دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لئے آئے تھے آج میرا موڈ کچھ سخن آرائی پر بات کرنے کا ہے۔ ہوا یوں کہ ان دنوں میرا ایک شعر خاصہ وائرل ہوا کہ اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کے لئے آئے تھے۔ اس پر دوستوں نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ یہ شعر کس شریف آدمی پر آپ نے کہا ہے میں نے جواب میں لکھا کہ یہ شعر تو پچیس سال پرانا ہے اور یادش بخیر جب پرویز مشرف آئے تو اگلے روز عطاء الحق قاسمی صاحب نے اس غزل کے دو اشعار کالم کے آغاز میں لکھے اور میں نے فون کر کے محترم عطاء صاحب کو کہا کہ جناب کاندھا میرا استعمال کر لیں آپ نے شعر تو شعر ہوتا ہے وہی عربی دانشور نے کہا تھا کہ شعر اصل میں کمان سے چلایا ہوا تیر ہے اور نثر ہاتھ سے پھینکا ہوا ۔ شعر دل میں جگہ بنا لیتا ہے بشرطیکہ دل سے نکلا ہو۔ محاورہ ہے کہ جیسے تیر دل میں ترازو ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک شعر جگر مراد آبادی کا سامنے آ گیا: اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے ہر ذرہ آفتاب ہے تو آنکھوں کے سامنے ایک تصویر آ گئی کہ اپنے اسد قیصر اور علی محمد مولانا فضل الرحمن سے ملاقات فرما رہے ہیں کیا عجائب زمانہ ہے کہ آگ اور پانی کا ملاپ ۔یہ انصاف چلی اور شفاف چلی کو کیا ہو گیا اب اس ملاقات پر تبصرہ کر کے الفاظ ضائع کرنے والی بات ہے۔ یہ تصویر ہی کافی ہے مگر اس تصویر کے اوپر ایک شعر لکھا ہوا ہے اور شعر ہی تو ہماری کمزوری! اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا ‘کیا ذلیل میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا پھر غالب کیوں با وضو آئے گا کہ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں، اور پھر مطلع تو زیادہ دلچسپ ہے یعنی اس صورتحال میں کوئی یہی کہہ سکتا ہے کہ : حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں آپ یقین کریں کہ مجھے صرف ادبی کالم لکھنا تھا اور میں نے یہ وعدہ بھی کیا مگر کیا کریں کہ مقطع میں آ پڑی تھی سخن گسترانہ بات ویسے اس تصویر میں مولانا کے چہرے پر ایک کمال قسم کی بلکہ یوں کہیں کہ فاتحانہ انداز کی مسکراہٹ ہے باقی اسد قیصر سے ہم کیا کہیں کہ تجھے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ دوستوں نے بتایا کہ وہ حضرات تو پیغام لے کر آئے تھے یعنی ’’بری دیر کی مہربان آتے آتے کیا کہنے ہماری سرکاری سیاست کے کہ پہلے میدان میں پہلوان اتارتے ہیں اور پھر اس کو ہروانے کا بندوست کرتے ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے انور مسعود کا شعر یاد آ رہا ہے کہ: بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ ویسے کچھ بے جوڑ چیزیں جوڑی جا رہی ہیں لوگ انگشت بدنداں میں اور سر بگریباں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ مولانا کا ازلی اور ابدی دشمن اب ان کے ساتھ صلح چاہتا ہے یہ کیا امتزاج ہو گا چلیے اس میں ایک ادبی حوالہ لاتے ہیں کہ نثری نظم بھی کچھ اسی طرح کی چیز ہے۔ فیض احمد فیض نے ایک مرتبہ کہا کہ بھائی نظم کا مطلب تنظیم و ترتیب میں لانا ہوتا ہے اور نثر کا مطلب بکھیرنا ۔ یہ دو متضاد عمل یکجا کیسے، تو ایسی ان ہونیاں سیاست میں بھی ہونے جا رہی ہیں۔ جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا لو پھر بالا شعر کے ساتھ والا شعر یاد آ گیا: کس ناز سے وہ نظم کو کہہ دیتے ہیں نثری جب اس کے خطا ہوتے ہیں اوزان وغیرہ دیکھا جائے تو یہ وژن ہی تو شاعری کا حسن ہے تبھی تو استاد کہتے تھے اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو متفاعلن متفاعلن متفاعلین ۔ یعنی چار مرتبہ متفاعلن وگرنہ کوئی کہہ دے گا کہ بحر اجز میں ڈال کے بحر رمل چلے ۔اس لڑائی میں شعر تو نکل آیا: گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے پھر چراغ سے چراغ تو جلتا ہی ہے ایک چراغ ہم نے بھی خانۂ شعر کی منڈیر پر رکھ دیا: بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں ایک مرتبہ پھر حالات کی طرف آتے ہیں کہ پھر سے تجربات شروع ہو گئے ہیں مگر بات ہے اعتماد اور اعتبار کی۔ کیا مولانا فضل الرحمن اعتماد کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں کہ درمیان میں کوئی ضامن بن جائے مگر اس سے پیشتر بھی کوئی ضامن بنا تھا مجھے لندن کی اے پی سی یاد آ گئی کہ جہاں اکیلے مولانا تھے جنہوں نے کہا تھا کہ افتخار چوہدری پر آپ سب یقین کر رہے ہیں مگر ایک مرتبہ سوچ لیں ۔ واقعتاً سچ مچ یہ دنیا ایک تماشہ ہے۔ آنکھیں حیرت سے پتھرا گئی ہیں کہ اللہ یہ سب کیا ہو ہا ہے ایک آدھ سائرہ بانو طوطی کی آواز بنی ہوئی ہے وگرنہ نگار خانے میں کوّے بول رہے ہیں اور الو سو رہے ہیں چمگادرڑیں پوچھ رہی ہیں کہ ابھی دن نہیں نکلا کیا کروں! آپ مجھے معاف کر دیں کہ لہجہ ذرا سخت ہو گیا: میرے لہجے میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا
QOSHE - مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا! - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا!

9 0
30.10.2023




دشت کی پیاس بڑھانے کے لئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لئے آئے تھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی تم کسی اور زمانے کے لئے آئے تھے آج میرا موڈ کچھ سخن آرائی پر بات کرنے کا ہے۔ ہوا یوں کہ ان دنوں میرا ایک شعر خاصہ وائرل ہوا کہ اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کے لئے آئے تھے۔ اس پر دوستوں نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ یہ شعر کس شریف آدمی پر آپ نے کہا ہے میں نے جواب میں لکھا کہ یہ شعر تو پچیس سال پرانا ہے اور یادش بخیر جب پرویز مشرف آئے تو اگلے روز عطاء الحق قاسمی صاحب نے اس غزل کے دو اشعار کالم کے آغاز میں لکھے اور میں نے فون کر کے محترم عطاء صاحب کو کہا کہ جناب کاندھا میرا استعمال کر لیں آپ نے شعر تو شعر ہوتا ہے وہی عربی دانشور نے کہا تھا کہ شعر اصل میں کمان سے چلایا ہوا تیر ہے اور نثر ہاتھ سے پھینکا ہوا ۔ شعر دل میں جگہ بنا لیتا ہے بشرطیکہ دل سے نکلا ہو۔ محاورہ ہے کہ جیسے تیر دل میں ترازو ہوتا ہے۔ایسے ہی ایک شعر جگر مراد آبادی کا سامنے آ گیا: اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے ہر ذرہ آفتاب ہے تو آنکھوں کے سامنے ایک تصویر آ........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play