اچھا ہے عجز و ناز مگر اس قدر بھی کیا دنیا سے بے نیاز مگر اس قدر بھی کیا یوں بے وفائی کر کہ کسی کو گماں نہ ہو کہ ہم سے احتراز مگر اس قدر بھی کیا باتیں تو آج مزے مزے کی ہوں گی مگر پہلے ایک اور شعر کہ ہمارے موضوع سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہ داغ داغ آنکھیں ہیں یہ داغ داغ دل۔ اے میرے شیشہ ساز مگر اس قدر بھی کیا۔ سب سے پہلے تو ضمنی سرخی کہ ن لیگ اور ایم کیو ایم مل کر عام انتخابات لڑیں گے ویسے یہ ہمارے لئے تو کوئی خبر نہیں کہ سب کو اس کا علم ہے دوسری بات عام انتخاب اور خاص انتخاب میں آخر کیا فرق ہوتا ہے یادش بخیر کہ ہمیں ان مومنین کے لئے مومن یاد آیا کہ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ مجھے لندن کی اے پی سی یاد ہے کہ جس میں عہد کیا گیا تھا کہ ہو نہ ہو مگر ایک بات نہ ہو کہ کوئی ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گا۔ پھر سیاست ہی کیا کہ جس میں تھوک کر چاٹنا نہ پڑے پھر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں مگر اس حقیقت کو اگر کوئی دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں تو وہ یا تو مولانا فضل الرحمن ہو سکتے ہیں یا عرفان صدیقی: تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں ہے ہمیں تو کسی بھی سیاستدان کی باتوں پر یقین نہیں آتا بلکہ بعض اوقات تو اپنے ہی کانوں پر شک ہونے لگتا ہے اور بعض جگہ تو ہم وضعداری اور دنیا داری نبھاتے ہیں کہ میں ایسے بات سنتا ہوں کہ تو جھوٹا نہیں لگتا ویسے بھی جھوٹ ایک مقام پر پہنچ کر سچ لگنے لگتا ہے۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ بس اسے ایک موقع خدمت کرنے کا دیا جائے تو ہمیں تھانے والی خدمت یاد آنے لگتی ہے مگر وہ ذرا جسمانی ہوتی ہے مگر ادھرتو روح پر گھائو لگتے ہیں یہ تو روبوٹ ہیں وگرنہ یہ غزہ کے معاملے پر تلملا نہ اٹھتے۔ سب مجبور محض ہیں گدا سمجھ کے وہ چپ تھا جو میری شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ قدغن ہے اسی لئے بات کرنی بھی ہے چھپانی بھی ہائے ہائے غالب کہتا تھا : ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام ایک مرگ ناگہانی اور ہے ویسے اگر آپ کو پنجابی بھول نہیں گئی تو دو تین شعر پڑھائے دیتے ہیں ہن کہہ خوف بلاواں دا۔ سارا شہر خداواں دا۔ کشتی کنڈھے کہہ لگدی، نہیں سی موڈ ملاحواں دا اور ربا میرے دیس دی خیر سر تے شور اے کانواں دا ۔کہنے کا مطلب سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں مگر پھر بھی پس پردہ ایک خاموشی ہے اور ڈر ہے کہ پردہ غائب سے اور ہی نمودار نہ ہو جائے۔ مجھے ایک نہایت دلچسپ بات یاد آ گئی جب ہم پی ٹی وی میں لکھا کرتے تھے تو ہمیں ایک اداکار نے سفارش کا کہا کہ ڈرامہ کرنا ہے ہم بھی اسے محمد عظیم صاحب کے پاس لے گئے کہ اسے کوئی رول دے دیں محمد عظیم صاحب بولے شاہ اینوں چیک کر لینے آں !وہ بولا چیک تے میں کئی سالا توں ہورہیا واں یعنی میں چیک تو کئی برسوں سے ہو رہا ہوں پروڈیوسر نے قہقہہ لگایا یوں اسے ایک ڈرامے میں موقع دے دیا گیا مگر یہاں تو ڈرامے کے لئے موقع نہیں بلکہ موقع کے لئے ڈرامہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو موضوع بدل لیا جائے کہ میں ایک امید افزا بات کرنا چاہتا ہوں کہ جو ہم نے آسٹریلیا اور افغانستان کے میچ سے کشید کی کہ واقعتاً اگر کوئی اپنے اوسان نہ کھوئے اور کھڑا رہے تو پھر ایک کھلاڑی ہی بہت ہوتا ہے یہ بات ہمارے فخر زماں نے بھی کسی حد تک ثابت کی مگر آسٹریلیا کے میکس ویل نے تو صریحاً ثابت کر دی کچھ قدرت بھی جیسے مہرباں ہو جاتی ہے ایک چانس اسے ملا اور پھر وہ لاٹھی چارج کے لئے کھڑا ہو گیا۔ یہ کھیل نوجوانوں کی حقیقی زندگی کے لئے بھی ایک پیغام ہے ایک سبق ہے مایوسی ہرگز نہیں ایسے شعر ذھن میں آ گیا: بے یقینی میں کبھی سعد سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے اکیلے شخص نے دو وکٹوں کے گرنے کے بعد بھی سخت دبائو میں دوصد ایک رنز بنا ڈالے اور ساتھ دینے والے نے صرف 11اس کے باوجود کہ اس کے مسل فل ہو گئے مگر وہ ایک ٹانگ پر بھی کھیلتا رہا کہ دوسری زمیں پر رکھنا محال تھی۔ اس جیت پر برجستہ پوسٹ لگا دی کہ: چلتی نہیں کسی کی جہاں بخت چل پڑیں پھر اک کھلاڑی کافی ہے بس جیت کے لئے فوراً اقتدار جاوید کا فون آ گیا کہ یار کیا زمین نکلی ہے یہی ہوتا ہے برجستہ اظہار میں۔ بہرحال ہم نے اس میسج کا بہت لطف اٹھایا کہ افغانستان والے تو اپنی طرف سے جیت کر بیٹھے تھے کہ سات وکٹس گر چکی تھیں یقیناً انہوں نے مٹھائی وغیرہ بھی منگوائی ہو گی بلکہ کرکٹ کے سب شائقین بھی سوچ رہے تھے کہ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا پہلے پہلے تو میکس ویل بھی خزاں کے آخری پتے کی طرح ڈگمگا گیا مگر پھر وہ سنبھل گیا جیسے قدرت نے اس کے کان میں سرگوشی کر دی ہے کہ آج کا دن تمہارے نام وہ مسلسل لنگڑاتا بھی رہا اس میں کسی نے پوسٹ بھی لگائی کہ اگر عزم بلند ہو اور بندہ اپنے ہٹ کا پکہ ہے تو ایک لنگڑا بھی کامیابی دلا سکتا ہے جو بھی ہے میکس ویل ایک ایسا پراسرار کردار بن چکا ہے جسے کرکٹ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا کہتے ہیں میکس ویل افغانستان کے لئے ڈرائونا خواب ہے ۔ آخری بات آغاز والی کہ نگران وزیر اعظم نے کہہ دیا ہے کہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے لئے ہر قسم کا تعاون کریں گے گویا آزادانہ تعاون ہو گا پاکستان زندہ باد: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی
QOSHE - انتخابی اتحاد اور میکس ویل - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انتخابی اتحاد اور میکس ویل

7 0
11.11.2023


اچھا ہے عجز و ناز مگر اس قدر بھی کیا دنیا سے بے نیاز مگر اس قدر بھی کیا یوں بے وفائی کر کہ کسی کو گماں نہ ہو کہ ہم سے احتراز مگر اس قدر بھی کیا باتیں تو آج مزے مزے کی ہوں گی مگر پہلے ایک اور شعر کہ ہمارے موضوع سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہ داغ داغ آنکھیں ہیں یہ داغ داغ دل۔ اے میرے شیشہ ساز مگر اس قدر بھی کیا۔ سب سے پہلے تو ضمنی سرخی کہ ن لیگ اور ایم کیو ایم مل کر عام انتخابات لڑیں گے ویسے یہ ہمارے لئے تو کوئی خبر نہیں کہ سب کو اس کا علم ہے دوسری بات عام انتخاب اور خاص انتخاب میں آخر کیا فرق ہوتا ہے یادش بخیر کہ ہمیں ان مومنین کے لئے مومن یاد آیا کہ ہمیں یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ مجھے لندن کی اے پی سی یاد ہے کہ جس میں عہد کیا گیا تھا کہ ہو نہ ہو مگر ایک بات نہ ہو کہ کوئی ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گا۔ پھر سیاست ہی کیا کہ جس میں تھوک کر چاٹنا نہ پڑے پھر اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں مگر اس حقیقت کو اگر کوئی دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں تو وہ یا تو مولانا فضل الرحمن ہو سکتے ہیں یا عرفان صدیقی: تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں ہے ہمیں تو کسی بھی سیاستدان کی باتوں پر یقین نہیں آتا بلکہ بعض اوقات تو اپنے ہی کانوں پر شک ہونے لگتا ہے اور بعض........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play