لفظ غیرت پہ اس کو حیرت تھی دیکھنے والی اس کی صورت تھی خامشی میں تھی درد کی تاثیر کیا وضاحت تھی کیا بلاغت تھی ایک شعر اور پڑھ لیں: آسماں سے لائی زمیں پہ مجھے یہ میری اولیں محبت تھی یہ تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہنوط آدم کی طرف اشارہ ہے یہ سب محبت ہی میں تو ہوا تھا اس پر ہمارے دوست ندیم نے کہا تھا اپنی گردن جھکا کے بات کرو۔ تم نکالے گئے ہو جنت سے۔ بات کسی اور طرف نکل جائے گی کہ مجھے تو ایک خاص بات کرنی ہے کہ جس کا تعلق اخلاقیات سے اور جس کے بارے میں کرنی ہے اس کا تعلق بھی یقیناً اخلاق اور اقدار سے ہو گا کہ ان کا ایک قول ضرب المثل ہوا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے یہ وائرل قول کس کو یاد نہیں ہو گا مگر ان کے ایک موجودہ بیان سے ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا: ہمارا کیا جو تو نے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریبان تھا جی جناب!آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں کہ ا یک بات جو کہ ٹھیٹھ پنجابی ہے اور بڑی معنی خیز ہے یہ بات انہوں نے کہی ہے اور یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ فرماتے ہیں کہ جدوں پیراں تے کھڑے ہون دا ویلا آیا تے ہسپتال وچ لمی پے گئی اے۔ الفاظ ادھر ادھر ہو سکتے ہیں مگر مفہوم یہی تھا کہ جب مقابلہ کرنے کا یا کھڑے ہونے کا وقت تھا تو محترمہ صاحبہ افراش ہو گئی ہیں۔ بات میں لہجہ اور انداز بہت رول ادا کرتا ہے کوئی ذی شعور اس گھٹیا بات سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔لطف کی بات تو یہ ہے کہ ان کو پی ٹی آئی کے دور میں ان پر یہی اعتراض ہوا کرتا تھا کہ پی ٹی آئی والے بدتمیزی کرتے ہیں۔ ان پر فقرے کستے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس گھٹیا بیان کو اس لئے بھی زیادہ شدت سے محسوس کیا گیا کہ یاسمین راشد ایک سینئر ڈاکٹر سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوبر خاتون ہیں اس سے بھی آگے کی بات وہ ستر سال کو پہنچ رہی ہیں اور ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں وہ زندگی سے لڑ رہی ہیں۔ یاسمین راشد ہی کیا یہی صاحب ہی تھے جنہوں نے اسمبلی میں شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہا تھا۔ ان کی تو اپنی جیت بھی مشکوک رہی ہے کہ کہاں سے انہیں فون کروانا پڑا تھا۔ کچھ باتیں ان کی اچھی اور صاف بھی ہوتی ہیں کہ وہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ احتیاط کا دامن چھوڑ دیں۔ مجھے تو ان کا وہ انٹرویو بھی یاد ہے جس میں وہ اپنے بنیاد پرست مسلمان ہونے پر شرمندہ نظر آئے تھے تو انٹرویو کرنے والے کو یقین دلا رہے تھے کہ انہیں موقع دیا گیا تو وہ انہیں سسپینس دیں گے ایسے لوگ ہیں جو یورپ اور خصوصاً امریکہ کو یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ وہ آ کر لبرل قسم کی صورت حال پیدا کریں گے اور وہ امریکہ کو طالبان سے ڈراتے رہے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ یہ لوگ عوام کی بات کبھی نہیں کریں گے بس انہیں اقتدار ملنا چاہیے۔ یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کی زبان اورہوتی ہے اور جب اقتدار چھن جاتا ہے تو انہیں جمہوری اقدار یاد آ جاتی ہیں۔درست کہا ارشاد بھٹی نے کہ ابھی تو انہیں اقتدار کی خوشخبری آئی ہے اور ساتھ ہی وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔ چلیے بات اخلاقیات کی ہو رہی ہے تو اس کے لئے کچھ نہ کچھ کوڈ آف کنڈکٹ طے ہونا چاہیے مگر یہ طے کون کرے گا سب ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ یہ ادب آداب کہاں سے سیکھے جائیں کہاں سے رہنمائی لی جائے یہ طعن و تشنیع تو ویسے بھی مرد کو زیب نہیں دیتی ویسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی گفتگو میں مٹھاس نرمی آپ کے کردار کو قابل قبول بناتی ہے آپ کی شخصیت کو نکھارتی ہے ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ جب میں ایک شخص کو ناراض کرتا ہوں تو گویا اپنی قدر کرنے والوں میں سے ایک کم کر لیتا ہوں اگر آپ کسی کی دلآزاری کریں گے تو وہ آپ کو جواب میں پھول نہیں بھیجے گا۔غالباً تبھی تو جگر مراد آبادی نے کہا تھا: جن کا یہ کام ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے یقینا ہم بھی بات کرتے تھے کہ پی ٹی آئی والوںنے طوفان بدتمیزی مچایا اور وہ اس مقصد کے لئے روضہ رسولؐ تک بھی پہنچ گئے کہ وہاں آنے والے ن لیگیوں پر نعرہ زن ہوئے۔ ہم نے اس بات پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ لندن میں ان کے فلیٹس کے باہر تو جو کچھ ہوتا رہا سب کو معلوم ہے مگر ہم تو تاریخ نہیں بھولتے۔ ن لیگ نے کیا کچھ نہیں کر رکھا اور پھر محترمہ بے نظیر اور نصرت بھٹو کے حوالے سے شیخ رشید کی زبان درازی کون بھولے گا۔ خود نواز شریف بھی گل افشانی فرماتے رہے ہیں۔یہ فقرہ بازی اصل میں بوم رینگ کی طرح ہوتی ہے۔آپ نے بوم رینگ تو دیکھا ہو گا جو کبھی پلٹ کر بھی آتا ہے اس میں نیوٹن کا عمل اور ردعمل کا فارمولا بھی چلتا ہے وہی کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ آپ کی دشمنی میں بھی ایک تمکنت اور وضعداری ہونی چاہیے کہ دشمن بھی آپ کو خاندانی سمجھ کر بات کرے اور آپ سے کسی بھی ذلیل رویے کی ہرگز توقع نہ کرے وہی جو اختر شمار نے کہا تھا: میرے معیار کا تقاضا ہے میرا دشمن بھی خاندانی ہو ہمارا لکھنے کا لب لباب یہ ہے کہ جب آپ کسی کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اصل میں آپ اپنی عزت نہیں کر رہے ہوتے اگر آپ محض کسی کو ہنسانے کے لئے یہ کر رہے ہیں تو پھر بھی آپ کسی مسخرے سے زیادہ نہیں ہیں۔ شیخ سعدی نے بھی فرمایا تھاکہ ہنسنا ہنسانا دوستوں کے لئے چھوڑ دو۔ یہ کوئی ارفع و اعلیٰ کام نہیں۔آپ کی بات اور گفتگو گل کھلائے۔ یہ گل کھلانا منفی نہ لیں مطلب پھول کھلا ئے ۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب آداب اس کے دیکھیے انداز دیکھیے
QOSHE - میرا دشمن بھی خاندانی ہو - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

میرا دشمن بھی خاندانی ہو

10 0
13.11.2023


لفظ غیرت پہ اس کو حیرت تھی دیکھنے والی اس کی صورت تھی خامشی میں تھی درد کی تاثیر کیا وضاحت تھی کیا بلاغت تھی ایک شعر اور پڑھ لیں: آسماں سے لائی زمیں پہ مجھے یہ میری اولیں محبت تھی یہ تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہنوط آدم کی طرف اشارہ ہے یہ سب محبت ہی میں تو ہوا تھا اس پر ہمارے دوست ندیم نے کہا تھا اپنی گردن جھکا کے بات کرو۔ تم نکالے گئے ہو جنت سے۔ بات کسی اور طرف نکل جائے گی کہ مجھے تو ایک خاص بات کرنی ہے کہ جس کا تعلق اخلاقیات سے اور جس کے بارے میں کرنی ہے اس کا تعلق بھی یقیناً اخلاق اور اقدار سے ہو گا کہ ان کا ایک قول ضرب المثل ہوا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے یہ وائرل قول کس کو یاد نہیں ہو گا مگر ان کے ایک موجودہ بیان سے ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا: ہمارا کیا جو تو نے تنگ آ کر چاک کر ڈالا ترا دامن تھا تیری جیب تھی تیرا گریبان تھا جی جناب!آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں کہ ا یک بات جو کہ ٹھیٹھ پنجابی ہے اور بڑی معنی خیز ہے یہ بات انہوں نے کہی ہے اور یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ فرماتے ہیں کہ جدوں پیراں تے کھڑے ہون دا ویلا آیا تے ہسپتال وچ لمی پے گئی اے۔ الفاظ ادھر ادھر ہو سکتے ہیں مگر مفہوم یہی تھا کہ جب مقابلہ کرنے کا یا کھڑے ہونے کا وقت تھا تو محترمہ صاحبہ افراش ہو گئی ہیں۔ بات میں لہجہ اور انداز بہت رول ادا کرتا........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play