غزا میں معصوم فلسطینی جانوں کے قتل ِ عام پر بالاآخر امریکی عوام جاگ اْٹھی ہے۔ جس انداز میں سوشل میڈیا نے اسرائیلی سفاکیتکا پردہ چاک کیا ہے۔ معصوم بچوں کی بے پردہ اور فلسطینی عوام کی سربریدہ نعشوں اور بڑی تعداد میں مصر کی سرحدرفاع پر انسانی مدد کو ترستی لاکھوں نگاہوں نے جہاں دنیا بھر کے ممالک کی عوام کو جگایا ہے وہیں امریکی عوام اپنی حکومت کے خلاف سڑکوں پہ آگئی ہے۔ چودہ سینیٹرز نے امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک کھلا خط لکھا ہے کہ اسرائیل کو چودہ اعشاریہ تین ارب ڈالرز کا پیکج لیح ایکٹ کے خلاف قرار دیتے ہوئے صدر پہ زور دیا ہے کہ وہ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل کو مہیا کی جانے والی امداد معصوم فلسطینی عوام کے قتل عام پر خرچ نہیں ہوگی۔ انہوں نے لکھا ہے اگرچہ وہ صدر بائیڈن کے اقدام کو سپورٹ کریں گے مگر اسرائیل جنگی جرائم میں ملوث ہے اور بلاجواز معصوم فلسطینی عوام کو قتل کررہا ہے۔ اِسی بات کو جواز بناتے ہوئے امریکی عوام نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی معاونت نہ کرے۔ یہی صورتحال برطانیہ میں ویسٹ منسٹر بریج پر دیکھی گئی ہے جہاں برطانوی عوام بڑی تعداد میں اپنی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔ پوری بریج پر برطانوی عوام نے اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کرنے سے باز رہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکی عوام نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اْن کے ٹیکس سے جمع کئی گئی امداد اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطین میں جاری ظلم و ستم میں بطور سہولت استعمال نہ کی جائے۔امریکی صدارت کے امیدوار برنی سینڈرز نے بھی اسرائیل کے مظالم کی بھرپور مذمت کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل برنی سینڈرزنومبر 2024ء کے صدارتی انتخابات کے امیدوار تھے مگر وہ جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔ اگرچہ برنی سینڈرز نے بائیڈن کے حق میں ووٹ اور سپورٹ کرنے کے عز م کا اعادہ کیا ہے مگر اسرائیلی جنگی جرائم کی بھرپور مذمت کی ہے۔ اِسی طرح امریکی کانگریس کے ایک اور لیڈر آندرے کارسن نے بھی اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے۔ یوں تو صہیونی ظلم کی داستان بہت طویل ہے مگر حالیہ جنگ نے اسرائیلی حکومت کا بھیانک چہرہ جدید دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ صہیونی نیٹ ورک نے دنیا بھر کے میڈیا کو اپنے دجالی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے مگر اِس کے باوجود اسرائیلی جنگی جرائم دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ مہذب دنیا کے ممالک اور اْن کے عوام اسرائیل کی پرزور مذمت کررہے ہیں۔ بھارتی حزب ِ اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت دیگر کئی ممالک نے اسرائیلی مظالم کی بھرپور انداز میں مذمت کی ہے۔ صرف فرانس ایسا واحد ملک ہے جس نے اپنے ملک میں غزہ اور فلسطین کے حق میں ریلی نکالنے والوں پر لاٹھی چارج کیا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جو ہمیشہ آزادیِ اظہار کا ڈرامہ کرتا ہے مگر جو بات فرانس کے حکام یا مغربی آقاؤں کو بری محسوس ہو وہاں ساری اخلاقیات اور قانون کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب مصر واحد اسلامی ملک ہے جو بظاہر تو اسرائیلی مظالم کی بھرپور مذمت کررہا ہے مگر مصر اور غزہ کی پٹی کے درمیان بارہ کلومیٹر رفاع کی سرحد کھولنے سے انکار کررہا ہے۔ رفاع سرحد پر چودہ سے پندرہ لاکھ معصوم فلسطینی بچے،عورتیں، اور بوڑھے بے یار و مددگار مصری حکومت اور مصری عوام کی جانب ترسی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔مصری حکومت کے سربراہ جنرل السیسی سرحد کھولنے سے انکاری ہیں۔ شاید جنرل سیسی کو معصوم فلسطینی عوام سے زیادہ اپنی حکومت اوراپنے ساتھی فوجی جرنیلوں سے خطرہ زیادہ ہے کہ اگر سرحد کھولی گئی تو اسرائیل اپنی جنگ کا دائرہ کار مصر تک لے جائے گا جو مصری فوج اور حکومت کو کسی بھی طور پر قابل ِ قبول نہیں ہوگااور ہوسکتا ہے جنرل سیسی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاید اندرونی ڈر کی وجہ سے جنرل السیسی سرحد کھولنے پر راضی نہیں ہورہے۔ ایران کی جانب سے تاحال اسرائیل کے خلاف محض دھمکیاں سامنے آئی ہیں۔ اگر ایران کے پاس واقعی ایسے ہتھیار موجود ہیں جن سے اسرائیل کو خطرہ ہوسکتا ہے وہ ہتھیار تاحال سامنے نہیں آسکے۔ ایرانی حکومت نے ’اسرائیل پر حملہ‘ کو اْسی طرح قبول کیا جیسے حماس نے ’اسرائیل پر حملہ‘ کو دنیا بھر میں اپنی لاجواب کارروائی قرار دیا ۔ کیونکہ حماس نے اسرائیل پر سرے سے حملہ کیا ہی نہیں تھا۔ جن ویڈیوزکوحما س کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا جواز بتایا گیا تھا وہ ساری ویڈیوز مختلف ویڈیو گیمز سے لی گئی تھیں۔ اِن ویڈیوز کا بھارتی سوشل میڈیا اینکر پالکی شرما نے پردہ چاک کیا ہے۔ وہ بات جو ایک بھارتی اینکر سمجھ گئیں اور گھر بیٹھے اْنہوں نے اپنے لیپ ٹاپ سے اصلی ویڈیوز سرچ کرلیں۔ یہ وہی ویڈیوز تھیں جو بڑے بڑے چینل سرچ نہیں کرپائے اور خبر کی دوڑ میں وہی چلا دیا جو دراصل اسرائیل اِن میڈیا چینل سے چلوانا چاہ رہا تھا یعنی حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا ہے، یہ تاریخی حملہ ہے، حماس کی کارروائی کے بعد اسرائیل دفاع کا حق رکھتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حالیہ جنگ میں اسرائیل کا واحد مقصد غزہ کی پٹی کو کلی طور پر خالی کرانا ہے تاکہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ محض غزہ کی پٹی تک محدود نہیں ہے بلکہ شام، ایراق، سعودی عرب، یمن، اردن اور ترکی کے کئی علاقے اِس میں شامل ہیں۔ اگر اسرائیل کے جنگی جرائم کی عملی طور پر مذمت نہ کی گئی اور اسرائیل کا ظلم بزور ِ شمشیر نہ روکا گیا تو اسرائیل دیگر اسلامی ممالک کو ہدف بناتا جائے گا اور ہر مسلمان ملک موجودہ حالات کی طرح دوسرے ملک پر جاری ظلم کی محض مذمت کررہا ہوگا۔ اسرائیل دورِ جدید میں اگر اپنے مظالم نے باز نہیں آرہا تو مسلم ممالک کو کونسی مجبوری ہے کہ وہ کھل کر سامنے نہیں آرہے؟ اگر اسرائیل تیسری عالمی جنگ کے خطرے کو محسوس نہیں کررہا تو مسلم ممالک کس بات سے ڈر ررہے ہیں؟ یہ وقت منظم حکمت عملی اور بھرپور جواب دینے کا ہے اگر اب جواب نہ دیا گیا تو شاید مسلم ممالک کسی دور میں جواب دینے کے قابل نہیں ہونگے۔
QOSHE - مسلمان ممالک چپ کیوں؟ - ڈاکٹر جام سجاد
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مسلمان ممالک چپ کیوں؟

12 0
08.11.2023


غزا میں معصوم فلسطینی جانوں کے قتل ِ عام پر بالاآخر امریکی عوام جاگ اْٹھی ہے۔ جس انداز میں سوشل میڈیا نے اسرائیلی سفاکیتکا پردہ چاک کیا ہے۔ معصوم بچوں کی بے پردہ اور فلسطینی عوام کی سربریدہ نعشوں اور بڑی تعداد میں مصر کی سرحدرفاع پر انسانی مدد کو ترستی لاکھوں نگاہوں نے جہاں دنیا بھر کے ممالک کی عوام کو جگایا ہے وہیں امریکی عوام اپنی حکومت کے خلاف سڑکوں پہ آگئی ہے۔ چودہ سینیٹرز نے امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک کھلا خط لکھا ہے کہ اسرائیل کو چودہ اعشاریہ تین ارب ڈالرز کا پیکج لیح ایکٹ کے خلاف قرار دیتے ہوئے صدر پہ زور دیا ہے کہ وہ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل کو مہیا کی جانے والی امداد معصوم فلسطینی عوام کے قتل عام پر خرچ نہیں ہوگی۔ انہوں نے لکھا ہے اگرچہ وہ صدر بائیڈن کے اقدام کو سپورٹ کریں گے مگر اسرائیل جنگی جرائم میں ملوث ہے اور بلاجواز معصوم فلسطینی عوام کو قتل کررہا ہے۔ اِسی بات کو جواز بناتے ہوئے امریکی عوام نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی معاونت نہ کرے۔ یہی صورتحال برطانیہ میں ویسٹ منسٹر بریج پر دیکھی گئی ہے جہاں برطانوی عوام بڑی تعداد میں اپنی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔ پوری بریج پر برطانوی عوام نے اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کرنے سے باز رہے۔ جبکہ دوسری جانب........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play