محبت بار ہوتی جا رہی ہے یہ دنیا دار ہوتی جا رہی ہے جو رہ ہموار ہوتی جا رہی ہے وہی دشوار ہوتی جا رہی ہے چلیے ایک شعر اور کہ ’’اسی کو زندگی کہتے ہیں یارا، جو گل سے خار ہوتی جا رہی ہے‘‘۔ اب اس کے بعد اور کیا بات کریں کہ اپنے بس میں تو کچھ نہیں کہ کون آ رہا ہے اور کون لا رہا ہے۔ ہم نے تو صرف ذوق کا شعر پڑھ رکھا تھا ’’لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے۔ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘ اور اس غزل کا ایک شعر تو کمال کا ہے کہ ’’کم ہوں گے اس بساط پہ ہم سے قمار باز۔ جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے‘‘ مگر ضروری نہیں کہ سب غلط چال ہی چلیں۔ یہاں تو بخت کے سکندر ہیں جوہر چال میں کامیاب ٹھہرتے ہیں‘‘ آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی۔ ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے۔ یہ شعر میں نے عوام کے لیے لکھا ہے۔ ویسے بڑی سادہ سی بات ہے کہ جب ٹینڈر کھلتا ہے تو اسی کو ٹھیکہ ملتا ہے جس نے کم سے کم بھرا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات ٹینڈر میں گھپلا بھی ہو جاتا ہے۔ آپ کبھی منڈی میں گئے ہیں اور بولی لگتے دیکھی ہو تو آپ پریشان ہو جائیں گے۔ بولی لگانے والا نفسیات دان سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس نے جس کو اناروں کی یا سیبوں کی پیٹی اٹھوانی ہے آپ اسے نہیں روک سکتے۔ بولی والا جب چیز کی بولی متوقع قیمت سے کم دیکھتا ہے تو وہ چیز اٹھا کر پیچھے رکھ لی جاتی ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں مگر میں کالم میں فروٹ منڈی کدھر سے لے آیا۔ بس فروٹ یعنی ثمر کا تذکرہ مجھے اچھا لگا۔ جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس وقت ن لیگ ثمر بار ہونے جارہی ہے اور ان کے لوگ پیڑوں کی طرح لہلہا رہے ہیں۔ ایک رونق سی لگ گئی ہے اب قوم کے مفید اور وسیع تر مفاد کے لیے تعمیر پاکستان کا ٹھیکہ جناب نواز شریف کے پاس ہے۔ ویسے شہباز شریف کے 16ماہ کیا تھے سمجھ میں نہیں آتے کیا مسائل حل کرنے کے لیے مسائل پیدا کرنے واقعتاً ضروری ہوتے ہیں۔ جو بھی ہے اس وقت انتخابات کے لیے حالات سازگار بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن بھی اس وقت تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔ مٹھی بھر مٹی اڑا کر ہوا کا رخ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پنجابی محاورہ کتنا بلیغ ہے، کہ ’’جہدی کوٹھی دانے، اودہے کملے وی سیانے‘‘ اور یہ لوگ ایسے کملے بھی نہیں اور کملے نہ بھی جانیں تو دوسروں کی پگڑی اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں۔ آپ کو میری بات پر جونیجو تو یاد آتے ہونگے یا پھر جنرل ضیاء الحق کہ جنہوں نے ایک مرتبہ ایک بیرے کی پگ نواز شریف کے سر پر رکھ کر کہا تھا آج سے یہ پنجاب کا دولہا۔ میں تاریخ کی طرف نہیں جانا چاہتا کہ وہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ ن لیگ مشاورتی اجلاس کر رہی ہے۔ یہاں پروفیسر احسن اقبال سکرین پر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ امیدواروں سے کوائف مانگے جا رہے ہیں۔ کوائف کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہونگے۔ وہی جو پارٹی فنڈ فیس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت گرمئی بازار کی صورت پیدا ہونے والی ہے ’’ہم آ گئے تو گرمئی بازار دیکھنا‘‘ محترمہ کشور ناہید یاد آ گئیں: کچھ اس قدر تھی گرمئی بازار آرزو دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا اب دل کیا! سب کچھ بکتا ہے۔ بظاہر سوشل میڈیا پر لگتا ہے کہ کمپین نواز شریف کے خلاف ہے مگر سیاست اور زمینی حقائق بہت مختلف ہوتے ہیں۔ یہ الیکٹیبلز بہت شاندار سی چیز ہوتے ہیں۔ یہ چھتری کے کتوبر ہیں۔ اشارے کے منتظر۔ سارا استحکام انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے سیاستدان کبھی دور کی نہیں سوچتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ میں آیا ایک پرندہ ان بارہ پرندوں سے بہتر ہے جو جھاڑی میں بیٹھے ہیں، باقی نظریات اور مقصد والا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ یہ تو کاروبار ہے کہ جو بکتا ہے بیچو اور خود کو سہولت بہم پہنچائو۔ آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے تاہم اس سناریو میں ہمارے محترم دوست عرفان صدیقی کو ن لیگ کی منشور کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس کے بعد ہم منشور کے بارے میں بہت دیر تک سوچتے رہے۔ عرفان صدیقی کی انشا پردازی کے تو ہم بھی قائل اور گھائل ہیں۔یادش بخیر جب انہوں نے پہلی مرتبہ کالم نگاری چھوڑ کر نواز شریف کے مشیر بنے تو ہم نے لکھا تھا کہ ’’عرفان صدیقی کو منزل مل گئی‘‘۔ وہ ملے تو بہت شکوہ کناں ہوئے مگر محبت سے کہنے لگے کہ وہ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے لیے مفید ثابت ہونگے اور وہ ہوئے۔ تب ایک جملہ ہم نے عطاء الحق قاسمی صاحب کے لیے بھی لکھا تھا ’’عطا صاحب کے ہم عطائیے پڑھا کرتے تھے مگر ان دنوں ان کے نوازئیے پڑھ رہے ہیں‘‘۔ دیکھیے وہ اب کیا فیض پاتے ہیں۔ ایک عامل نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘‘۔ فی الحال وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ صاحب کا بیان ہم پڑھ رہے ہیں کہ مہنگائی مزید کم ہو گی مگر ہم وہ کمی دیکھنے سے قاصر ہیں کہ منظر کچھ کمزور ہو گئی ہے یا پھر ان دنوں سموگ ہے ہے اور کچھ بھی اچھی طرح دکھائی نہیں دے رہا۔ تا ہم وہ انتخابات کے بارے میں دوست فرما رہے ہیں کہ وہ لیول پلئینگ فیلڈ یقینی بنائیں گے۔ ہاں جی کیوں نہیں وہ تو بلکہ بنائی جا چکی ہے۔ بہرحال بقول فیض ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ بلکہ یہ سب کچھ جو وہ چاہتے ہیں ہمیں دیکھنا پڑے گا۔ یار ہم کو نہ نکالو کہ ہمیں رہنے دو یار ہوتے ہیں تماشے میں تماشائی بھی
QOSHE - تعمیر پاکستان کا ٹھیکہ - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

تعمیر پاکستان کا ٹھیکہ

10 0
03.11.2023




محبت بار ہوتی جا رہی ہے یہ دنیا دار ہوتی جا رہی ہے جو رہ ہموار ہوتی جا رہی ہے وہی دشوار ہوتی جا رہی ہے چلیے ایک شعر اور کہ ’’اسی کو زندگی کہتے ہیں یارا، جو گل سے خار ہوتی جا رہی ہے‘‘۔ اب اس کے بعد اور کیا بات کریں کہ اپنے بس میں تو کچھ نہیں کہ کون آ رہا ہے اور کون لا رہا ہے۔ ہم نے تو صرف ذوق کا شعر پڑھ رکھا تھا ’’لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے۔ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘ اور اس غزل کا ایک شعر تو کمال کا ہے کہ ’’کم ہوں گے اس بساط پہ ہم سے قمار باز۔ جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے‘‘ مگر ضروری نہیں کہ سب غلط چال ہی چلیں۔ یہاں تو بخت کے سکندر ہیں جوہر چال میں کامیاب ٹھہرتے ہیں‘‘ آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی۔ ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے۔ یہ شعر میں نے عوام کے لیے لکھا ہے۔ ویسے بڑی سادہ سی بات ہے کہ جب ٹینڈر کھلتا ہے تو اسی کو ٹھیکہ ملتا ہے جس نے کم سے کم بھرا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات ٹینڈر میں گھپلا بھی ہو جاتا ہے۔ آپ کبھی منڈی میں گئے ہیں اور بولی لگتے دیکھی ہو تو آپ پریشان ہو جائیں گے۔ بولی لگانے والا نفسیات دان سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس نے جس کو اناروں کی یا سیبوں کی پیٹی اٹھوانی ہے آپ اسے نہیں روک سکتے۔ بولی والا جب چیز کی بولی متوقع قیمت سے........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play