پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں صرف ایک شعر اور کہ دیکھ لینا کہ یہی وقت چلنے کا۔ آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں۔ یقینا ٹھہرائو اور جمود موت ہے جبکہ پیہم چلتے رہنا اور عمل میں رہنا زندگی ہے۔ بات زندگی اور موت کی چلی ہے تو اس میں آج نہایتپتے کی بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک الگ بات ہے کہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا یا پھر زندگی زندہ دلی کا نام ہے اور پھر یہاں یہ بھی نہیں کہ زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا ۔یہ صرف ایک خیال اور تصور ہے جو اچھوتا ہے یا منفرد۔مگر بات تو میں کوئی اور کرنا چاہتا ہوں۔ یقینا انسان کی دو کیفیات ہیں مردہ اور زندہ۔یقینا زندگی تنفس کے آمد و شد کا نام ہے یا پھر عناصر کا ظہور ترتیب اور پھر موت انہی اجزا کا پریشان ہونا اور سانس کا رک جانا۔ گویا یہ بات ہم سمجھنے کے لئے کر رہے ہیں کہ سانس رک بھی جائے تو ہم مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اور ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد ہی وہ مردہ ٹھہرتا ہے، وگرنہ دوسری صورت میں اگر کوئی زندگی کی رمق ہے تو اس کا علاج معالجہ کا ہم سوچتے ہیں گویا ایک رشتہ ابھی قائم رہتا ہے اور واقعتاً جب تک جان ہے جہان ہے۔ اب ایک اور سطح پر سوچتے ہیں کہ یہ تو مردہ یا زندہ طے کرنا ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق تصدیق یا تردید کرتا ہے۔ اب ذرا قرآن یعنی کتاب ہدایت کی بات ہو جائے کہ اس میں اللہ کس کو زندہ کہتا ہے اور کس کو مردہ کہتا ہے یعنی یہاں ان حقیقتوں کے معنی کیا ہیں جب یہ کہا جاتا ہے کہ زندہ اور مردہ برابر نہیں عام سطح پر تو یہ کوئی خاص خبر نہیں یعنی وہ شخص جو ہدایت پر نہیں وہ سانس لیتے ہوئے بھی مردہ ہے اور دوسری صورت میں شہید زندہ ہے شہید کی جو موت وہ قوم کی حیات ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ادھر جسم سے زیادہ روح کا معاملہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ مردہ اور زندہ ہونا انفرادی عمل بھی نہیں بلکہ اجتماعیت بھی رکھتا ہے فرد کی موت ہوئی ہے اور معاشرے کی موت ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ اگر میں غزہ کا حوالہ دوں اور مسلم امہ کی بات کروں تو بات بڑھ جائے گی بتانا یہی تھا کہ فرد کو ہی اجتماع کو بتا یا: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موت ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں قرآن تو بہت بلند مقام سے خطاب کرتا ہے وہ جو اللہ کے دیے ہوئے نصاب اور پیمانے پر پورا اترتا ہے یعنی جس کے بارے میں قرآن بول اٹھتا ہے وہ زندہ ہے وگرنہ جو جانوروں کی طرح کھاتا پیتا مر جاتاہے وہ اس دنیا کا آدمی ہی نہیں جس کے بارے بات کی جا رہی ہے وہ زندہ شخص جو ہدایت یافتہ ہے اور روشن ہے وہ اس روشنی کے ساتھ ہے ۔یہی جو کردار کی روشنی ہے وہ اسے لے کر چلتا ہے اب یہ فرد کتنا کارآمد ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے روشنی کے جلو میں ہے بلکہ خود ہی روشن منارہ ہے، وہ جسے سقراط اور بقراط کو بتانا نہیں پڑتا تھا کہ وہ سقراط اور بقراط ہیں اسی طرح جب قرآن کی رہنمائی میں ایک کردار تیار ہوتا ہے تو وہ پورے معاشرے کے لئے ایک نمونہ ہے ایک رول ماڈل ہے: روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ جس کو اللہ سبحان و تعالیٰ زندہ بتاتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور جسے مردہ کہتے ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مردہ ہے کہ زندہ تو حق نے ہی رہنا ہے حق ہی سچ اور خوبصورت ہے باطل کو آخر کار ختم ہونا ہے ۔میں پڑھ رہا تھا کہ قیامت کے روز بھی زندہ اور ہدایت والے لوگ ہوں ان کے ساتھ ساتھ روشنی چل رہی ہو گی ایسے ہی ایک شعر ذھن میں آ گیا: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے بہرحال یہی زندہ اور روشن لوگ ہی معاشرے کا حسن ہیں وہی معاشرے کو سانس فراہم کرتے ہیں یہی وہی لوگ ہیں جو اپنی آرزوئوں امنگوں اور خواہشات کو دبا کر ہدایت کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ دعا بھی یہی کرتے ہیں کہ اے اللہ تو ایسا بنا دے کہ تجھے پسند آ جائیں۔ اب ایک لمحے کو جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو عزت کا باعث معیارات دنیا ہیں ہماری آنکھوں میں سامنے کی چکا چوند ہے آپ کسی کو دیکھ لیں سیاستدان ڈاکٹر استاد اور دوسرے شعبوں کے لوگ کہ ان کے سامنے کامیابی اور زندگی کوئی اور شے ہے کہ جو جسم کو آسودگی دے خاندان خوشحال ہو جائے اور رہن سہن علیشان،پھر ملتا ہے وہی ہے جس کی سعی کرتا ہے۔ تبھی تو اللہ نے کہا کہ ان میں سے نہ ہو جانا جو اللہ کو بھول گئے اور پھر اللہ نے انہیں ان کا اپنا آپ بھلا دیا جس کو اللہ چھوڑ دے تو پھر اس کے پاس کیا رہ گیا۔ اب یہ بتانا بھی تو ضروری ہے کہ میں نے یہ باتیں ان باتوں سے اخذ کیں جو مولانا حمید حسین صاحب نے اپنے درس میں کی تھیں۔ میں کبھی کبھی ایسا کالم بھی لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی بات کام کی لکھی جائے اپنا معاشرہ تو کچھ اور ہی بتاتا ہے اپنے دوست لطیف ساحل کا شعر یاد آگیا: سجدے کے بغیر ہی نماز پڑھیے یہ شہر جناز گاہ ہو گیا ہے اب سوچنا تو یہ ہو گا کہ جس طرح جسم کے کچھ تقاضے ہیں تو اسی طرح روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ اگر جسم بے جان ہو سکتا ہے تو روح بھی مر سکتی ہے ہم عام سطح پر بھی جیتے اور مرنے سے مرادی معنی لیتے ہیں وہی کہ فلاں کی تو ماں ہی مر گئی۔ ویسے کتنا اچھا ہے کہ انسان روشنی اور خوشبو کی طرح ہو۔ لطیف اور پاکیزہ ،جو بھی ہے ہمیشہ کی زندگی یا زندہ شخص تو قرآن ہی طے کرے گا۔
QOSHE - زندہ لوگ اور زندہ معاشرہ - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

زندہ لوگ اور زندہ معاشرہ

11 0
20.11.2023




پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں صرف ایک شعر اور کہ دیکھ لینا کہ یہی وقت چلنے کا۔ آپ کہتے ہیں تو پل بھر کو ٹھہر جاتے ہیں۔ یقینا ٹھہرائو اور جمود موت ہے جبکہ پیہم چلتے رہنا اور عمل میں رہنا زندگی ہے۔ بات زندگی اور موت کی چلی ہے تو اس میں آج نہایتپتے کی بات کرنا چاہتا ہوں یہ ایک الگ بات ہے کہ زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا یا پھر زندگی زندہ دلی کا نام ہے اور پھر یہاں یہ بھی نہیں کہ زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا ۔یہ صرف ایک خیال اور تصور ہے جو اچھوتا ہے یا منفرد۔مگر بات تو میں کوئی اور کرنا چاہتا ہوں۔ یقینا انسان کی دو کیفیات ہیں مردہ اور زندہ۔یقینا زندگی تنفس کے آمد و شد کا نام ہے یا پھر عناصر کا ظہور ترتیب اور پھر موت انہی اجزا کا پریشان ہونا اور سانس کا رک جانا۔ گویا یہ بات ہم سمجھنے کے لئے کر رہے ہیں کہ سانس رک بھی جائے تو ہم مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں اور ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد ہی وہ مردہ ٹھہرتا ہے، وگرنہ دوسری صورت میں اگر کوئی زندگی کی رمق ہے تو اس کا علاج معالجہ کا ہم سوچتے ہیں گویا ایک رشتہ ابھی قائم رہتا ہے اور واقعتاً جب تک جان ہے جہان ہے۔ اب ایک........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play