جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہے کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی لیکن کیا کریں ’’ہوس کو نشاط کار کیا کیا‘‘ ’’مل بھی جائے گر یہ دنیا ساتھ تیرے۔ پھر بھی شاید اک کمی باقی رہے گی‘‘۔ اور پھر کمی کا احساس بھی اس کو ہوتا ہے جس کے پاس بہت کچھ ہو۔ آنکھ بہرحال نہیں بھرتی۔ بات تو میں نے رومانٹک چھیڑی تھی مگر یہ سیاست میں چلی گئی اور سیاست ہے کہ ہر جگہ چلی آتی ہے۔ کیا کریں حرص و ہوس کا کوئی کنارہ نہیں۔ آپ عام کھانے پینے کی بات کر لیں، آپ کو ایسے ایسے کردار ملیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں۔ انگریزی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے معدے ان کے جسموں سے بڑے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں کھاتے ہوئے دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ یہ کھانا آخر جا کہاں رہا ہے کہ کھانے والا تو کوئی موٹا تازہ بھی نہیں ہے۔ ویسے بسیار خور کی روح یقیناً بہت متاثرہوتی ہو گی۔ دل چاہتا ہے کہ میں آپ سے اس کتیا اور اس کے پلے کا ذکر ۔۔۔ تذکرہ کروں جس کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ بارش میں اس پر ترس کھا کر دودھ ڈالا تو وہ ہمارے گیٹ کے ساتھ چپک گیا۔ دن رات وہیں بیٹھا رہتا۔ دونوں ماں بیٹا دھتکارنے پر بھی نہیں ہلتے۔ اور اب بات کچھ بڑھ گئی ہے۔ اب وہ سولڈ چیزیں مانگتے ہیں۔ آج میں فجر کی نماز پڑھنے نکلا تو وہ دونوں انتظار میں تھے۔ میں نے دروازہ بند کیا یعنی گیٹ بند کیا تو وہ دستک دینے لگے۔ مرتا کیا نہ کرتا ان کا کچھ بندوبست کیا اور پھر نماز کے لیے نکل گیا کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کتے کی بس ایک حس ہے کہ کہاں سے ملتا ہے اور پھر وہ در نہیں چھوڑتا۔ اسی باعث تو بلھے شاہ نے کہا تھا ’’مالک دا اوہ مول نہیں چھڈے بھاویں لگاون سو سو جتے۔ چلیے اس بات کو بھی چھوڑتے ہیں۔ حافظ حسین ایک مرتبہ پھر سکرین پر جلوہ گر ہوئے تو ہم بہت خوش ہوئے کہ ہمارے تو وہ پسندیدہ ہیں۔ وہ بنیادی اور مرکزی بات کر جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی لاڈلا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کوشش نہ بھی کرے مگر دل میں ارمان ضرور رکھتا ہے۔ یہ کوئی شیخ رشید تو ہے نہیں کہ پروا نہ کرے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر کوئی ظاہر بھی کرتا ہے کہ وہ سب سے بے نیاز ہے اور عوامی مقبولیت کے سر پر میدان میں نکلا ہے اور پھر اپنی قبولیت کی دعا ہی نہیں کرتا قبولیت کے لیے کہیں نہ کہیں رجوع بھی کرتا ہے۔ کوئی تو رات کے اندھیرے میں جاتا ہے۔ چاہے اس کو گاڑی کی ڈکی میں بیٹھ کر ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اب بلاول محترم فرما رہے ہیں وزیر اعظم اور کے پی کے کا وزیر اعلیٰ جیالا ہو گا اور یہ بات کم از کم میں تو پھینکنے والا نہیں۔ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک منصوبہ ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ مرکز کا وعدہ بھی ہو سکتا ہے۔ کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن سے تبھی پی پی کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ایسے ہی ہو گا لوگوں کے اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف بھی جو باقاعدہ وزیر اعظم نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی بدن بولی سے بھی یہی تاثر دیتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ان کا تاجران کے لیے بیان اور پھر انڈسٹری کے لیے آنے والوں سے پیسے نہ پوچھنے کی پالیسی ہونی چاہئے۔ والی بات دل کو لگتی ہے کہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ معیشت کو سنبھالا دیا جائے کہ معاملات کچھ زیادہ ہی دگرگوں ہو گئے ہیں۔ تو آپ سوچ رہے ہونگے کہ پھر ہو گا کیا۔ ہو سکتا ہے بلاول توپ کے لائسنس کی ضد کریں تو ریوالور کا لائسنس مل جائے۔ یعنی سندھ پکا ہو جائے۔ وگرنہ پیپلزپارٹی والے خود بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو زرداری پارٹی بنا کر اس خاندان نے مقبولیت ختم کر لی ہے۔ دوسری بات یہ کہ سینئر لوگ بھی نالاں ہے۔ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے لوگوں نے کہیں اور اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ویسے ایک بات تو بلاول نے درست کہی ہے کہ کیا پاکستان کا مستقبل 70سالہ بابوں کے حوالے کر دیں۔ یہ 70 سال بھی انہوں نے کم بتایا ہے کم سے کم وہ 70سال ہے۔ معلوم نہیں کہ زرداری صاحب کی عمر کیا ہے۔ مگر زرداری صاحب کے بغیر پیپلزپارٹی سانس بھی نہیں لے سکتی۔ تو یہی کلیہ دوسری طرف لاگو ہوتا ہے کہ ادھر بھی اگلی نسل تیار ہے۔ وہی بلاول کی بہن مریم نواز یا بھائی حمزہ شہباز۔ مولانا کا شعلہ بیاں فرزند بھی۔ مسئلہ تو خاندانوں کا ہے کہ ہماری سیاست یا جمہوریت ان کے گھر کی باندھی ہے جس کے سامنے بڑے بڑے سینئر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں ورنہ وہ چوہدری نثار اور شاہد خاقان عباسی بنا دیئے جاتے ہیں۔ اور کچھ ضمنی کردار ہیں اور وہ اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ شیخ رشید کس فخر سے کہتے ہیں کہ وہ برس ہا برس گیٹ نمبر چار کے ہمراہی رہے۔ انہیں کوئی پاگل کہے یا کچھ مگر صاحب خاصے کامیاب شخص ہیں۔ آپ کے تفنن طبع کے لیے پھر حافظ حسین احمد کا تذکرہ کروں گا کہ انہوں نے تب بھی وردی کی بات کی تو چودھری شجاعت نے کہا تھا کہ وردی تے مٹی پا دو۔ حافظ صاحب نے کہا تھا ’’مٹی تو ڈال دیں گے پہلے اپنا بندہ تو وردی سے نکال لیں۔ ہم تو انتخابات چاہنے والے ہیں۔ سنا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات کی چھپوائی بھی شروع ہو گئی ہے مگر لوگ تواپنی دانست میں تو ہے کاکڑ صاحب کو وزیر اعظم سمجھنے لگے ہیں کہ اخبارات والے بھی اب انہیں نگران لکھنا بھول جاتے ہیںآخری بات یہ کہ عوام کچھ اور سوچتے ہیں۔
QOSHE - عوام کچھ اور سوچتے ہیں - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

عوام کچھ اور سوچتے ہیں

7 0
19.11.2023




جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہے کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی لیکن کیا کریں ’’ہوس کو نشاط کار کیا کیا‘‘ ’’مل بھی جائے گر یہ دنیا ساتھ تیرے۔ پھر بھی شاید اک کمی باقی رہے گی‘‘۔ اور پھر کمی کا احساس بھی اس کو ہوتا ہے جس کے پاس بہت کچھ ہو۔ آنکھ بہرحال نہیں بھرتی۔ بات تو میں نے رومانٹک چھیڑی تھی مگر یہ سیاست میں چلی گئی اور سیاست ہے کہ ہر جگہ چلی آتی ہے۔ کیا کریں حرص و ہوس کا کوئی کنارہ نہیں۔ آپ عام کھانے پینے کی بات کر لیں، آپ کو ایسے ایسے کردار ملیں گے کہ آپ دنگ رہ جائیں۔ انگریزی میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے معدے ان کے جسموں سے بڑے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں کھاتے ہوئے دیکھیں تو حیران رہ جائیں کہ یہ کھانا آخر جا کہاں رہا ہے کہ کھانے والا تو کوئی موٹا تازہ بھی نہیں ہے۔ ویسے بسیار خور کی روح یقیناً بہت متاثرہوتی ہو گی۔ دل چاہتا ہے کہ میں آپ سے اس کتیا اور اس کے پلے کا ذکر ۔۔۔ تذکرہ کروں جس کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ بارش میں اس پر ترس کھا کر دودھ ڈالا تو وہ ہمارے گیٹ کے ساتھ چپک گیا۔ دن رات وہیں بیٹھا رہتا۔ دونوں ماں بیٹا دھتکارنے پر بھی نہیں ہلتے۔ اور اب بات کچھ بڑھ گئی ہے۔ اب وہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play