آج بھی میرا نہیں اور میرا کل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں میں روز ایک نئے تجربے سے گزرتا ہوں۔ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے۔ ایک ہی وقت میں اپنی سوچیں کدھر کدھر سفر میں رہتی ہیں۔ کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ایک ہی وقت میں غزہ کے دربدر مظلوموں کا دکھ اور اس پرسوا اپنے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی خاموشی کا غم مجھے نہیں۔ معلوم کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ اپنے تئیں اعانت اور دعائیں کیا یہ تسلی کافی ہے۔ ایک بے چینی اور اداسی اور بھی کئی دکھ ہیں جو فیض صاحب کی یاد دلا جاتے ہیں کہ اور بھی دکھ ہیں محبت کے سوا ۔ اس سے پیشتر بھی ایک تجربہ ہوا جب میں اقبال ٹائون میں رہتا تھا تو ایک بلی کئی برسوں سے ہمارے ساتھ تھی ایک روز بیگم نے کہا کہ بس حد ہو گئی ہے یہ میرے پائوں میں اچانک آ جاتی ہے اسے اٹھا کر کہیں چھوڑ آئیں میں نے برجستہ کہا کہ آپ اسے دودھ ڈالنا چھوڑ دیں تو یہ خود ہی چلی جائے گی اس نے پلٹ کر کہا کیا میں گنہگار بن جائوں کہ دودھ نہ ڈالوں میں نے کہا تو کیا آپ مجھے گنہگار کرنا چاہتی ہیں کہ اسے رہائش سے محروم کر دوں اس کے بعد مدت تک اس موضوع پر بات نہ ہوئی۔ ہوا یوں کہ کچھ روز قبل میں فجر کی نماز کے بعد واپس پلٹا تو بارش اتری میں نے محلے کی نکر پر ایک کتیا اور اس کے نوزائیدہ بچے کو دیکھا تو خیال آیا کہ یہ تو بھوکی ہو گی گھر گیا اور دودھ لا کر اس کے سامنے رکھ دیا وہ دن اور آج کا دن میری تو جیسے ڈیوٹی لگ گئی اور اس کتیا نے تو اپنے پلے کے ساتھ دروازے کے ساتھ ڈیرے لگا دیے گھر والے کہتے ہیں کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا کہ دودھ ڈالو گے تو یہ اور کہاں جائیں گے۔ سب کی باتوں میں آ کر میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ کہیں اور چلی جائے۔ میں نماز کے بعد درس پر جاتا ہوں واپس آئوں تو یہ ماں بیٹی یا بیٹا یعنی کتیا اور پلا میرے پائوں میں آن پڑتے ہیں میں ہزار انہیں اگنور کرتا ہوں گھر جا کر پڑھنے لگتا ہوں کہ خود ہی سمجھداری سے کہیں یہ چلی جائے گی ۔ میں ایک عجیب قسم کے فشار میں سر کو جھٹک دیتا ہوں مگر آخر کار میں اٹھتا ہوں شاپر میں دودھ ڈال کر اس کے سامنے رکھ آتا ہوں یہ اذیت کیا ہے یہ خدا کے خوف کے باعث ہے۔ آج بھی جمعہ کے روز بارش اتری تو میں نے ایک مرتبہ پھر برستی بارش میں اپنا کام نمٹایا باہر گیا تو کوئی نہیں تھا سچ مچ گیا تو پودوں سے بچہ نکل کر آ گیا میری محنت ٹھکانے لگی میں کتنی دیر تر سوچتا رہا کہ یہ تو جانور ہے مگر غزہ کے فلسطینی بچے اور ان کی مائیں کہ جہاں سب کچھ زمیں بوس کر دیا گیا ہے وہ کہاں رہتے ہوں گے اور کیسے رہتے ہوں گے یہ غم صرف میرا نہیں صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہر انسان کا ہے کہ فلسطینیوں کو کس طرح اپنی زمین سے محروم کر دیا گیا کس چالاکی سے ان کے سینے میں خنجر اتارا گیا ان کو اسرائیل کے رحم و کرم پر رہنا پڑا اور مسلمان حکمران ہے جرم صغیفیکی سزا مرگ مفاجات۔ اس غم کا تعلق تو میری نجات سے ہے میرے ہونے سے ہے میرے ہونے کی دلیل سے ہے میں خود کو مجرم خیال کرتا ہوں کہ اگر ان کی مدد کو حکمران نہیں کچھ کر رہے تو یہ حکمران بھی تو میرے ہیں میں اگر کچھ نہیں کر سکتا تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں اپنے آپ کو بھی تسلی دیتا ہوں بلکہ ہر شخص یہی کہتا ہے کہ وہ اکیلا کیا کر سکتا ہے مگر اس پریشانی میں میں کرکٹ کا میچ بھی تو ضرور دیکھتا ہوں میں کسی کو طعنہ نہیں دے رہا کہ اپنے وطن کی غمی خوشی میں شریک ہونا ایک خود کار عمل ہے۔ شاید میں اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں پا رہا کہ ایک گلٹ سا ہے۔ میرا تو ایک سوال ہے کہ اس کیفیت سے کیسے نکلا جائے جب کبھی تھوڑا بہت اس طرح سوچتے ہیں کہ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے تو دوست کہتے ہیں سب کچھ تو ان کا ہے حتیٰ کہ موبائل تک پھر میں اوپر دیکھتا ہوں کہ چلیے کچھ ہمارا نظام ہی اس قابل ہو جائے کہ جس میں اپنا رول ادا کیا جا سکے یہاں تو کسی کو کہیں اپنا رول ہی نظر نہیں آتا بلکہ صاحبان اختیار نے سب کو رول دیا ہے کوئی پتہ نہیں کہ حکمران کون اور کیسے بنا ہے اگر پتہ بھی ہو تو بتا نہیں سکتے۔ ویسے یہ ہے تو معمہ کہ جو چور اور قاتل گردانا جاتا ہے وہ کچھ برس بعد سعد اور پوتر ٹھہراتا ہے اور تاج و تخت کا حقدار۔ عوام دیکھتے رہ جاتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ وہ انہی کے ووٹوں کی بدولت آتا ہے کم از کم کہا یہی جاتا ہے کہ یہ بات سچ نہیں کہ ہم بھی ایسے شخص کو اقتدار و اختیار نہیں دینا چاہتے جو بالکل ہی انصاف پسند اور ہمیں سیدھے راستے پر ڈال دے۔ ہم کسی نیک آدمی کو ووٹ نہیں دے سکتے میرے اور بڑے مسئلے ہیں نظام ہی ایسا کہ طرفداریاں بکتی ہیں ۔ اقتدار کی قیمت دینا پڑتی ہے۔ شعور کدھر سے آئے گا کہ تعلیم بھی ایسی نہیں کہ سوچ اور فکر عطا کرے وہ تو کمائی کرنا سکھاتی ہے جاہل جاگیردار اور سرمایہ دار کے سامنے بے بس کر دینے والی تعلیم ہے۔ جن کو ملک سنوارنا تھا وہ پراپرٹی ڈیلر۔ہر طرف سے دبائو ایک عام فرد پر ہے جس نے نظام چلانے کے لئے ٹیکس دیا اور ٹیکس پر بیماریاں پلنے لگیں میرا رول کہاں ہے نئے آنے والے تو بے چارے ویسے ہی بے روزگار ہیں وہ کروڑ جنہیں نوکریاں ملنا تھیں دو کروڑ ہو چکے ہونگے میں غزہ کی سطح پر کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر میں تو یہاں بھی بے بس ہوں کہ آزمائے ہوئوں کو پھر آزمانے جا رہا ہوں بلکہ یہ تو میری آزمائش ہے۔ ٭٭٭٭
QOSHE - یہ کس کی آزمائش ہے! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یہ کس کی آزمائش ہے!

12 0
12.11.2023


آج بھی میرا نہیں اور میرا کل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں میں روز ایک نئے تجربے سے گزرتا ہوں۔ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے۔ ایک ہی وقت میں اپنی سوچیں کدھر کدھر سفر میں رہتی ہیں۔ کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ایک ہی وقت میں غزہ کے دربدر مظلوموں کا دکھ اور اس پرسوا اپنے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی خاموشی کا غم مجھے نہیں۔ معلوم کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ اپنے تئیں اعانت اور دعائیں کیا یہ تسلی کافی ہے۔ ایک بے چینی اور اداسی اور بھی کئی دکھ ہیں جو فیض صاحب کی یاد دلا جاتے ہیں کہ اور بھی دکھ ہیں محبت کے سوا ۔ اس سے پیشتر بھی ایک تجربہ ہوا جب میں اقبال ٹائون میں رہتا تھا تو ایک بلی کئی برسوں سے ہمارے ساتھ تھی ایک روز بیگم نے کہا کہ بس حد ہو گئی ہے یہ میرے پائوں میں اچانک آ جاتی ہے اسے اٹھا کر کہیں چھوڑ آئیں میں نے برجستہ کہا کہ آپ اسے دودھ ڈالنا چھوڑ دیں تو یہ خود ہی چلی جائے گی اس نے پلٹ کر کہا کیا میں گنہگار بن جائوں کہ دودھ نہ ڈالوں میں نے کہا تو کیا آپ مجھے گنہگار کرنا چاہتی ہیں کہ اسے رہائش سے محروم کر دوں اس کے بعد مدت تک اس موضوع پر بات........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play