[email protected]

ابن انشاء نے بھی کہا ہے کہ ’’سب مایا ہے‘‘۔اس کے بعد عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے اور زیادہ زور سے کہا ہے کہ سب مایا ہے، عابدہ پروین نے بھی کہا ہوگا۔اور نہیں کہا ہے تو کہنا چاہیے کہ ’’سب مایا ہے‘‘ بلکہ ہماری تو خواہش ہے کہ سارے گلوکار فنکار اور پاپ کار بھی زور زور سے چلائیں کہ ’’سب مایا ہے‘‘ اور سارے شاعرو صورت گر وافسانہ نویس بھی نعرہ لگائیں کہ سب مایا ہے۔اور سیاست کے تمام چھوٹے بڑے چٹے بٹے بھی دہرائیں کہ ’’سب مایا ہے‘‘ اور یہ اس لیے کہ واقعی ’’سب مایا ہے‘‘ جو نظر آتا ہے وہ بھی مایا ہے جو سنائی دیتا ہے وہ بھی ’’سب مایاہے‘‘ جو دکھایا جاتا ہے وہ بھی سب مایا ہے اور جو چھپایا جاتا ہے وہ بھی سب مایاہے یہاں تک کہ جو ’’مایہ‘‘ ہے یہ بھی سب مایا ہے۔

’’مایا‘‘ ہندی دھرم اور سنسکرت زبان کا ایک بہت ہی مشہور ومعروف بلکہ بدنام و رسوا لفظ ہے۔لیکن کثیرالاستعمال لفظ ہے آپ چاہیں تو اسے دھوکا،فریب،جادو منتر،جھوٹ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن لفظ’’مایا‘‘ میں جو وسعت اور ہمہ گیری ہے وہ کسی اور لفظ میں نہیں ہے۔سادہ اور آسان زبان میں ’’مایا‘‘ وہی ہے جس کا ذکر ہم اکثر کرتے ہیں۔ یعنی وہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ابن انشاء اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے اس کی جو مثالیں دی ہیں وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔مثلاً فیض نے جو فرمایا ہے ایک الہڑ لڑکی نے جو بتایا ہے۔

اس کے علاوہ یونان کے سارے داناؤں،روم کے سارے دانشوروں،سکندریہ کے سارے فلسفیوں نے، چین کے سارے کنفیوشسوں نے جاپان کے سارے پہلوانوں نے ہندوستان کے سارے رشیوں نے اور پاکستان کے سارے لقمانوں، بزرگ مہروں اور پاپ سنگروں نے جو کچھ بھی بتایا ہے دکھایا ہے لکھایا پڑھایا ہے ’’سب مایاہے‘‘۔ ہندی دھرم میں جو دیوتا کرتے ہیں وہ’’ستیہ‘‘ ہوتا ہے اور جو دیوتا ایشور اور راکھشش کرتے ہیں وہ مایا ہوتا ہے جیسے پاکستان میں جو کچھ حکومت یا حزب اقتدار کرتی ہے وہ ستیہ ہوتا ہے اور جو حزب اختلاف کرتی ہے وہ مایا ہوتا ہے۔چنانچہ ’’راون‘‘ مایا تھا اور رام ستیہ تھا۔کرشن ستیہ تھا اور کنس مایا تھا۔امرنیہ کشیپ نے جو کیا وہ مایا تھا اور بھگت پر ہلاد نے جو کیا وہ ستیہ تھا۔اب ہمارے سامنے یہ جو منظر ہے۔پاکستان کی سیاست،جمہوریت،حکومت آئین قانون اور متعلقہ ادارے۔ان میں بہت کچھ ’’مایا‘‘ ہے لیکن چونکہ ہم کچھ زیادہ بہادر نہیں بلکہ صاف صاف بزدل ہے اور ’’ڈر‘‘ کو ہم سب سے بڑی خوبی سمجھتے ہیں۔

اس لیے ان میں سے ’’کچھ‘‘ کے بارے میں تو ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکیں گے کہ ’’سب مایا ہے‘‘ لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہے تو سب مایا ہی لیکن ہم کہہ نہیں سکتے کہ مایا ہے۔کیونکہ ایسا کہنے والے کے ساتھ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ’’مایا‘‘ نہیں ہوتا بلکہ سرسایا بلکہ ’’سر ضایع‘‘ ہوتا ہے۔ وہ کسی ملک کے بادشاہ کو کسی لفظ سے چڑ ہو گئی تھی۔

اس لیے اس نے پابندی لگائی کہ جو کوئی یہ لفظ منہ سے نکالے گا اسے پانچ اشرفیاں جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔خفیہ کے لوگ ملک کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے تھے اور جہاں کسی کے منہ سے کسی کے لیے وہ لفظ نکلتا اسے پکڑ لیتے اور پانچ اشرافی جرمانہ لیے بغیر نہ چھوڑتے۔ادھر بدقسمتی سے ملک میں ایسے لوگوں کی بہتات تھی جو اس لفظ کے صحیح حق دار اور مستحق ہوتے تھے۔لیکن پھر عوام نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا۔کہ اگر کوئی ’’وہ‘‘ نظر آتا۔تو کہتے۔ہو تو تم وہی ہو لیکن میرے پاس پانچ اشرافیاں نہیں ہیں۔یا ۔اگر میرے پا س پانچ اشرافیاں ہوتیں تو میں تجھے کہہ دیتا کہ تم ’’وہ‘‘ ہو۔یا کسی کو دیکھ کر آہ بھرتے ہوئے کہتے۔کاش میرے پاس پانچ اشرافیاں ہوتیں۔

اب ہمیں بھی سامنے کے اس منظر میں مایا جال میں ایسے بہت سارے نظر آرہے ہیں جو ’’پکے پکے‘‘ ہیں لیکن کیا کریں۔کہہ نہیں پارہے ہیں۔اور یہ ہمارے حق میں بہت اچھا ہے۔ہم اکثر سوچتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ’’ڈر‘‘ کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے اور ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر’’بزدلی‘‘ بھر رکھی ہے ورنہ ہم نہ جانے کب،کہاں اور کیسے اپنے کیفر کردار کو پہنچ چکے ہوتے۔ایک طرح سے کہیے کہ ’’ڈر‘‘ ہمارا محافظ بھی ہے پاسبان بھی، مشیر بھی اور راہبر ورہنما بھی۔ اور یہی ہمارا محسن اعظم ڈر ہے جو ہمیں روکے ہوئے ہے جو ہر ہر لحاظ سے ’’مایا جال‘‘ ہیں۔ایک اونٹ کو ایک گیدڑ سے پرخاش ہوگئی تھی۔لیکن وہ اسے پکڑ نہیںپارہا تھا۔لیکن کافی غور وخوض کے بعد ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آگئی اس نے گیدڑ سے کہا ذرا آکر دیکھو میرے سینے پر کچھ لکھا ہوا ہے لیکن مجھے دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ذرا پڑھ کر سنادو۔گیدڑ اپنے اس اعزاز کو پاکر فوراً اونٹ کے نیچے گیا تاکہ اس کے سینے کی تحریر پڑھ کر سنادے۔لیکن اونٹ اس کے اوپر بیٹھ کر اسے بری طرح رگیدنے لگا ،گیدڑ کا کچومر نکل گیا لیکن اس کا تھوبڑا اونٹ کے ناجائز قبضے سے باہر رہ گیا تھا۔کسی اور پر تو نہیں بس چلتا تھا۔

اس لیے خود ہی کو کوسنے لگا۔اپنے آپ سے بولا۔ تمہارا باپ منشی تھا، تمہارا دادا پٹواری تھا یا پردادا محرر تھا۔جو تم تحریریں پڑھنے لگے تھے۔کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہے سامنے اتنے بڑے بڑے مایا جال اس دھڑ سے پھیلے ہوئے ہیں جن کے بارے میں در ودیوار اور پیڑ پودوں کو بھی پتہ ہے کہ مایاجال ہیں، سارا تھام جام ، سارا طلسم اور سارا کھڑاگ،سب مایا ہے۔لیکن ہم زبان پر تالے لگائے ہوئے ہیں کہ نہ تو ہمارا سر ابھی کاندھوں کا بوجھ بنا ہے اور نہ ہی زندگی سے اتنے بیزار ہوئے ہیں کہ خواہ مخواہ آبیل مجھے مار کا نعرہ لگائیں، مایا ہے تو ہوتا رہے جھوٹے ہوں تو ہوں منافق دوغلے نوسرباز۔اور ’’وہ‘‘ ہیں۔تو ہمیں کیا؟ جب سب کچھ چپ ہیں زمیں چپ ہے آسماں چپ ہے تو ہم کہاں کے ’’دانے‘‘ ہیں کس ہنر میں ’’یکتے‘‘ ہیں

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاو وہ بے وفا سہی

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ؟

QOSHE - سب مایا ہے - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سب مایا ہے

7 0
16.03.2024

[email protected]

ابن انشاء نے بھی کہا ہے کہ ’’سب مایا ہے‘‘۔اس کے بعد عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے اور زیادہ زور سے کہا ہے کہ سب مایا ہے، عابدہ پروین نے بھی کہا ہوگا۔اور نہیں کہا ہے تو کہنا چاہیے کہ ’’سب مایا ہے‘‘ بلکہ ہماری تو خواہش ہے کہ سارے گلوکار فنکار اور پاپ کار بھی زور زور سے چلائیں کہ ’’سب مایا ہے‘‘ اور سارے شاعرو صورت گر وافسانہ نویس بھی نعرہ لگائیں کہ سب مایا ہے۔اور سیاست کے تمام چھوٹے بڑے چٹے بٹے بھی دہرائیں کہ ’’سب مایا ہے‘‘ اور یہ اس لیے کہ واقعی ’’سب مایا ہے‘‘ جو نظر آتا ہے وہ بھی مایا ہے جو سنائی دیتا ہے وہ بھی ’’سب مایاہے‘‘ جو دکھایا جاتا ہے وہ بھی سب مایا ہے اور جو چھپایا جاتا ہے وہ بھی سب مایاہے یہاں تک کہ جو ’’مایہ‘‘ ہے یہ بھی سب مایا ہے۔

’’مایا‘‘ ہندی دھرم اور سنسکرت زبان کا ایک بہت ہی مشہور ومعروف بلکہ بدنام و رسوا لفظ ہے۔لیکن کثیرالاستعمال لفظ ہے آپ چاہیں تو اسے دھوکا،فریب،جادو منتر،جھوٹ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن لفظ’’مایا‘‘ میں جو وسعت اور ہمہ گیری ہے وہ کسی اور لفظ میں نہیں ہے۔سادہ اور آسان زبان میں ’’مایا‘‘ وہی ہے جس کا ذکر ہم اکثر کرتے ہیں۔ یعنی وہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ابن انشاء اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے اس کی جو مثالیں دی ہیں وہ بہت ہی ناکافی ہیں۔مثلاً فیض نے جو فرمایا ہے ایک الہڑ لڑکی نے جو بتایا ہے۔

اس کے........

© Express News


Get it on Google Play