[email protected]

’’ پاکستان اکنامک انڈیکیٹرز کے لحاظ سے ایتھوپیا اور روانڈا کے قریب پہنچ گیا ہے ہمارے ادارے ٹوٹ رہے ہیں اگر اقتصادی بحالی کی طرف مناسب توجہ نہ دی گئی تو غریب کو روٹی کے لالے پڑ جائیں گے اگر کرپشن ختم کردی جائے تو باہر جا نے والے 13ارب ڈالر اور بجٹ کے تحت کھائے جانے والے 100ارب کہاں گئے ؟ آٹا مہنگا کرنے کی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ، 1990ء تک اقرا ء سرچارج کی مد میں 80ارب روپے جمع کیے تھے اس قسم کو بجٹ میں شامل کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کروں گا ، 100بڑے بڑے ڈیفالٹرز کی لسٹ میں بڑے بڑے امیروں کے نام ہیں اب غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگانا ہوگا ۔‘‘

ان خیالات کا اظہار دسمبر 1997ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے کیا تھا ۔ ڈاکٹر محبوب الحق ایک ماہر اقتصادیات تھے ملک کے علاوہ عالمی سطح پر ان کی قابلیت تسلیم شدہ تھی اور وہ کافی عرصے تک عالمی مالیاتی بینک میں صدر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔اس لحاظ سے ان کا مذکورہ تجزیہ اور اظہار خیال توجہ طلب تھا لیکن پاکستان کے دوست نما دشمنوں نے اس پر توجہ نہیں دی اور آج ملکی خطرناک معیشت سب کے سامنے ہے ،آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر قرض بمع سود اور شرائط پا کستان آنکھیں بند کرکے قبول کررہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا ہے ، ملک کو مقروض سے مقروض تر بنایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ایک عرصے سے بچت کے نام پر قومی اداروں کو فروخت کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔

کبھی گولڈن ہینڈ شیک، کبھی ڈاؤن سائزنگ اسکیم کے ذریعے بے روزگاری بڑھائی جاتی رہی ہے اور آئندہ بھی بے روزگاری میں اضافے کا امکان ہے، ٹیکس کے نام پر غریبوں کا خون نچوڑا جاتا رہا ہے، وطن سے محبت کی آڑ میں ہم وطنوں کی جیب کاٹی جاتی رہی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ایک سو فیصد اور ملکی صنعت کاروں کو برائے نام سہولیات دے کر ملکی صنعت تباہ کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں مزید بے روزگاری بڑھتی رہی ہے۔

ان تمام عوامل کا خمیازہ قوم بھگتی رہی ہے اور بھگت رہی ہے اور آئندہ بھی بھگتے گی۔ اس ملک کو سب نے مل کر لوٹا ہے کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ لوٹنے کے بجائے ملک کو دینا شروع کریں۔

قوم کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں ایٹم بم و میزائل ان کے لیے بے سود ہیں ،وہ جینے کے لیے دو وقت کی روٹی مانگتے ہیں یہی وہ نکتہ ہے جس کو سمجھنے کے لیے کسی کو فرصت ہی نہیں ۔ سیاست کی آڑ میں ریاستی اداروں کے خلاف قوم کے ذہنوں میں زہر بھرا جارہا ہے ، ایسے میں ہم ملکی سلامتی کی بجائے سیاسی حقوق کا نعرہ بلند کررہے ہیں ، سب کچھ واضح ہے کہ کون سیاست کی آڑ میں ملکی سلامتی سے کھیل رہا ہے ، ملکی سلامتی کے لحاظ سے میڈیا کا کردار اہم ہے مگر الیکٹرونک میڈیا مداریوں کا کھیل تماشے پیش کرنے میں مصروف ہے۔

ایک طرف شور ہے ملکی خزانہ خالی ہے تو دوسری طرف سرکاری شاہ خرچیاں بڑھتی جارہی ہیں ،سابقہ صدور مملکت کو تاحیات مالی اور دیگر سہولیات حاصل ہے جوکروڑوں روپے ماہوار کی صورت میں ہیں ختم نہیں کی جارہی ہیں، وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر سرکاری عمارات ودفاتر کے اخراجات میں کمی کی بجائے ان میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے ، وزیروں مشیروں کی فوج کے مصارف میں خاطر خواہ کٹوتی کا کوئی نام نہیں لیتا ،بیرون ممالک دوروں کے دوران عملے میں کمی نہیں کی جاتی ،بیرون ملک جمع شدہ کرپشن کی رقم کو یورپی ممالک کا تحفظ حاصل ہے، نج کاری کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے، قومی اداروں کو مضبوط نہیں کیا جارہا ہے۔

ملک بھر میں صنعتی زون قائم نہیں کیے گئے ،ملک بھر میں موجود قدرتی وسائل کو درست سمت میں استعمال نہیں کیا گیا ،میرٹ اور قابلیت کی دھجیاں بکھیر دی گئی ، قومی اداروں کو سیاست کی نذر کیا جاتا رہا ہے ،اقراء سرچارج کو تعلیم کی بجائے کسی اور مد میں استعمال کیا جاتا رہا ہے، امیروں کی بجائے غریبوں سے ٹیکس وصول کیا جاتا رہا ہے، ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناسب سے نہیں بڑھائی جاتی، غریبوں اور مستحقین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جرائم بڑھتے جارہے ہیں ،قوانین صرف غریبوں کے لیے ہیں امیر ان سے مبرا ہیں، ہم نے قائد اعظم کے قول کام ،کام اور صرف کام کا مطلب الٹا لے لیا ہے سال کے 365دنوں میں ہم صرف کچھ دن کام کرتے ہیں باقی دن مختلف چھٹیوں میں گزار لیتے ہیں ۔ قو م میں اخلاقیات ،ایمان داری ، سچائی اور برداشت کا فقدان بڑھتا جارہا ہے۔

قوم سوشل میڈیا کی جھوٹی خبروں میں غرق ہوتی جارہی ہے ان کی ذہنی صلاحیت بری طرح مفلوج ہورہی ہے ،نوجوان نسل کو پڑھائی سے دلچسپی نہیں ہے وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں رہ کر وقت گزاری میں مصروف ہے ،سیاست بدعنوانی کا دوسرا نام بن چکا ہے ، سرکاری اداروں میں رشوت خوری کے چلن کل کی طرح آج بھی رواج ہے ، وطن پرستی کی بجائے قوم پرستی کو اولیت دی جاتی ہے ،سیلاب زدگان کے نام پر ملنے والے سامان کو ہڑپ کیا جاتا ہے ، ڈیم تعمیر کرنے کے نام پر اربوں روپے جمع کئے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ایک مخصوص ٹولہ مدر پدر آزاد عورتوںکے حقوق کے نام پر معاشرہ میں بے حیائی پھیلانا چاہتا ہے اور ہمارا قانون انھیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔اظہار آزادی کے نام پر عزت داروں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں مگر قانون خاموش رہتا ہے ،امیر لوگ بیچ بازار میں قتل کردیتے ہیں اور صفائی سے سزا سے بچ نکلتے ہیں ۔ ایک ٹھیلے والے سے لیکر ایوان بالا تک خرافات کا نمونہ ہیں ۔ ہماری قوم میں وہ تمام خرابیاں در آئی ہیں جن سے عذاب نازل ہواکرتے تھے ، عذاب تو اب بھی ہم پر نازل ہے مگر دیکھنے والی بصیرت نہیں۔

پوری قوم مختلف بحرانوں کا شکار ہے، ہماری زراعت ختم ہوچکی ہے ، صنعتیں بند ہوچکی ہیں ، گیس کے ذخائر آخری حدوں کو چھورہے ہیں ،قدرتی وسائل نمائشی بنا دیئے گئے ہیں ، لوگ غربت سے تنگ آکر اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں لے رہے ہیں ، لوگ سر بازار ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں، قتل ہورہے ہیں ، پانی بجلی گیس کا رونا دھونا ہے ،انسانی ضروریات پورے ہو نہیں پا رہی ہیں، معاشرتی اصلاح کی بجائے فرقوں کی تبلیغ کی جاتی ہے ۔ایک لمبی فہرست ہے تباہی و بربادی کی اور کون ساعذاب کا منتظر فردا ہو؟ کیا یہ سب کچھ عذاب نہیں ہیں ؟

تمہی کہو ! قدرت کے موسم بھی ہم سے روٹھ گئے ہیں، سردی میں گرمی ہوتی ہے اور گرمی میں سردی پڑتی ہے ، بن موسم طوفانی بارشیں ہوتی ہیںجو بہت کچھ تباہ کردیتی ہیں ۔ اے پاکستانی قوم ! صرف دعاؤں سے حالات تبدیل نہیں ہوا کرتے اپنے اعمال بھی درست کرنا ضروری ہوتا ہے۔

QOSHE - غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگانا ہوگا - شبیر احمد ارمان
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگانا ہوگا

10 18
14.04.2024

[email protected]

’’ پاکستان اکنامک انڈیکیٹرز کے لحاظ سے ایتھوپیا اور روانڈا کے قریب پہنچ گیا ہے ہمارے ادارے ٹوٹ رہے ہیں اگر اقتصادی بحالی کی طرف مناسب توجہ نہ دی گئی تو غریب کو روٹی کے لالے پڑ جائیں گے اگر کرپشن ختم کردی جائے تو باہر جا نے والے 13ارب ڈالر اور بجٹ کے تحت کھائے جانے والے 100ارب کہاں گئے ؟ آٹا مہنگا کرنے کی پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ، 1990ء تک اقرا ء سرچارج کی مد میں 80ارب روپے جمع کیے تھے اس قسم کو بجٹ میں شامل کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کروں گا ، 100بڑے بڑے ڈیفالٹرز کی لسٹ میں بڑے بڑے امیروں کے نام ہیں اب غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگانا ہوگا ۔‘‘

ان خیالات کا اظہار دسمبر 1997ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے کیا تھا ۔ ڈاکٹر محبوب الحق ایک ماہر اقتصادیات تھے ملک کے علاوہ عالمی سطح پر ان کی قابلیت تسلیم شدہ تھی اور وہ کافی عرصے تک عالمی مالیاتی بینک میں صدر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔اس لحاظ سے ان کا مذکورہ تجزیہ اور اظہار خیال توجہ طلب تھا لیکن پاکستان کے دوست نما دشمنوں نے اس پر توجہ نہیں دی اور آج ملکی خطرناک معیشت سب کے سامنے ہے ،آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر قرض بمع سود اور شرائط پا کستان آنکھیں بند کرکے قبول کررہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا ہے ، ملک کو مقروض سے مقروض تر بنایا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔ایک عرصے سے بچت کے نام پر قومی اداروں کو فروخت کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔

کبھی گولڈن ہینڈ شیک، کبھی ڈاؤن........

© Express News


Get it on Google Play