتی ہے زیر دشت بھی پانی کی ایک لہر آتا ہے شہر کو بھی ہرن ناچتا ہوا آخری بات یہ کہ پرویز الٰہی دھاڑ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی والے واپس آ جائیں گے کبھی کبھی ایسا لگتا بھی ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں کہ خدشہ حقیقت بن جائے اور حقیقت افسانہ‘ ایک شعر: ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا کف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کئے
QOSHE - اقتدار کا حصول اور اصول! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اقتدار کا حصول اور اصول!

12 0
26.11.2023




جتنی بھی رسوائی تھی میں نے آپ کمائی تھی سب نے جس کو شعر کہا اندر کی شہنائی تھی اور اسی روانی میں پڑھ لیں اس کو دیکھا تھا میں نے ۔آنکھ مری پتھرائی تھی اور پھر اس کی آنکھوں میں جھیلوں سی گہرائی تھی شبنم جیسے پتھر پر سعد جوانی آئی تھی۔ سوچتے سوچتے آخر کو۔ آنکھ مری بھر آئی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ میں سخن سرائی سے ماحول بنایا ہے کہ بات تو بڑھائی جائے۔ صورت حال نہایت دلچسپ ہے کہ نواز شریف سے مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کا بتاتے ہوئے مولانا نے اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا ہے مگر جو کچھ بھی انہوں نے کہا وہ سب کچھ ہمارے دل میں تھا۔ وہی جو بھارت کے ایک شاعر نے کہا تھا کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو ہم کو سنائی دیتا ہے اب یہ بات بھی کوئی بتانے والی ہے کہ ن لیگ کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہائے غالب کہاں یاد آ گئے: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے مجھے مولانا کی ایک بات بہت پسند ہے کہ وہ کھری کھری سنا دیتے ہیں۔ ایک صحافی نے جب یہ پوچھا تھا کہ کوئی بھی آئے آپ شریک اقتدار ہو جاتے ہیں تو مولانا نے بڑے رسان سے کہہ دیا تھا کہ سب سیاستدان اقتدار کے لئے ہی سیاست کرتے ہیں۔ آپ ایک لمحے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play