کسی کی نیند اڑی او رکسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے ایک اور خیال کہ یہ تشنگی تھی ہماری کہ سحر صحرا کا۔ کہ دور تک ہمیں کھینچے لئے سراب گئے۔ یہ خیال مثبت انداز میں بھی آ سکتا ہے کہ اختتام سفرکھلاہم پر۔ وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ۔ آج لکھنا تو کچھ اور تھا بس ایک کلپ سن لیا تو اچھا لگا۔ سوچا کہ اسی موضوع پر کچھ بات کی جائے۔ ایک بچی سیرت فاطمہ نے نہایت عمدہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے فیمینزم (feminism) بات کی حقیقت بیان کی۔میں نے خیال کیا کہ سیرت فاطمی کی حقیقت اور سچائی پر مبنی بات کو اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا دوں سب سے پہلے تو ظہیر کاشمیری کا شعر پڑھ لیں: سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا فاطمی نے بنت رسول ﷺحضرت فاطمہؓ کا ماڈل پیش کرتے ہوئے ان کے گھر کا ماحول بیان کیا اس نے کہا کہ فیمینزم کا مقصد سارے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ یہ لوگ ایسی آزادی کی بات کرتے ہیں جس میں کسی پر کوئی ذمہ داری نہ ہو اس کا اپنے شوہر، اولاد اور والدین سے تعلق نہ رہے۔ وہ عورت خود مختار ہو، اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو یعنی مرد کا کوئی حق نہ ہو۔ اس کا کوئی ولی نہ ہو، حضرت فاطمہ ؓنے اپنے گھر کا ماحول ایسا بنایا تھا کہ ان کی اولادیں، ان کی کنیزیں ان کو کو ماں کہہ کر پکارتی تھیں۔ ہمارے سامنے دو راستے موجود ہیں۔ ہمیں یا تو اللہ کے نظام کو قبول کرنا ہے جس میں اعلیٰ اقدار ہیں اور یہ نظام مخلوق کی ساری ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ نظام ہے جسے انسان کی ناقص عقل نے تخلیق کیاہے جس میں ہزار سقم ہیں ،اخلاقی پستیاں ہیں۔ اب بتائیے اس سے زیادہ موجودہ حالات کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اب آپ کو یہ نعرہ سمجھ میں آ رہا ہو گا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘اس کلپ سے کہ جس میں فاطمی نے حضرت فا طمہ ؓ کوبطور رول ماڈل پیش کیا۔ مجھے قاضی حسین احمد یاد آ گئے کہ جنہوں نے امریکہ سے واپسی پر حمید نظامی ہال میں صحافیوں ادیبوں اور دانشوروں کو بریفنگ دی اور اس میں انہوں نے بتایا کہ امریکی تھنک ٹینک کے سامنے حضرت فاطمہ زہرا ؓکی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ عورت کے حوالے سے اس سے عمدہ اور اعلیٰ رول ماڈل کسی کے پاس بھی موجود نہیں اور انہوں نے ان کے اوصاف بیان کئے۔ یہ بلند مرتبہ رول ماڈل ہے جس پر مسلم امہ کو فخر ہے۔ بات تو یہی کہ انہوں نے تربیت کہاں سے پائی اور پھر یہ ورثہ آگے چلا اور پھر کربلا تک جاپہنچا: کب کہا ہے مجھے خدائی دے اے خدا خود سے آشنائی دے میں محمدؐ کا ماننے والا کربلا تک مجھے رسائی دے اب ایک اور رخ سے اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔ قراآن کی گواہی لیتے ہیں ایک درس کی محفل میں حضرت حمید حسین نے اس عقدہ کو وا کیا تھا کہ ہم مسلمان بہت بھولے ہیں اور سادہ ہیں ایسے ہی اہل مغرب سے متاثر ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں انہوں نے بڑے پتے کی بات کہ ہم ان کی عیاریوں اور مکاریوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں، مثلاً آپ ہیومنزم کو ہی دیکھ لیں کہ ہمارے دانشوروں نے بھی اس کا ترجمہ انسانیت کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ کس سطح پر گمراہ کن ہے کہ ہیومنزم وہاں باقاعدہ ایک نظام ہے۔ انسانوں کا تخلیق کردہ اور اس میں کس چالاکی سے انسان کو مرکز بنا کر اس کا تعلق خدا اور مذہب سے الگ کر دیا گیا کہ انسان ہی خود سب کچھ ہے، اس میں بھی عقل ہے مگر عقل سلیم ہے کہ جو حق اور سچ کے پیمانے جانتی ہے۔بات یہ ہے کہ اسلامی نظام میں تو اللہ کی حاکمیت ہے یہاں اپنی مرضی نہیں ہے۔ خود سپردگی ہے، مکمل سرنڈر ہے ۔یہاں خواہشات بے لگام گھوڑوں کی طرح نہیں ہیں، ایک الوہی نظام ہے جس کے تابع اللہ کی تخلیق ہے جس میں بندگی ہے: کیا بتائوں کہ بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا اس نظام میں غلطی کی گنجائش تک نہیں۔ اس میں تو وراثت بھی چند آیات میں طے کر دی جاتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، اصل میں اللہ کے نظام میں ظلم اور استحصال کا شائبہ تک نہیں جبکہ انسان کے بنائے ہوئے نظام میںطرفداری اور اقرباپروری تک ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے، وہاں جمہوریت تک بھی استحصالی طبقہ کو تحفظ دینا ہے۔ دنیا داری ہے اور زمانہ سازی ہے ۔یہاں تو ایک آنکھ سے دیکھنے کا مطلب بھی رنجیت کی آنکھ سے دیکھنا ہے ۔یہ انسان کی مجبوری ہے کہ اسے ایک آنکھ ملے یا دو آنکھیں ملیں یا پھر ہزار آنکھیں مل جائیں مگر پھر بھی اس کا دیکھنا محدود ہے وہ اختیار پائے تو بھی خود کو ہی دیکھنا پسند کرتا ہے۔ نظام میں انصاف تو وہ کرے گا جو خود بے ااحتیاج ہے، جو بے نیاز ہے اور ورا ہے اور پھر خالق ہی اپنی مخلوق کو جان سکتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ وہی محفوظ اور درست ہے جو ہمیں قرآن و سنت سے ملتا ہے ۔
QOSHE - انسان کی بھلائی خالق کے نظام میں! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

انسان کی بھلائی خالق کے نظام میں!

8 0
05.11.2023




کسی کی نیند اڑی او رکسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے ایک اور خیال کہ یہ تشنگی تھی ہماری کہ سحر صحرا کا۔ کہ دور تک ہمیں کھینچے لئے سراب گئے۔ یہ خیال مثبت انداز میں بھی آ سکتا ہے کہ اختتام سفرکھلاہم پر۔ وسعت دشت تھی سراب کے ساتھ۔ آج لکھنا تو کچھ اور تھا بس ایک کلپ سن لیا تو اچھا لگا۔ سوچا کہ اسی موضوع پر کچھ بات کی جائے۔ ایک بچی سیرت فاطمہ نے نہایت عمدہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے فیمینزم (feminism) بات کی حقیقت بیان کی۔میں نے خیال کیا کہ سیرت فاطمی کی حقیقت اور سچائی پر مبنی بات کو اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا دوں سب سے پہلے تو ظہیر کاشمیری کا شعر پڑھ لیں: سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا فاطمی نے بنت رسول ﷺحضرت فاطمہؓ کا ماڈل پیش کرتے ہوئے ان کے گھر کا ماحول بیان کیا اس نے کہا کہ فیمینزم کا مقصد سارے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ یہ لوگ ایسی آزادی کی بات کرتے ہیں جس میں کسی پر کوئی ذمہ داری نہ ہو اس کا اپنے شوہر، اولاد اور والدین سے تعلق نہ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play