تلخیٔ زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ ہم کوئی خواب سی حقیقت میں یا حقیقت جڑی ہے خواب کے ساتھ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ سودوزباں کی بستی میں۔ کون کتنا چلے خواب کے ساتھ۔ رنگ و بو پر سمجھ کی گئی۔ کون بکھرا مگر گلاب کے ساتھ ۔ بات یہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھیں اور کیوں لکھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں یا تو کوئی دلچسپ کہانی ہو کوئی انشا پردازی ہو اور یا کوئی گہری مقصدیت ۔ غالب نے کہا تھا زندگی اپنی جب اس رنگ میں گزری یا رب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے اور منیر نیازی نے کہا تھا، چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو۔ زندگی کیسی بھی ہو گزر جاتی ہے ۔میں زندگی پر تو نہیں لکھنے بیٹھا کہ یہ ہے بھی کیا ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعد اتنی سی بات ساری ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ۔ مگر سب کی سوچ تو ایک جیسی نہیں ہے کچھ ایسے حساس بھی تو ہیں جو دوسروں کے غم میں زندہ رہتے ہیں سب کا درد محسوس کرتے ہیں روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں زندگی کا کوئی حساب نہیں اور جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو۔ پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں۔ ابھی کل ہی میں نے برطانیہ میں نکلنے والے احتجاجی جلسہ میں کہ جو فلسطینیوں کے لئے تھا کہ اسرائیل نے دہشت گردی درندگی اور وحشت کی ساری حدیں پار کر دی ہیں ایک لیڈی ڈاکٹر معصوم فلسطینیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اچانک اپنے گرتے ہوئے آنسو سنبھالنے لگی یہ وہی ہے جو فراز نے کہا تھا ہر آدمی الگ سہی لہو کا رنگ ایک ہے۔ مگر شاید یہ بات غلط ہے کہ اپنوں کا تو خون سفید ہو چکا ہے یہ صرف محاورہ ہی نہیں تمام مسلمان ممالک عملی طور پر ثابت کر رہے ہیں دو تین تو دو تین دھمکیاں بھی لگا دیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے اسرائیل ظلم بڑھا دیتا ہے۔ میں نے ایک ٹینس سٹار کو دیکھا جو مسلمان تو نہیں مگر اس نے اپنا ایوارڈ اور انعام فلسطین کے بچوں کے لئے پیش کر دیا۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا امریکہ اور اسرائیل کے حکمرانوں کے دل کس دھات کے بنے ہوئے ہیں مگر پتھر بھی بعض اوقات پگھل جاتا ہے یہ سب کیا ہے امریکہ میں بھی اکثریت یہودیوں کی ہے وہ ہٹلر کی بات تو کرتے ہیں مگر دس ہٹلر بھی اتنی سفاکی نہیں دکھا سکتے جتنی سفاکی اب اسرائیلی دکھا رہے ہیں۔ ہسپتال محفوظ ہیں اور نہ پناہ گاہیں شاید قبرستان بچے ہوں مگر اب تو سارا علاقہ ہی قبرستان بنتا چلا جا رہا ہے عدیم نے کہا تھا غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر ایسی صورت حال میں یقیناً پاکستانی وزیر اعظم نے بھی فلسطینیوں کے حق میں بیانات دیے ہیں او آئی سی صرف بیان بازی کر سکتی ہے یا کچھ قرار دادیں کہ جس کا حشر ہم سب جانتے ہیں اقوام متحدہ جیسے ہاتھی کو امریکہ نے اپنے لئے پال رکھاہے جو دوسروں کے لئے سفید ہاتھی ہے اور اس ہاتھی کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور اور جہاں تک ہمارے حکمران ہیں تو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ اے اللہ ہماری کیسی آزمائش ہے آپ ایک نظر اپنے سیاسی منظر نامے پر ڈالیں تو وہاں آپ کو سارے گونگے ہی نظر آئیں گے جو آپس میں محو کلام ہیں یا پھر ان کی ماں ان کی زبان سمجھتی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ لوگ سچ مچ ان لوگوں سے متنفر ہو چکے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں کہ یہ برس ہا برس سے باری باری عوام کو لوٹ رہے ہیں درمیان میں ایک وقفہ آیا مگر وہ بھی بدترین تھا کہ کچھ نئے ڈاکوئوں ادھر آن ملے ان دو پارٹیوں سے تو لوگ اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ یہ اس زمین کے ہیں ہی نہیں کوئی برطانیہ بھاگتا ہے کوئی دبئی ان کی عیدیں شبراتیں سب ادھر ہیں کاروبار اور خزانے وہیں ہیں یہاں تو وہ لوٹنے آتے ہیں اور ہماری شکل دکھا کر دنیا سے بھیک بھی مانگتے ہیں اور قرضے لے کر ہمارے نام پر اپنی جائیدادیں بناتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اپنے مفادات میں جو سراسر عالمی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ایسے ہی جالب صاحب یاد آ گئے: میں غزل کہوں تو کیونکر کہ جدا ہیں میری راہیں میرے اردگرد آنسو مرے آس پاس آہیں کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ غریب کس حال میں ہے ہماری ترجیحات عجیب و غریب ہیں۔ ہر ادارہ تباہ ہو گیا یا کر دیا گیا ہر جگہ اقربا پروری اور بدعنوانی مستحق کو حق نہیں مل سکتا اور یہی ظلم کہلواتا ہے۔ پھر حضرت علیؓ کے بقول ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی یا ظلم سے حکومت نہیں چل سکتی تبھی تو کہتے ہیں حق بجانب ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو مگر ہماری بری حالت کے باوجود غزہ اور فلسطین کا معاملہ کسی کا نہیں ہمارا اپنا ہے۔ پوری دنیا کے لوگ باہر نکلے ہوئے ہیں مگر مکار دشمن غزہ کو مقتل بنائے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ اپنے رویوں میں سنجیدگی لائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اب اپنے ملک کا بھی سوچیں کہ الیکشن میں کیا کرنا ہے فی الحال تو سکوت مرگ جیسی صورتحال ہے جن کے گلے میں ہار ہیں وہ طوق سے کم نہیں ہیں مگر اقتدار عجیب شے ہے کہ اس کے بعد موت بھی قبول کر لی جا سکتی ہے فی الحال بہت غبار ہے دیکھیے کیا برآمد ہوتا ہے: میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا
QOSHE - مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا

5 0
15.11.2023


تلخیٔ زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ ہم کوئی خواب سی حقیقت میں یا حقیقت جڑی ہے خواب کے ساتھ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ سودوزباں کی بستی میں۔ کون کتنا چلے خواب کے ساتھ۔ رنگ و بو پر سمجھ کی گئی۔ کون بکھرا مگر گلاب کے ساتھ ۔ بات یہ ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھیں اور کیوں لکھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس میں یا تو کوئی دلچسپ کہانی ہو کوئی انشا پردازی ہو اور یا کوئی گہری مقصدیت ۔ غالب نے کہا تھا زندگی اپنی جب اس رنگ میں گزری یا رب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے اور منیر نیازی نے کہا تھا، چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو۔ زندگی کیسی بھی ہو گزر جاتی ہے ۔میں زندگی پر تو نہیں لکھنے بیٹھا کہ یہ ہے بھی کیا ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعد اتنی سی بات ساری ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے۔ ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ۔ مگر سب کی سوچ تو ایک جیسی نہیں ہے کچھ ایسے حساس بھی تو ہیں جو دوسروں کے غم میں زندہ رہتے ہیں سب کا درد محسوس کرتے ہیں روز جیتا ہوں روز مرتا ہوں زندگی کا کوئی حساب نہیں اور جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو۔ پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں۔........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play