menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کاشتکاروں کے ساتھ ظلم اور سانحۂ بہاولنگر

14 0
17.04.2024

[email protected]

عید کے دن ہمیشہ آبائی گاؤں کٹھوڑ میں گزارتا ہوں، ملاقاتیوں میں اسی فیصد دیہاتی اور کاشتکار تھے۔ پچھلے سال اس موسم میں کاشتکاروں کے چہروں پر تابانی اور شادمانی تھی، مگر اس بار وہ مرجھائے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی دل گرفتگی کی وجہ دریافت کی تو بتانے لگے کہ گندم کی فصل پکی ہوئی ہے، گندم ہمیشہ مناسب داموں پر حکومت خریدتی ہے۔ اس بار ڈیزل، کھاد، بیج اور بجلی کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ زمین کے مالک کا ٹھیکہ شامل کریں تو بات ڈیڑھ لاکھ سے اوپر جاتی ہے۔

اس لیے کاشتکاروں کو امید تھی کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال چونکہ اخراجات (cost of production) میں بے حد اضافہ ہوا ہے، اس لیے گندم کی سرکاری قیمت میں اضافہ ہوگا۔ مگر پنجاب حکومت نے کاشتکاروں کے ساتھ دو زیادتیاں کیں، ایک تو گندم کی قیمت پچھلے سال کی نسبت کم مقرّر کی اور دوسرا یہ کہ کاشتکاروں کو ڈیلروں اور مل مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تاکہ وہ کاشتکاروں کا جی بھر کے استحصال کرسکیں۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمت 3900/- روپے فی من مقرر کی ہے مگر حکومت نے ابھی خود گندم کی خریداری نہیں شروع کی ہے، البتہ بائیس اپریل خریداری کی تاریخ مقرر کردی ہے، ادھر آڑھتیوں اور ڈیلروں نے کاشتکاروں کو کند چھری سے ذبح کرنے کا پروگرام بنالیا ہے۔ جلدگندم بیچنا چھوٹے اور درمیانے کاشتکاروں کی مجبوری ہے، اس لیے کہ انھیں پیسے چاہئیںتاکہ وہ اگلی فصل کے لیے زمین کی تیاری اور بیج، کھاد وغیرہ کا بندوبست کرسکیں، لہٰذا کاشتکاروں کی مجبوری دیکھ کر ڈیلرز ان کے ظالمانہ استحصال پر اتر آئے ہیں اور ان سے بتیس سو روپے من پر گندم خرید رہے ہیں۔

اتنی کم قیمت پر فروخت کرنے سے کاشتکاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے، انھی سوچوں نے ان کی خوشیاں چھین لی ہیں اور وہ گہری تشویش اور پریشانی کے اندھیروں میں گم سم نظر آتے ہیں۔ محمد شریف جس نے سات ایکڑ پر گندم کاشت کی تھی........

© Express News


Get it on Google Play