Aa
Aa
Aa
-
A
+
یہ کس کی آزمائش ہے!
آج بھی میرا نہیں اور میرا کل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں میں روز ایک نئے تجربے سے گزرتا ہوں۔ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے۔ ایک ہی وقت میں اپنی سوچیں کدھر کدھر سفر میں رہتی ہیں۔ کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ایک ہی وقت میں غزہ کے دربدر مظلوموں کا دکھ اور اس پرسوا اپنے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی خاموشی کا غم مجھے نہیں۔ معلوم کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ اپنے تئیں اعانت اور دعائیں کیا یہ تسلی کافی ہے۔ ایک بے چینی اور اداسی اور بھی کئی دکھ ہیں جو فیض صاحب کی یاد دلا جاتے ہیں کہ اور بھی دکھ ہیں محبت کے سوا ۔ اس سے پیشتر بھی ایک تجربہ ہوا جب میں اقبال ٹائون میں رہتا تھا تو ایک بلی کئی برسوں سے ہمارے ساتھ تھی ایک روز بیگم نے کہا کہ بس حد ہو گئی ہے یہ میرے پائوں میں اچانک آ جاتی ہے اسے اٹھا کر کہیں چھوڑ آئیں میں نے برجستہ کہا کہ آپ اسے دودھ ڈالنا چھوڑ دیں تو یہ خود ہی چلی جائے گی اس نے پلٹ کر کہا کیا میں گنہگار بن جائوں کہ دودھ نہ ڈالوں میں نے کہا تو کیا آپ مجھے گنہگار کرنا چاہتی ہیں کہ اسے رہائش سے محروم کر دوں اس کے بعد مدت تک اس موضوع پر بات........
© Daily 92 Roznama
visit website