گریۂ شب کو سیلاب بنا دیتی ہے وہ ہستی مجھے بے آب بنا دیتی ہے میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب، بنا دیتی ہے ظاہر ہے آج میں کرکٹ پر لکھوں گا اور خاص طور پر فخر پر ،مگر پہلے ایک شعر: ’’بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا، یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے‘‘ تو کچھ ایسی ہی اننگز فخر زمان نے کھیلی جسے سچ مچ دھواں دار بیٹنگ کہا جا سکتا ہے۔ پھر ہم تو شاعر ٹھہرے کہ کہیں نہ کہیں سخن ہاتھ آ جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے کمنٹیٹر کی کمنٹری نے بہت مزہ دیا۔ وہ فخر کے چھکوں کے دوران جو قافیہ آرائی کر رہے تھے وہ دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ ’’وہ دیکھو لمبی دوری، چھکے کی منظوری، تماشائیوں کا ہلا، جلا فخر کا بلا‘‘ زمان نے پھر جڑ دیا چھکا۔ بالر ہکا بکا’’اور ایسے دلچسپ جملے جو اکثر سدھو کی شاعری کی طرح ہوتے ہیں۔ کچھ اچھی باتیں جو ہمیشہ یاد رہ جائیں گی وہ اس تاریخی میچ کا حصہ ہیں جو بنگلور کے گرائونڈ میں کھیلا گیا۔نیوزی کے کپتان ولیمز کی گفتگو تو کمال ہے کہ اسے کہتے ہیں بڑاپن اور سپورٹس مین سپرٹ۔ اس نے کہا فخر زمان کے بلے کے سامنے گرائونڈ چھوٹا پڑ گیا۔ وہ گرائونڈ کے چاروں طرف شارٹس کھیل رہا تھا اور میں لطف اٹھا رہا تھا کہ ایسی بیٹنگ کب دیکھنے کو ملتی ہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ بلے کی سائونڈ میں ایک موسیقی سی ہوتی ہے۔ کمنٹری باکس میں بیٹھے کمنٹیٹر کے منہ بھی کھلے رہ گئے۔ یہی ہمیشہ برائن لارا کہ بارے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ کور ڈرائیو شاعرانہ انداز میں کرتے ہیں۔ آج سچ مچ فخر کے چھکوں میں ایک روانی اور بے ساختگی نظر آ رہی تھی۔ انڈین بھی جھوم اٹھے۔ مجھے غالب کا شعر یاد آ گیا جو بہادر شاہ ظفر کی موجودگی میں ذوق پر چوٹ کرتے ہوئے پڑھا تھا: ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے اور یہ شعر تو کمال کا ہے ’’رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل، جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے‘‘۔ فخر نے وہ کر دکھایا کہ بس عرفان پٹھان نے جو افغانستان کی جیت پر ان کے ساتھ مل کر رقص کیا تھا آج بھیگی بلی بنا فخر کی تعریف کرنے پر مجبور تھا۔ قدرت بھی مہربان تھی۔ فخر کے چھکوں کی بارش کے ساتھ رم جھم بھی اتر آئی کہ وہ سستا لے اور دوبارہ کھیل شروع ہوا تو ایک چھکا بابر اعظم نے بھی جڑ دیا کہ پہلے تو وہ فخر کو انجوائے کر رہا تھا۔ فخر نے وہیں اسی اوور میں 2 چھکے جڑ دیئے اور یوں دوبارہ بارش شروع ہوئی تو پاکستان 21رنز آگے تھا اور ہم سوشل میڈیا کا مزہ بھی لے رہے تھے کہ ’’پوسٹیں لگ رہی تھیں‘‘ اے ابرِ کرم آج اتنا برس کہ کوئی بھی واپس آ نہ سکے۔ ویسے اگر کھیل جاری بھی رہتا تو شاید فخر دو صد رنز بنا ڈالتا۔ مجھے تو ایک سین سب سے پیارا لگا کہ جب بنگلہ دیش کے تحسین کو فخر نے 98 میٹر کا پہلا چھکا رسید کیا تو تحسین کے چہرے پر کمال کی مسکراہٹ تھی کہ اس میں فخر کی تحسین بھی تھی اور اس کی اپنی بے بسی بھی۔ یہ مسکراہٹ مونا لیزا کی مسکراہٹ کی طرح نایاب سی شے تھی۔ آپ اب بھی گوگل کر یہ مسکراہٹ دیکھیں، خوشی مجھے بابر اعظم کی ہوئی کہ اس نے اپنے دشمنوں کے منہ بند کر دیئے۔ ان دشمنوں میں میں بھی تھا کہ اس نے دوستوں کو کھلایا۔ چلیے اس کے سات خون معاف اس نے بتایا کہ وہ آخر بابر اعظم ہے اور اس نے کریڈٹ جیت کا فخر زمان کو دیا اور فخر نے بابر اعظم کو اس جیت کا سہرہ باندھا۔ چار سو رنز کا پہاڑ سر پر اٹھا کر کھیلنا آسان نہیں تھا۔ کسی نے کہا کہ اب پاکستان کے لیے سیمی فائنل کا در کھیلتا نظر آ رہا ہے۔ کسی نے کہا در ہی نہیں کھڑکیاں بھی بج اٹھی ہیں۔ جو بھی ہے قدرت کو معلوم ہے کہ کیا ہو گا مگر ایک مرتبہ سب مایوس چہرے کھل اٹھے۔ ایک پوسٹ جو پہلے لگی تھی کہ ’’آج سے ہمارے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم مر گئی اور اس کے لیے ہم‘‘ آج اسی نے پوسٹ لگائی کہ ہم پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے جی اٹھے اور ہمارے لئے پاکستان کرکٹ ٹیم۔ جب نیوزلینڈ کی ٹیم چھکے چوکے لگا رہی تھی تو میں نے ٹی وی ہی بند کر دیا اور بار بار دیکھا کہ کچھ اچھی خبر ملے اور تو اور انہوں نے آفریدی کو 90رنز ڈالے۔ بلکہ سب کی لانڈری والی دھلائی کی ۔ بابر کو کوس رہے تھے کہ بیٹنگ ہی لے لیتے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ مجھے تو خوشی اس بات کی زیادہ ہے کہ وہ سجدہ جو محمد شامی سے قضا ہو گیا تھا کہ اس نے پانچ وکٹیں لینے کے بعد سجدہ کرنے کے لیے جھکا مگر ہندوئوں کی تنگ نظری سے ڈر گیا اور سجدہ نہ کر سکا۔ وہ سجدہ فخر زمان نے بنگلور کے گرائونڈ میں کیا۔ لوگ شامی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر مجھے اس سے ہمدردی ہے اور اس سجدے کی خواہش نے اس عمل کو اور زیادہ اجاگر کر دیا کہ دو قومی نظریہ کیا ہے۔ ایک ادھر کنیریا ہے جسے ہم نے اس قدر عزت دی کہ دنیا جانتی ہے مگر اس نے وہی کام کیا جو ہندو کرتا ہے۔ یہاں بازی شروع کر دی چلیے چھوڑئیے یہ موقع نہیں۔ قدرت کے کام دیکھیں کہ جس عظیم بلے باز کو اب پانی پلانے پر معمور کیا ہوا تھا چانس ملا تو اس نے مخالفین کی مت مار کے رکھ دی: میں اکیلا تھا اور تنہا تھا شہر لایا ہوں اک خرابوں سے ایک بات بہر طور سامنے آئی کہ جن کا حق ہو انہیں وہ حق پہنچنا چاہئے۔ آپس کی دوستی اپنے ملک کے مفاد سے آگے نہیں۔ کچھ ہیرے ہمارے پاس اور بھی ہیں جو توجہ کے منتظر ہیں، مثلاً صائم ایوب اور ابرار احمد۔ ہم ایسے کھلاڑیوں کو کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ باقی یہ کہ آپ خوش رہیں۔ ایک شعر: کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں
QOSHE - کرکٹ میں فخر کے شاعرانہ چھکے! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کرکٹ میں فخر کے شاعرانہ چھکے!

9 0
08.11.2023


گریۂ شب کو سیلاب بنا دیتی ہے وہ ہستی مجھے بے آب بنا دیتی ہے میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب، بنا دیتی ہے ظاہر ہے آج میں کرکٹ پر لکھوں گا اور خاص طور پر فخر پر ،مگر پہلے ایک شعر: ’’بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا، یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے‘‘ تو کچھ ایسی ہی اننگز فخر زمان نے کھیلی جسے سچ مچ دھواں دار بیٹنگ کہا جا سکتا ہے۔ پھر ہم تو شاعر ٹھہرے کہ کہیں نہ کہیں سخن ہاتھ آ جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے کمنٹیٹر کی کمنٹری نے بہت مزہ دیا۔ وہ فخر کے چھکوں کے دوران جو قافیہ آرائی کر رہے تھے وہ دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ ’’وہ دیکھو لمبی دوری، چھکے کی منظوری، تماشائیوں کا ہلا، جلا فخر کا بلا‘‘ زمان نے پھر جڑ دیا چھکا۔ بالر ہکا بکا’’اور ایسے دلچسپ جملے جو اکثر سدھو کی شاعری کی طرح ہوتے ہیں۔ کچھ اچھی باتیں جو ہمیشہ یاد رہ جائیں گی وہ اس تاریخی میچ کا حصہ ہیں جو بنگلور کے گرائونڈ میں کھیلا گیا۔نیوزی کے کپتان ولیمز کی گفتگو تو کمال ہے کہ اسے کہتے ہیں بڑاپن اور سپورٹس مین سپرٹ۔ اس نے کہا فخر زمان کے بلے کے سامنے گرائونڈ چھوٹا پڑ گیا۔ وہ گرائونڈ کے چاروں طرف شارٹس کھیل رہا تھا اور میں لطف اٹھا رہا تھا کہ ایسی بیٹنگ کب دیکھنے کو ملتی ہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ بلے کی سائونڈ میں ایک موسیقی........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play