خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سر تسلیم ہے ہم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے اور ایک اور بات کہ خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے، ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے۔ہمارے معاملات کچھ زیادہ دگرگوں ہیں۔ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کسی کے پاس خودداری ہے نہ عزت نفس ہے اور ذرا سی شرم بہرحال میں اس شرم و حیات کو کم از کم عورتوں کے لئے توجائز سمجھتا ہوں جو میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ بہت تکلیف دہ ہے وہی کہ ہم ہی اگر نہ کہہ سکے قصہ غم سنے گا کون کس کی زبان کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے تو کیوں نہ بات ایک مثال سے شروع کریں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب دشت میں ہوائیں چلتی ہیں تو ریت کے ٹیلے جگہ بدل لیتے ہیں۔ شہروں میں یہ ہوائیں چلتی ہیں تو شاپر اڑتے پھرتے ہیں اور یہ شاپر یہاں سے وہاں جا کر گند ڈالتے ہیں ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا یہ: عمر گز رہی ہے دربدر اپنی ہم ملے تھے ذرا ٹھکانے سے پہلے تو کسی ایک آدھ کے لئے کہہ دیا جاتا تھا کہ اس بے چارے کا کوئی ٹھکانا نہیں اب تو ٹھکانے ایسے بدلتے ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ خاص طور پر آپ سیاستدانوں کو دیکھیں تو ادھر ڈوبے ادھر نکلے والا معاملہ ہے۔ راجہ ریاض سے لے کر فردوس عاشق اعوان تک اور شیخ رشید سے لے کر عظمیٰ بخاری تک کس کس کا تذکرہ کروں پارٹیوں تک میں ایسا ہی کہ ایک کو غیر مستحکم کر کے کسی دوسری نومولود پارٹی کو استحکام بخشنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ یقین کیجیے میں کوئی کسی کے خلاف نہیں لکھ رکھا ایک حقیقی منظر نامہ لکھ رہا ہوں جو سراسر ایک ڈرامہ ہے ادب کی اصطلاح نہ سہی تو پھر یہ ایک تماشہ ہے: بازیچۂ اطفان ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے ہم کبھی ایک روزنامچہ میں ایک فیچر پڑھا کرتے تھے تین خواتین تین کہانیاں ویسے تو کرشن چندر نے چار ساڑھیاں اور چار کہانیاں بھی افسانہ لکھا ہے تاہم یہاں تین کہانیوں کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کی تین رہنمائوں کا اعلان لاتعلقی میرے سامنے؟ اس پر میرے سمیت کسی کو حیرت نہیں ہو گی کہ اس میدان میں بڑے بڑے جری مردان حق ہمت ہار کر میدان چھوڑ گئے۔: یہ بھی رکھا تھا دھیان میں ہم نے وہ اچانک اگر بدل جائے یہ خواتین کچھ سخت جان تھیں کہ کچھ وقت بھی اور اب وہ محترمہ فردوش عاشق اعوان کے جلو میں جلوہ فگن ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے انداز میں ایک ہی بات کی کہ کوئی لیڈر یا کوئی پارٹی اہم نہیں ہوتی بلکہ مقصد اور مشن اصل چیز ہے کہ ملک کا مفاد کس میں ہے اور یہی مفاد ان کے پیش نظر تھا۔عندلیب عباس ‘ سعدیہ سہیل اور سمیرا بخاری استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئیں۔ میں یہاں بانو کا گستاخانہ جملہ تو نہیں لکھ سکتا کہ دنیا میں کوڑا کرکٹ سے بجلی بنائی جاتی ہے اور یہاں ایک پارٹی بنا دی گئی۔ مگر ایک بات پر تو واقعتاً ہمیں حیرت ہوئی ہے کہ یہ سب کے سب لوگ کس قدر معصوم تھے کہ فیڈر سے فیڈ ہوتے رہے اور یہ لوگ ہر چیز میں شریک تھے اور اب دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے۔ فردوس عاشق اعوان نے ان تینوں خواتین رہنمائوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے فرمایا کہ استحکام پاکستان پارٹی مزید مضبوط ہو گی ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ سر کس قدر قحط الرجال ہے کہ پھر نواز شریف آ گئے اب اسے میں کیا کہتا کہ خواتین کا بھی قحط وہی ادھر اور وہی ادھر۔ ہماری فردوس عاشق اعوان تو کئی پارٹیوں میں استحکام دینے کے لئے گئی ہیں اور ہر جگہ وہ اپنے لیڈر کے لئے مردوں کے گریبان تک پکڑتی رہیں اور نچلی مٹی اوپر کر دی مگر وقت بڑا ظالم ہے وہ محترمہ کی ایک نہیں چلنے دیتا یہ ان کی اہمیت ہے کہ انہیں ہر پارٹی قبول کر لیتی ہے۔جیسے شیخ رشید کو کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وجہ اس کی ہر پاکستانی کو معلوم ہے میرا پاکستانیوں کو مشورہ ہے کہ وہ اس مزاحیہ کھیل سے لطف اٹھائیں اور بس۔ ویسے خواتین کا مسئلہ ذرا مختلف اس لئے ہے کہ ان کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔ مگر بعض عورتیں بہت ہی حوصلہ مند اور دلیر ہوتی ہیں قائم و دائم رہتی ہیں ایسے ہی مجھے ثمینہ راجہ کا خیال آیا کہ وہ کس قدر معتبر اور مضبوط تھیں کہ ان کے اشعار میں ان کا کردار بولتا تھا: تنہا سر انجمن کھڑی تھی میں اپنے وصال سے بڑی تھی وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا میں اپنے حضور میں کھڑی تھی مگر یہ ادب میں تو چل سکتا ہے سیاست میں نہیں کہ سیاست اسی کو کہتے ہیں کہ بازی جیتنے کے لئے کچھ بھی کر گزرو۔ وہی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاستدان کی ناک بھی موم کی ہوتی ہے۔ اچھا سیاستدان عوام سے آنکھیں نہیں ملاتا کہ اس کی آنکھیں طوطے سے ملتی ہیں۔ ویسے بھی مشہور محاورہ ہے کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔ اگر سیاستدان عوام کا خیال رکھے تو اس کا خیال کون کرے گا۔ پرویز مشرف نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان مگر سیاستدان کہتا ہے سب سے پہلے اپنا آپ۔ اور جس سے مطلب ہو وہ باپ۔ ثمینہ راجہ کا ہی ایک خوبصورت شعر: آج تلک بھرے نہیں پچھلے ہی موسموں کے زخم دل ہے کہ ایک بار پھر نغمہ گر بہار ہے
QOSHE - ایک فکاہیہ کالم - سعد الله شاہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایک فکاہیہ کالم

6 0
29.10.2023




خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سر تسلیم ہے ہم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے اور ایک اور بات کہ خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے، ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے۔ہمارے معاملات کچھ زیادہ دگرگوں ہیں۔ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کسی کے پاس خودداری ہے نہ عزت نفس ہے اور ذرا سی شرم بہرحال میں اس شرم و حیات کو کم از کم عورتوں کے لئے توجائز سمجھتا ہوں جو میں بات کرنے جا رہا ہوں وہ بہت تکلیف دہ ہے وہی کہ ہم ہی اگر نہ کہہ سکے قصہ غم سنے گا کون کس کی زبان کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے تو کیوں نہ بات ایک مثال سے شروع کریں ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب دشت میں ہوائیں چلتی ہیں تو ریت کے ٹیلے جگہ بدل لیتے ہیں۔ شہروں میں یہ ہوائیں چلتی ہیں تو شاپر اڑتے پھرتے ہیں اور یہ شاپر یہاں سے وہاں جا کر گند ڈالتے ہیں ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا یہ: عمر گز رہی ہے دربدر اپنی ہم ملے تھے ذرا ٹھکانے سے پہلے تو کسی ایک آدھ کے لئے کہہ دیا جاتا تھا کہ اس بے چارے کا کوئی ٹھکانا نہیں اب تو ٹھکانے ایسے بدلتے ہیں کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ خاص طور پر آپ سیاستدانوں کو دیکھیں تو ادھر ڈوبے ادھر........

© Daily 92 Roznama


Get it on Google Play