
کنونشن مسلم لیگ کا انجام اور تحریک انصاف
عمران خان کے بیشتر قریبی ساتھی اُن سے اور پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں جس کے بعد تحریک انصاف کی حالت بھی کنونشن مسلم لیگ جیسی ہوتی جا رہی ہے۔ 25مارچ 1969ء کو جب جنرل یحییٰ خان‘ صدر ایوب خان کی سبکدوشی کے بعد برسر اقتدار آئے تو صدر ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ میں شامل بیشتر افراد نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ چند ایک سیاسی رہنما ایسے تھے جو1971ء تک اس جماعت سے منسلک رہے جن میں مشرقی پاکستان کے عظیم محب وطن رہنما فضل القادر چودھری سرفہرست تھے جو 1962ء سے 1966ء تک قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے اور صدر ایوب خان کے مستعفی ہونے پر کنونشن مسلم لیگ کے صدر بھی مقرر ہوئے۔ ملک محمد قاسم‘ یاسین وٹو اور چند دیگر سیاسی رہنما بھی آخری وقت تک صدر ایوب خان کے ساتھ کھڑے رہے لیکن ان کے نام نہاد لاکھوں پیروکار منظر سے غائب ہو گئے۔ خان عبدالقیوم خان‘ جو پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے سربراہ تھے اور جن کے جنرل یحییٰ خان سے گہرے مراسم تھے‘ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کو کنونشن مسلم لیگ کا چار کروڑ روپے کا پارٹی فنڈ ضبط کرنے کا مشورہ دیا اور مارشل لاء آرڈر کے تحت کنونشن مسلم لیگ کے چار کروڑ روپے ضبط کر لیے گئے۔ پارٹی فنڈ کی ضبطی کنونشن مسلم لیگ کے لیے آخری جھٹکا ثابت ہوئی۔ انہی وجوہ کی بنا پر 1970ء کے الیکشن میں کنونشن مسلم لیگ قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہی حاصل کر سکی۔
ملک کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر مجھے تحریک انصاف کا انجام بھی کنونشن مسلم لیگ جیسا نظر آ رہا ہے۔ اگر قومی انتخابات اسی برس ہو جاتے ہیں تو بھی جس تیزی سے تحریک انصاف سے منسلک افراد اس جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں‘ اس سے اندازہ لگایا جا........
© Roznama Dunya


