NAP نیشنل ایکشن پلان 20نکات پر مشتمل تھا ۔(1)۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد۔ (2)۔ خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام۔ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ‘کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی ۔اب یہ فوجی عدالتیں ختم ہوچکی ہیں۔

پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک نیا طریقہ واردات ہے اور ہمارا پرانا ‘رشوت زدہ اور بوسیدہ عدالتی نظام اور پراسیکیوشن برانچ دونوں ہی اس مسئلے کو ختم کرنے‘مجرموں کو سزا دینے یا ان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں ‘ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا ‘تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کے طاقتور سہولت کاروں کو سزا دینا تو بڑی بات ہے ‘اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام انصاف کی بہتری کے لئے کچھ پراگرس نہیں ہوئی ۔ جزا کے ساتھ ساتھ سزا کاعنصر شامل کرکے نظام انصاف اور تفتیش و تحقیقات کا نظام بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

(3) ۔مسلح اور دہشت گرد گروپوں کو کام کرنے کی ممانعت ۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا جو انتہا پسندی ‘دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں‘ لیکن کئی پارٹیوں اور تنظموں کی قیادت آج بھی کھلم کھل مذہنی فرقہ وارایت، مذہبی انتہاپسندی کا پرچار کر رہی ہیں‘ قوم پرستی کی آڑ میں بھی نفرت ، دشمنی اورمار دو مر جاؤ کی آگ بغیر کسی خوف کے جلائی جارہی ہے ‘اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نکتے پر آگے جانے کی بجائے ہم پیچھے جا رہے ہیںاور پراگرس نہیں ہے۔

کیا ایسی تنظیمیں اور ان کی لیڈرشپ کھلے عام پاکستان اور بھارت کے تعلقات ختم کرنے کا فریضہ سرانجام دینے کے محاذ پر سرگرم نہیں ہیں۔افغان طالبان اور ٹی پی پی کی درپردہ سہولت کاری کہاں سے ہورہی ہے ، عام پاکستان تو حقائق سے لاعلم ہوسکتا ہے لیکن خواص کو سب معلوم ہے ۔ اسامہ بن لادن اور ملامنصور کی پاکستان موت عالمی سطح پر شکوک بڑھاتی ہیں۔یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ ماضی میں ہم تمام دہشت گردوں کے بجائے مخصوص دہشت گردوں کو نشانہ تو نہیں بناتے رہے؟

(4)نیکٹا(NACTA)۔نیشنل کائونٹر ٹیررزم اتھارٹی کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا‘ NAPکا یہ بہت اہم نقطہ ہے ۔ بلند بانگ دعوے ا یک طرف‘لیکن دہشت گردی کے خلاف سب سے اہم اداروںبشمول نیکٹا اور پولیس کو حکومت کی طرف سے سرد مہری کا سامنا ہے ‘جب کہ آ ٓج بھی مختلف انٹلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کا شدید فقدان ہے۔سب سے اہم ادارہ یعنی نیکٹا‘جو کئی سال قبل بنایا گیا تھا ‘اور دسمبر 2014میں بنائے گئے NAPکے بعد اس کو فعال ہونا تھا ‘اس کو حکومت مسلسل نظر اندا زکر رہی ہے۔

کاغذات میں نیکٹا کا ایک طاقتور اور با اختیار بورڈ آف ڈائرکٹر موجود ہے ‘قانونی پابندی ہے کہ بورڈ کا اجلاس ہر تین مہینے کے بعد ہونا لازمی ہے یعنی سال میں چار مرتبہ ، کیا اس پر عمل ہوا ہے۔ نیکٹاکے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم ہیں اوراس کے ممبرا ن میں تما م صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزراء اعلی ‘وزیر اعظم آزادکشمیر ‘ داخلہ‘ قانون ‘ دفاع اورخزانہ کے مرکزی وزراء‘ آئی ایس آئی ‘آئی بی ‘ملٹری انٹلی جنس اورایف آئی اے کے ڈائرکٹر جنرل ‘صوبائی چیف سیکرٹری اور تمام صوبوں کے آئی جی پی ‘سیکرٹری داخلہ اور دوسرے اہم عہدیداران شامل ہیں۔

نیکٹا کے بورڈ کی ساخت‘ اور قانون کے مطابق اس کے اختیارات‘اس ادارے کو ‘دہشت گردی کے خلاف پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کا سب سے زیادہ فعال اور طاقتور ادارہ بناتے ہیں‘بد قسمتی سے یہ ادارہ موجودہ اورسابقہ حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ملک کے تمام باشعور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ ‘تمام خفیہ ایجنسیوں اور سیکیورٹی کے اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے کے لئے ایک منظم سسٹم کی ضرورت ہے۔آخر ہمارا سسٹم کب ٹھیک ہوگا۔

(5)۔ نفرت انگیز مواد‘انتہا پسندی ‘فرقہ واریت اور تشددکا پرچار کرنے والے اخبارات‘لٹریچر اوررسالوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ‘ اس سلسلے میںکتنی پراگرس ہوئی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے‘ابھی تک مخالف فرقوں والے ایک دوسرے کے خلاف متحرک ہیں‘پوری معلومات نہیں ہیںلیکن ایک امر واضح ہے کہ ان قوتوں کو اب بھی کھلے عام کام کی آزادی ہے۔ پچھلی حکومت تو دہشت گردوں کے بجائے ’’چور‘‘ پکڑنے میں مصروف تھی ‘جو بدقسمتی سے ان کے ہاتھ نہیں آئے۔

(6)دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے فنڈ کے ذرائع کو بند کرنا ‘ کیا اس پر عمل ہوا ہے ،آج بھی لوگ کھلے عام چندے جمع کر رہے ہیں‘باقاعدہ مسجدوں اور بازاروں میں چندہ بکس لگے ہوئے ہیں۔ جب لوگ انتہاپسند تنظیموں کے قائدین کو کھلے عام اخباروں اور ٹی وی پر اجتماعات کرتے دیکھتے ہیں تو وہ بھی ان کو اصلاحی تنظیمیں سمجھ کر چندہ دے دیتے ہیں‘ قربانی کی کھالیں، زکوۃ، فطرانہ، خیرات و صدقات تک یہ تنظمیں اکٹھا کرتی ہیں۔ ان تنظیموں پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ‘اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں پراگرس کچھ نہیں بلکہ حالات جوں کے توں ہیں…

(7)۔کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ‘اس شق ادھوری اور نامکمل ہے۔ تنظیم پر پابندی نہیں بلکہ تنظیم کی قیادت،اس کے فنانسرز اور سہولت کاروں پر ہر قسم کی سیاست پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کسی تنظیم پر پابندی لگائی جاتی تو اس کی قیادت نئے نام سے کوئی تنظیم قائم کرکے اپنا کام شروع کردیتی ہے ۔اسی طرح بہت سی تنظیمیں ہیں جو پابندی کے باوجود دوسرے ناموں سے کام کر رہی ہیں‘حکومت شاید ناموں پر پابندی لگاتی ہے نہ کہ افراد اور پروگرام پر‘جب کہ یورپ اور اقوام متحدہ نام کے بجائے افراد کے خلاف پابندیاں لگاتی ہے ‘نام پر پابندی کا حشر ہم نے دیکھ لیا ہے ‘اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نکتے پر بھی کوئی پراگرس نہیں ہوئی ہے۔

(8)۔ایک تیز اور مخلص انٹی ٹیرر ازم فورس کا قیام۔ 2اگست 2015کے اخبارات کے مطابق حکومت نے اصولی طور پر فیصلہ کرلیا تھا کہ تمام خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ادارہ (Joint Intelligence Directorate -JID) قائم کیا جائے ‘اس ادارے کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے خلاف مہم کو منظم کرنا ہے ‘ اس مقصد کے لئے طویل بحث مباحثہ ہوا‘فنڈ کی فراہمی اور دیگر مسائل پر کافی عرصہ ضایع کردیا گیا یوں اس شعبے میں بھی اب تک کوئی پراگرس نہیں ہے۔

QOSHE - نیشنل ایکشن پلان - جمیل مرغز
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

نیشنل ایکشن پلان

20 0
14.04.2024

NAP نیشنل ایکشن پلان 20نکات پر مشتمل تھا ۔(1)۔دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ مجرمان کی سزائے موت پر عمل درآمد۔ (2)۔ خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام۔ان عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ‘کچھ افراد کو سزائے موت بھی سنائی گئی ۔اب یہ فوجی عدالتیں ختم ہوچکی ہیں۔

پاکستان کا نظام فوجداری دہشت گردوں کو سزا دینے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک نیا طریقہ واردات ہے اور ہمارا پرانا ‘رشوت زدہ اور بوسیدہ عدالتی نظام اور پراسیکیوشن برانچ دونوں ہی اس مسئلے کو ختم کرنے‘مجرموں کو سزا دینے یا ان کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے ہیں ‘ہمارا نظام انصاف تو عام رہزن کو بھی سزا نہیں دے سکتا ‘تربیت یافتہ دہشت گرد اور ان کے طاقتور سہولت کاروں کو سزا دینا تو بڑی بات ہے ‘اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام انصاف کی بہتری کے لئے کچھ پراگرس نہیں ہوئی ۔ جزا کے ساتھ ساتھ سزا کاعنصر شامل کرکے نظام انصاف اور تفتیش و تحقیقات کا نظام بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

(3) ۔مسلح اور دہشت گرد گروپوں کو کام کرنے کی ممانعت ۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد ان گروہوں اور تنظیموں کو ختم کرنا تھا جو انتہا پسندی ‘دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ملوث ہیں‘ لیکن کئی پارٹیوں اور تنظموں کی قیادت آج بھی کھلم کھل مذہنی فرقہ وارایت، مذہبی انتہاپسندی کا پرچار کر رہی ہیں‘ قوم پرستی کی آڑ میں بھی نفرت ، دشمنی اورمار دو مر جاؤ کی آگ بغیر کسی خوف کے جلائی جارہی ہے ‘اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نکتے پر آگے جانے کی بجائے ہم پیچھے جا........

© Express News


Get it on Google Play