چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے جس طرح ہم نے گزارہے ہیں وہ ہم جانتے ہیں دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے چلیے اس مناسبت میں ایک شعر اور کہ سعد پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے ۔انسان کو اپنے شب و روز کا کیا معلوم کہ کس گلی میں صبح ہو اور کس گلی میں شام ہو جائے۔ مگر تحرک کا نام زندگی ہے یعنی ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ سوچا کہ آج ملکی صورتحال پر لکھا جائے کہ سیاستدان ان دنوں فعال ہو رہے ہیں خاص طور پر نواز شریف کی ملاقاتیں شیڈول ہو رہی ہیں اور کچھ ہو چکی ہیں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پہلے پہل انہوں نے تعلیمی اداروں میں جانے کی ٹھانی تھی یا پھر یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہے مگر ان پر کھل گیا کہ آج کل کے بچے شوخ و شنگ سوالات بھی کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ خبر کا تذکرہ کہ ن لیگ کو ٹکٹوں کے ضمن میں ایک ارب روپے اکٹھے ہونگے یہ تو سراسر توہین آمیز خبر ہے کہ ایک ارب روپے کی اہمیت ہی کیا ہے مجھے تو وہ سیاسی شخصیت یاد آئی کہ جب یونس حبیب نے پیسے بانٹے تھے اور اس شخصیت کے نام پانچ کروڑ روپے تھا اس نے اس کا بہت برا منایا تھا کہ اس کی قیمت صرف پانچ کروڑ اب تو کروڑوں ملازمین کے اکائونٹس سے نکل آتے ہیں ۔ مجھے نہایت ایک واقعہ اپنے ایک دوست شاعر کا یاد آیا وہ بے چارے شاعر تو بس ایسے ہی تھے ۔ تاجرامیر کبیر تھے ۔ کوئی بھی شاعر نیا ملتا تو ایک عدد کھانا اس کا اپنے گھر پر رکھ لیتے۔ انکا شعری مجموعہ آیا تو وہ اس کی کئی کاپیاں کار میں رکھ کر مارکیٹ نکلتے۔ چار چار پانچ پانچ دکانوں پر رکھوا دیتے پھر اپنے ڈرائیور کے ہاتھوں وہ خرید لیتے دکاندار بہت متاثر ہوتے کہ مانگ بہت ہے پھر دکاندار وہ کتابیں اردو بازار سے یا پبلشرز سے منگواتے اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں کہ ان کو کون خریدتا۔ تاہم وہ مارکیٹ ہو جائیں مگر اپنی کتابیں پھیلا کر اکٹھی کرنا کمال کا فن تھا۔ یہ باقاعدہ ایک سائنس ہے کہ پارٹی کے لئے فنڈز کہاں سے پیدا کرتے ہیں۔ پارٹی کے لئے فنڈز کہاں سے پیدا ہوتے ہیں۔ میاں صاحب سندھ کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں مگر بلاول نے انہیں اچھا مشورہ دیا ہے کہ وہ اکا دکا سیٹوں کے لئے تکلیف نہ اٹھائیں بلکہ پنجاب پر توجہ مرکوز کریں ۔دوسرے لفظوں میں بانٹ کر کھائیں ،سندھ پیپلز پارٹئی کے پاس رہنے دیں ۔پیپلز پارٹی کے پاس بھی تو سندھ کے سوا شاید جنوبی پنجاب میں دو تین سیٹیں ہوں ۔یہ بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ خفیہ طور پر پی ڈی آئی کو چلاتے رہے ہیں مگر شاید ایسا نہیں ہے انہوں نے پیپلز پارٹی سے بندے بھیجے ضرور تھے مگر پی ٹی آئی کا کلچر ان سے آگے نکل گیا۔ میں ن لیگ کے ایک رہنما بیان پڑھ رہا تھا کہ میاں صاحب کو جو پروٹوکول مل رہا ہے یہ ان پر بننے والے غلط کیسز کی جزا ہے، ان پر کوئی احسان نہیں۔ یہ نہیں بتایا کہ جزا اور سزا ہے کس کے پاس میاں صاحب کی آئو بھگت اور پذیرائی نے بہت سوں کو ایکسپوز ضرور کر دیا ہے، مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے ہم تو سربازار ناچیں گے ہاں ہاں حبیب جالب کا وہ نغمہ بھی یاد آ رہا ہے رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ‘تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی۔ تاہم سیاسی منظر نامہ پوری طرح مکمل نہیں ہو رہا ۔ غزہ میں ہونے والی اسرائیلی سفاکیت نے ہر جگہ ایک سوگوار سی فضا پیدا کر رکھی ہے اور اس فضا میں ہمارے محب وطن بھیگی بلی کی طرح کھمبا بھی نہیں نوچ رہے ہیں۔ ایک لاتعلقی جسے عوام محسوس کر رہے ہیں یہ لاتعلقی کسی وقت بھی مخالفت میں جا سکتی ہے اس کا ایک خوف موجودہ ہے: دست دیگر یہ نہ آ جائیں منافق سارے اے مرے دوست ذرا سوچ کے دعویٰ لکھنا کچھ سراج الحق صاحب بھی رنگ میں بھنگ ڈال رہے ہیں کہ مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساری سیاسی قیادت غزہ کو بچانے کی جدوجہد میں شریک ہو جائے اور دوسری طرف امریکہ کے پیاروں کا یہ حال ہے کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ مسلمان اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی کوئی عملی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں چہ جائے کہ اقتدار کے امیدوار یہ رسک لیں ان لوگوں میں سے صلاح الدین ایوبی ڈھونڈنا اب اپنا مذاق اڑانے والی بات ہے۔ یہ لوگ تو کاروبار کے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس میں گھاٹے کا سودا کون کرتا ہے۔ یہ تو اس لطیفے کی مصداق جنت میں بھی اپنا گھر بیچ کر کاروبار کی کوشش کریں گے۔ آپ کہیں گے کہ جنت میں تو گئے میں ہمیشہ سب کے لئے خوش گمان ہوں مگر گھر بیچنا تو احسان فراموشی ہوئی ایسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: ایک نفرت کہ پروان چڑھی جاتی ہے ایک طوفان ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے فروری میں الیکشن ہونگے کہ نہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے مگر بلاول شور مچا رہے ہیں کہ الیکشن کے نتائج تیار کیے جا رہے ہیں بار بار فیر الیکشن کی بات ہوتی ہے فیر اینڈ لولی تو صرف کریم ہی ہو سکتی ہے۔ الیکشن میں دائو تو سارے آزمائے جاتے ہیں۔انتخاب تو انتخاب ہیں یہ کوئی ریفرنڈم تو ہے نہیں کہ لکھ دیں کہ اگر آپ اسلام پسند کرتے ہیں تو میں پانچ سال تک پکا۔ ن لیگی اگرچہ اچھی امید رکھے ہوئے ہیں مگر ان کے راستے میں شہباز شریف کی سولہ ماہ کی کارکردگی ہے جو یقینا سنگ میل نہیں سنگ راہ ہے۔ شہباز شریف تو کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے سیاست نہیں بچائی ملک بچا لیا یعنی دیوالیہ نہیں ہونے دیا۔ اب اس کا فیصلہ تو عوام کریں گے جنہیں دیوالیہ پن تک لایا گیا۔ حسن جاوید کا ایک شعر اور اجازت: صحرا کے مسافر نے کڑی دھوپ کے ہاتھوں سائے کے عوض عزم سفر بیچ دیا ہے
QOSHE - سولہ ماہ سنگ میل یاسنگ راہ! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سولہ ماہ سنگ میل یاسنگ راہ!

8 0
17.11.2023


چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے جس طرح ہم نے گزارہے ہیں وہ ہم جانتے ہیں دن فراغت کے بظاہر بڑے آرام کے تھے چلیے اس مناسبت میں ایک شعر اور کہ سعد پڑھنا پڑی ہم کو بھی کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے ۔انسان کو اپنے شب و روز کا کیا معلوم کہ کس گلی میں صبح ہو اور کس گلی میں شام ہو جائے۔ مگر تحرک کا نام زندگی ہے یعنی ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ سوچا کہ آج ملکی صورتحال پر لکھا جائے کہ سیاستدان ان دنوں فعال ہو رہے ہیں خاص طور پر نواز شریف کی ملاقاتیں شیڈول ہو رہی ہیں اور کچھ ہو چکی ہیں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پہلے پہل انہوں نے تعلیمی اداروں میں جانے کی ٹھانی تھی یا پھر یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہے مگر ان پر کھل گیا کہ آج کل کے بچے شوخ و شنگ سوالات بھی کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ خبر کا تذکرہ کہ ن لیگ کو ٹکٹوں کے ضمن میں ایک ارب روپے اکٹھے ہونگے یہ تو سراسر توہین آمیز خبر ہے کہ ایک ارب روپے کی اہمیت ہی کیا ہے مجھے تو وہ سیاسی شخصیت یاد آئی کہ جب یونس حبیب نے پیسے بانٹے تھے اور اس شخصیت کے نام پانچ کروڑ روپے تھا اس نے اس کا بہت برا منایا تھا کہ اس کی قیمت صرف پانچ کروڑ اب تو کروڑوں ملازمین کے اکائونٹس سے نکل آتے ہیں ۔ مجھے نہایت ایک واقعہ اپنے ایک دوست شاعر کا یاد........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play