Aa
Aa
Aa
-
A
+
ہم کھوکھلے انسان اور فلسطین
سقوط سلطنتِ عثمانیہ کے بعد عرب قوتوں نے سیاسی طور پر آزاد ہونے کی جو تحریک چلا رکھی تھی، اس میں یہ طے پایا تھاکہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب علاقوں کو خود مختار بنا دیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ صیہونیوں نے اپنی مخصوص ریاست قائم کرنے کے لیے جو مطالبہ پیش کر رکھا تھا دنیا اس کی مخالفت کرتی لیکن پہلی جنگِ عظیم سے قبل 2600 یہودی فلسطین میں آباد تھے مگر صلیبی جنگوں کے خاتمے کے بعد بہت سے عرب علما کو پھانسیاں دی گئیں۔ بہت سوں کو جلا وطن کیا گیا۔ تھیوڈرہرزل جو صیہونیت کا بانی تھا کے مرنے کے بعد شائم وائز مین نے اس کی عملی پالیسی قائم کی۔ تب سے لے کر آج تک فلسطینیوں کو اپنے وجودیت کی صورتِ حال کا جو سامنا ہے وہ نہایت بھیانک ہے۔ غزہ بدستور جارحیت کے نشانے پر ہے۔ فلسطینی اور مشرقِ وسطیٰ کی دوسری ریاستوں میں جہاں مسلمان اور عرب بھائی بہنیں موجود ہیں ان کے بیچ مؤاخات کا رشتہ تو کہیں ضرور ہے۔ مگر اس اخوت کے رشتے پر بھی شک کی چھاپ لگی ہے۔ پچھلے دنوں میں نے فلسطینی ادیب غسان کنفانی کے ناولٹ ’’رجال فی الشمس‘‘ کا اردو ترجمہ ’’دھوپ میں لوگ‘‘ پڑھا۔ اس کے مرکزی کردار کو ایک ٹینکر کے خالی پیٹ میں بٹھا کر کویت سمگل کیا جا رہا تھا۔ وہاں دو اور پناہ گزین بھی تھے۔ ٹینکر جب کسٹم کی سرحد کی چوکی پر پہنچتا ہے تو ان........
© Daily 92 Roznama
visit website