[email protected]

میں نے ایکسپریس میں کالم سن2000 یکم جنوری سے لکھنا شروع کیا۔ پہلے ہفتے میں تین کالم لکھا کرتی تھی، لیکن تین چار سال کے بعد کالموں کی تعداد ہفتے میں دو کردی۔

اس وقت بہت سارے ایسے مستحق لوگوں کے بارے میں کالم لکھے جو مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں یا تو میں بہت اچھی طرح جانتی تھی یا کوئی اور واقف کار انھیں ٹھیک سے جانتا تھا، مجھے اب یاد بھی نہیں کہ کتنے لوگوں کی مدد ایکسپریس کے کالموں کے ذریعے ہوئی ہے۔

یہ سلسلہ سن 2001 سے لے کر 2014 تک چلا، پھر کچھ عرصے کے لیے میں نے کالم لکھنا بند کر دیا تھا یہ سن 2017 کی بات ہے۔ قاضی اختر جوناگڑھی کی وفات کے بعد میرے لیے کالم لکھنا ممکن نہ رہا تھا لیکن خداوند تعالیٰ کا شکر ہے کہ کچھ عرصے کی غیر حاضری کے بعد پھر میں ایکسپریس سے وابستہ ہوگئی اور اب اپنے قارئین کے درمیان ہوں۔ ان کی ای میل کا جواب دیتی ہوں جوکہ اکثر قارئین کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے بہت افسردہ کر دیا اور میرے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اپنے قارئین سے مدد مانگوں۔ ایک خاتون ہیں جن کے شوہر ایک دکان پر ڈیلی ویجز پر ملازم ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں اور چاروں پڑھ رہے ہیں۔ ان کے شوہر کو چونکہ روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ ملتی ہے اس لیے چھٹی کی صورت میں معاوضہ کٹ جاتا ہے، تہوار یا ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ جو عید، بقر عید، محرم یا دوسرے دنوں کی تعطیلات کی بنا پر جب دکان بند ہوتی ہے تو ان کو تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ وہ نہایت عبادت گزار اور محنتی خاتون ہیں۔ وہ میری ایک عزیزہ کے گھر کوکنگ کرتی ہیں جہاں سے انھیں دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، یہ خاتون چاہتی ہیں کہ ان کے بچے پڑھ جائیں۔

تین چار دن قبل مجھے ان سے کچھ کام تھا، جس کے لیے میں شام میں ان کے گھر گئی، افطار کا وقت ہونے والا تھا، وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہوگئیں، میں نے وجہ پوچھی تو وہ رونے لگیں، دوبارہ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ ’’ہم لوگ تو نمک سے روزہ کھول کر بس روکھی سوکھی جو مل جائے اس سے پیٹ بھر لیتے ہیں، لیکن آپ کے لیے میں بازار سے کچھ منگواتی ہوں۔‘‘ میں نے انھیں تسلی دی اور پھر پانچ سو روپے انھیں دینے کی کوشش کی جسے انھوں نے بہ ہزار دقت لیا، لیکن فوراً ہی بڑے بیٹے کو جو طالب علم ہے بازار بھیجا اور افطاری کا سامان منگوا کر میرے لیے اہتمام کیا اور مجھے بغیر روزہ کھولے واپس نہ آنے دیا۔

جب ان کے حالات تفصیل سے سامنے آئے تو میں نے تہیہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے ان کی مدد کے لیے کالم ضرور لکھوں گی۔ ان کا اصلی نام تو کچھ اور ہے لیکن میں یہاں ان کا نام سیما لکھ رہی ہوں، یہ اپنے نو بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں، ان کے والد اور والدہ دونوں کام کرتے تھے۔ اس لیے یہ میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکیں، لیکن انھیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، یہ ردی پیپر والے سے ڈائجسٹ اور رسالے لے کر پڑھا کرتی تھیں، آج بھی یہ شوق برقرار ہے۔

ان کا شوق دیکھتے ہوئے رسائل اور کتب انھیں پڑھنے کو دیتی ہوں، یہ چونکہ بڑی بیٹی تھیں اس لیے گھر کی ساری ذمے داری ان کی ماں نے ان پر ڈال دی، ماں جاب کر رہی تھیں، صبح جاتی تھیں اور شام چھ بجے واپس آتی تھیں، گھر کا سارا بوجھ چھوٹی سی سیما پہ پڑ گیا۔ کھانا پکانا، بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور بہت کچھ، چھوٹی سی سیما پڑھنا چاہتی تھی، کھیلنا چاہتی تھی لیکن گھر کے کاموں سے اسے فرصت ہی نہ ملتی تھی، جوائنٹ فیملی سسٹم تھا، چچا تایا ساتھ رہتے تھے۔

اس لیے ماں باپ بچوں کو اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے تھے، جس وقت چچا تایا کے بچے مل کر کوڑا جمال شاہی، پیچھے دیکھا مار کھائی کھیلتے تو اس وقت ننھی سیما کو برتن دھونے ہوتے تھے، وہ اپنے کزنز کے ساتھ بہت کم کھیل پاتی، کبھی ماں کا موڈ اچھا ہوا تو آنکھ مچولی کھیلنے دی، ورنہ اسکول سے آ کر سیما کے مقدر میں کھانا پکانا، برتن دھونا اور گھرکی صفائی کرنا لکھا تھا۔ باقی بہن بھائی چھوٹے تھے۔

ایک بڑے بھائی تھے جو ماں کے بہت لاڈلے تھے اور آج تک ہیں۔ ماں چھوٹے بچوں کو زیادہ پیار کرتی تھیں اور ذرا بھی کام میں کوتاہی ہوتی تو ماں پڑھائی چھڑوانے کا کہتیں اور سیما ہر قیمت پر پڑھنا چاہتی تھی۔ اس لیے وہ ماں کی مار بھی کھاتی اور ڈانٹ بھی، لیکن اسے پڑھنے کا جنون تھا، جب سارے گھر والے سو جاتے تو سیما اپنا اسکول کا کام کرتی، اسی طرح بس اس نے کسی طرح میٹرک کر لیا۔

میٹرک کرنے کے تین چار سال بعد سیما کے رشتے آنے لگے کیونکہ اس کے سگھڑاپے کی دھوم تھی، پھر ماں باپ نے ایک جگہ دیکھ بھال کے رشتہ کردیا، لیکن وہاں بھی دس بہن بھائی تھے، اور سیما کے میاں سب سے بڑے تھے، پانچ نندیں تھیں اور چار دیور۔ کھاتا پیتا گھرانہ تھا، ساس سسر زندہ تھے، سیما کے شوہر سب سے بڑے تھے۔ ساس کا جگر خراب تھا، وہ زیادہ تر بیمار رہتی تھیں، ان کے پاس سیروں کے حساب سے زیور تھا جو انھوں نے اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں کو دے دیا اور سیما کو صرف ایک ہلکا سا سیٹ بری میں دیا، ساس کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی۔

سیما نے بڑی بہو کی حیثیت سے بہت جلدی گھر سنبھال لیا، ساس سسر دونوں سیما کو بہت پیار کرتے تھے، اچانک ایک دن ساس چل بسیں، سسر نے بیوی کے غم میں دنیا تیاگ دی، کاروبار دونوں بیٹوں کے سپرد کردیا جو بڑے تھے خود کو مسجد سے گھر تک محدود کردیا، اور پھر ایک دن بچوں کو بتایا کہ انھوں نے دکانیں اور گھر بیچ دیا ہے تاکہ اپنی زندگی ہی میں سب کو حصہ دے دیں۔ بس اس کے تین ماہ بعد وہ بھی چل بسے، سیما کے شوہر چونکہ بڑے تھے۔

اس لیے دیور اور تین نندوں کی ذمے داری ان پر پڑ گئی۔ خدا خدا کرکے سب کی شادیاں کیں اور اب سیما سخت مشکل میں ہیں، سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے وہ ادھ موئی ہوگئی ہیں۔ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچوں کو پڑھا رہی ہیں کہ وہ تعلیم کی اہمیت کو جانتی ہیں۔ اگر وہ خود اور ان کے شوہر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے تو شاید ان کے حالات ایسے نہ ہوتے۔ یہ خاندان بہت زیادہ مشکل کا شکار ہے۔

میں ایک بار پھر اپنے قارئین سے التجا کرتی ہوں کہ سیما کی مدد کیجیے، جو کچھ بھی ہو سکے وہ میرے قلم کا بھرم رکھتے ہوئے انھیں دے دیں، یہ خاندان نہ کسی سے کچھ مانگ سکتا ہے، نہ اپنی حالت زار کسی سے بیان کر سکتا ہے۔ میں سیما کا موبائل نمبر لکھ رہی ہوں، آپ میں سے جو معلومات کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں، نمبر ہے: 0310-2195303۔ اور جہاں یہ کام کرتی ہیں ان کے بینک اکاؤنٹ کا نمبر بھی دے رہی ہوں، جو لوگ رقم بہ ذریعہ اکاؤنٹ دینا چاہتے ہیں وہ یہ نمبر نوٹ کر لیں، نہایت شکر گزار رہوں گی۔ Ghazala Saeed: PK91ALFH0250001005264984 Hussainabad Branch, Karachi.

کراچی پر ان دنوں ہمیشہ کی طرح بھکاریوں کی یلغار ہے، یہ مسجدوں کے باہر، ریستوران پر کھانے پینے کی جگہوں پر اور شاپنگ سینٹروں پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں، اب تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ رات کو سونے کے لیے انھوں نے اسپتالوں کے اوپی ڈی کا رخ کیا ہوا ہے، یہ خاندانی گداگر ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے آپ کے دامن سے اس وقت تک چمٹے رہیں گے جب تک کچھ رقم دے نہ دیں۔

اس کے برعکس یہ سفید پوش خاندان ہے، جس نے پتا نہیں کتنے دن اور کتنی راتیں پیٹ سے پتھر باندھ کر گزاری ہیں، سیما اور ان کا خاندان واقعی مستحق ہے۔ مجھے اس کا افسوس ہے کہ میں نے پہلے ان کے لیے کالم لکھ کر مدد کی درخواست کیوں نہ کی، لیکن سیما اتنی خوددار ہیں کہ انھوں نے کبھی زبان نہ کھولی، وہ تو میں روزے کے وقت اچانک ان کے گھر نہ جاتی تو میں بھی بے خبر رہتی۔ خدا آپ سب کے دل کو نرم کرے اور آپ لوگ سیما کی مدد کریں۔

QOSHE - سیما کی مدد کیجیے - رئیس فاطمہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سیما کی مدد کیجیے

16 0
29.03.2024

[email protected]

میں نے ایکسپریس میں کالم سن2000 یکم جنوری سے لکھنا شروع کیا۔ پہلے ہفتے میں تین کالم لکھا کرتی تھی، لیکن تین چار سال کے بعد کالموں کی تعداد ہفتے میں دو کردی۔

اس وقت بہت سارے ایسے مستحق لوگوں کے بارے میں کالم لکھے جو مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں یا تو میں بہت اچھی طرح جانتی تھی یا کوئی اور واقف کار انھیں ٹھیک سے جانتا تھا، مجھے اب یاد بھی نہیں کہ کتنے لوگوں کی مدد ایکسپریس کے کالموں کے ذریعے ہوئی ہے۔

یہ سلسلہ سن 2001 سے لے کر 2014 تک چلا، پھر کچھ عرصے کے لیے میں نے کالم لکھنا بند کر دیا تھا یہ سن 2017 کی بات ہے۔ قاضی اختر جوناگڑھی کی وفات کے بعد میرے لیے کالم لکھنا ممکن نہ رہا تھا لیکن خداوند تعالیٰ کا شکر ہے کہ کچھ عرصے کی غیر حاضری کے بعد پھر میں ایکسپریس سے وابستہ ہوگئی اور اب اپنے قارئین کے درمیان ہوں۔ ان کی ای میل کا جواب دیتی ہوں جوکہ اکثر قارئین کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے بہت افسردہ کر دیا اور میرے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ اپنے قارئین سے مدد مانگوں۔ ایک خاتون ہیں جن کے شوہر ایک دکان پر ڈیلی ویجز پر ملازم ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں اور چاروں پڑھ رہے ہیں۔ ان کے شوہر کو چونکہ روزانہ کی بنیاد پر تنخواہ ملتی ہے اس لیے چھٹی کی صورت میں معاوضہ کٹ جاتا ہے، تہوار یا ہفتہ وار چھٹیوں کے علاوہ جو عید، بقر عید، محرم یا دوسرے دنوں کی تعطیلات کی بنا پر جب دکان بند ہوتی ہے تو ان کو تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ وہ نہایت عبادت گزار اور محنتی خاتون ہیں۔ وہ میری ایک عزیزہ کے گھر کوکنگ کرتی ہیں جہاں سے انھیں دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی، یہ خاتون چاہتی ہیں کہ ان کے بچے پڑھ جائیں۔

تین چار دن قبل مجھے ان سے کچھ کام تھا، جس کے لیے میں شام میں ان کے گھر گئی، افطار کا وقت........

© Express News


Get it on Google Play