[email protected]

سنا ہے کہ مایا کے صرف تین نام ہیں

مایا تیرو تین نام

پرسا،پرسو،پرس رام

لیکن جس قتالہ عالم،جوالہ آتش،بلائے زماں ومکاں اور لرزندہ جہاں کا ذکر ہم کررہے ہیں، اس کے بے شمار نام ہیں۔حالانکہ والدین نے اس کا سیدھا سادا صرف ایک نام رکھا تھا، یہ باقی کے نام اس نے خود اپنی اداؤںاور نخروں بلکہ ہنرمندیوں اور کمالات بلکہ وارداتوں سے کمائے ہیں جس طرح باقی پاکستانی سپوت اور سپوتنیاں،کھلاڑی اور لیڈر بیرون ملک جاکر نام کماتے ہیں اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔

اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کس فتنے،کس قیامت اور کس بلائے آسمانی و زمینی و سیاسی کا ذکر کررہے ہیں، اگر اب بھی نہیں پہچان پائے ہیں تو تھوڑی سی نشانیاں اور بتائے دیتے ہیں، ایک نام تو اس کا منی بدنام ہے، جس کی آنکھ شرابی، چال نوابی اور ہونٹ گلابی تھے جو نہ صرف بدنام ہوئی بلکہ امبیا سے آم بھی ہوئی اور خاص سے عام بھی ہوئی لیکن ابھی اس کا یہ نام چاردانگ عالم میں گونج رہا تھا کہ اس نے اپنا دوسرا نام’’چکنی چمبیلی‘‘ رکھ لیا اور ’’پوا‘‘ چڑھا کر ایسی آئی ایسی آئی کہ آتی چلی گئی اور لوگوں کے خرمن،ہوش و حواس پر بجیلیاں گراتی چلی گئی۔

حالانکہ چکنی چمبیلی نام بہت اچھا تھا اور اس پر سوٹ بھی کرتا تھا،لیکن اس کے مزاج میں پارہ بھرا ہوا ہے، ٹھہرنا اور رکنا اس کی فطرت ہی میں نہیں، فتوحات حاصل کرنا اس کا جنون ہے بقول شکیل احمد مرحوم۔ہر صبح فتح ہر شام فتح کہ میرا تو ہے کام فتح۔

چنانچہ اب کے اس نے انگریزی سیکھ کر اپنا نام’’شیلا‘‘ رکھا، نہ صرف خود ہی سوال و جواب کرتے ہوئے،وٹ مائی نیم، مائی نیم از شیلا، پھر اپنی جوانی پر ممنوعہ کا بورڈ لگاتے ہوئے’’ تیرے ہاتھ نہ آنی ‘‘کا اعلان کیا۔اور یہ بات بالکلسچ ہے کہ یہ کبھی نہ کسی کے ہاتھ آئی تھی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی، نہ کہیں رکی ہے نہ رکے گی، اب تو یقیناً آپ پہچان گئے ہوں گے۔

جی ہاں! وہی تباہ کار،خون کار اور دختر سرکار مہنگائی۔جو تبدیلی والی حکومت میں۔’’ببلی بدمعاش‘‘ ہوگئی ہے۔اب یہ جو کہیں سے اینٹ کہیں سے روڑا اکٹھا کرکے ’’بھان متی‘‘ نے ایک عجیب الخلقت کنبہ جوڑا ہے یا یونین قائم کیہے۔اس کے عہد میں نہ جانے یہ ’’ببلی بدمعاش ‘‘ عرف مہنگائی کیا کیا کرے گی، کہاں تک پہنچے گی، اس کا اندازہ کچھ کچھ ابھی سے ہونے لگا ہے کیونکہ بھان متی کے کنبے میں ہر اینٹ، ہر پتھر اور ہر روڑا’’سواسیر‘‘ ہے اور سب کے سب اس ملک کی خدمت میں خون کا آخری قطرہ بہانے کو بیتاب ہیں۔

قاطع اعملہ میں اکثر نجوم

یہ بلائے آسمانی اور ہے

اب اس دور میں دیکھتے ہیں کہ منی بدنام،چکنی چمبیلی،شیلا اور ببلی بدمعاش کو ن سا نیا نام اختیار کرے گی، ہمارے خٰال میں تو ببلی بدمعاش سے زیادہ بہتر نام اس کے لیے کوئی اور ہو نہیں سکتا۔لیکن عادت تو چھوٹتی ہے نہیں، اس لیے مزید ترقی کرکے کوئی اور نام ضرور اپنائے گی اور چونکہ ہم کچھ کچھ بلکہ بڑی حد تک اس کے مزاج آشنا ہیں اور اس کی تاریخ بھی ہمارے پیش نظر ہے، لہٰذا اس کا اگلا نام’’پینڈورا‘‘ ہونا چاہیے، یونانی اساطیر کی پینڈورا اور اس کے صندوق سے تو ساری دنیا واقف ہے لیکن یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ ’’پینڈورا‘‘ کے لفظی اور معنوی معنی ’’سب کا تحفہ‘‘ گفٹ فار آل یا گفٹ فرام آل۔اور دونوں یعنی ببلی بدمعاش اور پینڈورا میں حد درجہ مماثلت بھی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ببلی بدمعاش ایک طرح سے پینڈورا کا پنر جنم ہے۔

پینڈورا سب دیوتاؤں کا تحفہ تھی اور ہماری یہ ببلی بدمعاش اس ملک میں برپا ہونے والی تما حکومتوں، پارٹیوں اور لیڈروں کا مشترکہ تحفہ یا سوغات ہے، دراصل دیوتا بھی انسانوں کے دشمن تھے جس طرح، مطلب ہے کالانعام کے دشمن ہوتے ہیں چنانچہ سارے دیوتاؤں یا اس زمانے کے لیڈروں نے اپنا اپنا حصہ ڈال کر’’پینڈورا‘‘ کو تخلیق کیا اور اپنے’’تحائف‘‘ سے لیس کرکے دنیا میں بھیجا۔جو قدیم یونانی اساطیر کے ٹیٹان دیوتا جو دو بھائی تھے لیکن نئی نسل کے اولمسن دیوتاؤں نے ان کو مغلوب اور بے اختیار کرکے اپنی ماں جیہ(gea) یعنی زمین کے ساتھ زمین کا قیدی بنایا تھا۔اپی میتھس بڑا لیکن کم عقل(پاکستانی کالانعام کی طرح) تھا۔ اس لیے پینڈورا پر ریجھ گیا۔

چھوٹے لیکن دانا پرومیتھس نے بہت سمجھایا کہ اس تحفے میں دیوتاوں کا کچھ چھل کٹ ہے۔لیکن منع کرنے کے باوجود اس سے شادی کرلی۔پینڈورا کو دیوتاؤں نے جہیز میں ایک صندوق دیا تھا لیکن ساتھ ہی تاکید کی تھی کہ اس صندوق کو ہرگز نہ کھولنا۔یہ دراصل ترغیب بذریعہ ممانعت یا مخالفت برائے ترغیب اساطیری کہانیوں کا ایک معروف سلسلہ ہے یعنی کسی کو کسی چیز یا کام سے منع کرنے کا مطلب اس کی طرف توجہ دلانے اور مائل کرنے کا ہوتا ہے۔

چنانچہ پینڈورا کو بھی اس ممانعت نے تب تک بے قرار رکھا جب تک اس نے صندوق کو کھول نہ لیا۔صندوق کھلتے ہی وہ تمام تحائف نکل کر انسانی نسل کو لگ گئے جو دیوتاؤں یا لیڈروں نے کالانعام کو لاحق کرنے کے لیے رکھے تھے، بے شمار آفات زمینی و آسمانی و انسانی وسیاسی۔آخر میں ایک بڑھیا منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت لاٹھی پکرے کانپتی، گرتی پڑتی اور لنگڑاتی ہوئی بہ وقت تمام برآمد ہوئی جس کا نام نامی و اسم گرامی’’امید خاتون‘‘ تھا۔ اب عرصہ ہوا جب بھی ’’صندوق‘‘ کھلتے ہیں۔

ان میں سے ساری بلائیں تو پھدک کر باہر آجاتی ہیں اور کالانعام کی گردنوں میں’’پیرتسمہ پا‘‘ ہوجاتی ہیں اور امید خاتون بچاری بھی ان کے پیچھے پیچھے نکل کر آنا چاہتی ہے لیکن بچاری پر کھانسی کا شدید دورہ پڑجاتا ہے اور وہ کھانستی ہوئی، ہانپتی ہوئی اور کانپتی ہوئی پھسل کر صندوق کی تہہ میں گر کر بے ہوش ہوجاتی ہے اور اوپر سے صندوق کا ڈھکنا گرجاتا ہے۔

اے بریف اسٹوری آف اسٹوری آف پینڈورا سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ آیندہ کے لیے منی بدنام ،چکنی چمبیلی، شیلا کی جوانی اور ببلی بدمعاش کا نام’’پینڈورا‘‘ رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے پاس جو صندوق ہے اور پھر اس صندوق میں کالانعام کا نام لکھا ہے تاکہ ساری بلائیں، مثلاً مہنگائی وغیرہ کالانعام کو ہی چمٹیں، ویسے بھی پینڈورا سابق ببلی بدمعاش کا نشانہ بھی اب پکا ہوچکا ہے۔

ناوک انداز جدہر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

QOSHE - منی بدنام، چکنی، چمبیلی اور ببلی بدمعاش - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

منی بدنام، چکنی، چمبیلی اور ببلی بدمعاش

16 0
20.03.2024

[email protected]

سنا ہے کہ مایا کے صرف تین نام ہیں

مایا تیرو تین نام

پرسا،پرسو،پرس رام

لیکن جس قتالہ عالم،جوالہ آتش،بلائے زماں ومکاں اور لرزندہ جہاں کا ذکر ہم کررہے ہیں، اس کے بے شمار نام ہیں۔حالانکہ والدین نے اس کا سیدھا سادا صرف ایک نام رکھا تھا، یہ باقی کے نام اس نے خود اپنی اداؤںاور نخروں بلکہ ہنرمندیوں اور کمالات بلکہ وارداتوں سے کمائے ہیں جس طرح باقی پاکستانی سپوت اور سپوتنیاں،کھلاڑی اور لیڈر بیرون ملک جاکر نام کماتے ہیں اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔

اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کس فتنے،کس قیامت اور کس بلائے آسمانی و زمینی و سیاسی کا ذکر کررہے ہیں، اگر اب بھی نہیں پہچان پائے ہیں تو تھوڑی سی نشانیاں اور بتائے دیتے ہیں، ایک نام تو اس کا منی بدنام ہے، جس کی آنکھ شرابی، چال نوابی اور ہونٹ گلابی تھے جو نہ صرف بدنام ہوئی بلکہ امبیا سے آم بھی ہوئی اور خاص سے عام بھی ہوئی لیکن ابھی اس کا یہ نام چاردانگ عالم میں گونج رہا تھا کہ اس نے اپنا دوسرا نام’’چکنی چمبیلی‘‘ رکھ لیا اور ’’پوا‘‘ چڑھا کر ایسی آئی ایسی آئی کہ آتی چلی گئی اور لوگوں کے خرمن،ہوش و حواس پر بجیلیاں گراتی چلی گئی۔

حالانکہ چکنی چمبیلی نام بہت اچھا تھا اور اس پر سوٹ بھی کرتا تھا،لیکن اس کے مزاج میں پارہ بھرا ہوا ہے، ٹھہرنا اور رکنا اس کی فطرت ہی میں نہیں، فتوحات حاصل کرنا اس کا جنون ہے بقول شکیل احمد مرحوم۔ہر صبح فتح ہر شام فتح کہ میرا تو ہے کام فتح۔

چنانچہ اب کے اس نے انگریزی........

© Express News


Get it on Google Play