[email protected]

یہ بات تو اب عالمی سطح پر ثابت ہوچکی اور تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہمارا پیارا اور انوکھا نیارا ملک پاکستان ایک اور’’اعزاز‘‘ اپنے نام کرچکا ہے اور بین الااقوامی تھنک ٹینک یا غور کے حوض، آج کل تغور اور تفکر کررہے ہیں کہ اس کے لیے بھی نوبل پرائز یا آسکر ایوارڈ مختص کریں اور یہ اعزاز جمہوریت کی لیبارٹری ہونے کا ہے کیونکہ پاکستان میں اب تک اتنی اقسام کی ترقی دادہ ’’جمہوریتیں‘‘ لانچ ہوچکی ہیں کہ خود جمہوریت بھی حیران و پریشاں ناطقہ سربگریباں اور خامہ انگشت بدنداں ہے کہ میرے اندر اتنی اقسام، اشکال اور رنگوں کی جمہوریتیں موجود تھیں اور مجھے پتہ تک نہیں تھا۔وہ تو خدا بھلا کرے پاکستانیوں کا،جنھوں نے میرے اندر سے اتنی ساری جمہوریتیں نکال کر لانچ کی ہوئی ہیں ورنہ مجھے تو خود بھی اپنے اندر کے اتنے ’’گُن‘‘معلوم نہیں تھے۔

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور

بلکہ جمہوریت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر پاکستانی جمہوری سائنس دان نہ ہوتے تو میرے اتنے سارے’’گُن‘‘ پوشیدہ ہی رہ جاتے اور میں بیچاری ’’بانجھ‘‘ ہی مرجاتی۔

کثرت جذبات سے چشم شوق کس مشکل میں ہے

اتنی شمعیں کب تھیں جتنی’’روشنی‘‘ محفل میں ہے

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک اس ’’جمہوری لیبارٹری‘‘ سے لگ بھگ چارسوبیس جمع دس نمبر جمہوریتیں تو لائی جا چکی ہیںاور مزے کی بات یہ ہے کہ زچہ اور’’بچے‘‘ سب خیریت سے بھی ہیں۔ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی ساری اقسام ’’ترقی دادہ‘‘ اقسام ہیں یعنی ایک جمہوریت کے اندر پھر اور،اور، اور جمہوریتیں پنپ رہی ہیں۔

تم شہر میں ہوتے ہو تو کیا غم، جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل وجاں اور

اب تک420جمع 10 جمہوریتیں منصہ شہود پر آچکی ہیں اور استعمال کی چکی ہیں، ان کا ذکر تو ہم کرتے رہے ہیں۔بنیادی جمہوریت،اسلامی جموریت،اصلی جمہوریت،نقلی جمہوریت،روٹی کپڑا مکان جمہوریت، مرد حق ضیاء الحق جمہوریت،بے نظیر جمہوریت، زرداری جمہوریت،سناری جمہوریت، آہنی جمہوریت،شاہی جمہوریت،پارلیمانی جمہوریت، مقابر جمہوریت، ملبوساتی جمہوریت، سلطانی جمہوریت، جمالی، جلالی جمہوریت، مثالی جمہوریت۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

اب کے جو ترقی دادہ بلکہ ہائبرڈ جمہوریت پیدا کی گئی اور پاکستانی اس کا پھل بٹور رہے ہیں، اسے ’’آزاد امیدوار‘‘عرف سودے باز جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ ویسے تو سب کو پتہ ہے کہ ابتدائی جمہوریت کو ڈیما کریٹس یا دمیقراط نے ایجاد کیا تھا۔لیکن اس میں ’’آزاد امیدوار‘‘ دُر یکتا اور گوہر یک دانہ نہیں تھا۔جس طرح اس کا ایٹم جو ناقابل تقسیم تھا اور اسے لوگوں نے پھاڑ کر ایک بہت بڑی’’بلا‘‘ نکالی ہے، اسی طرح ڈیماکریسی عرف جمہوریت کا سیزیرین آپریشن کرکے یا پھاڑ کے اس کی کوکھ سے بہت ساری’’بلائیں‘‘ برآمد کی گئی ہیں، جو کالانعاموں کی ہیرو شماؤں اور ناگا ساکیوں کا کباڑا کرچکی ہیں اور کررہی ہیں۔

ہماری تحقیق کے مطابق جمہوریت کے یہ آزاد امیدوار عرف’’ بلیک میلر جمہوریت‘‘ پیدا تو بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی لیکن ضیاء الحق نے اس کو باقاعدہ رائج کیا اور پوری کی پوری اسمبلیاں اس جمہوریت کی بنا ڈالی تھیں۔اس سے پہلے روایتی جمہوریت میں پارٹیاں ہوتی تھیں، نظریات ہوتے تھے، منشور ہوتے تھے۔

گویا وہ جمہوریت ’’آزاد‘‘ جمہوریت نہیں تھی بھلا وہ بھی کوئی جمہوریت ہے جو ’’نظریات‘‘ کی قیدی ہو۔چنانچہ یہ مکمل طور پر ’’آزاد جمہوریت‘‘ بہت زوروں سے چل نکلی۔اسے ’’اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے‘‘ والی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔اور ’’نقدانقد‘‘ جمہوریت بھی۔ پرانی نظریات والی جمہوریت میں نعرے ہوتے تھے، قسمیں اور وعدے ہوتے تھے لیکن یہ نقدانقد جمہوریت ان تمام چیزوں سے پاک بلکہ صاف و شفاف ہے۔

من کہ امروزم بہشت نقد حامل می شود

وعدہ فردائے واعظ را چرا باورکنم

باقی کی جتنی بھی جمہوریتیں یہاں برپا ہوتی رہی ہیں، ان میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ بیچارے ’’کالا نعام‘‘ کئی کئی بار فروخت کیے جاتے تھے اور پھر بھی ’’سوکھے منہ‘‘ رہتے تھے۔پہلے تو کوئی پارٹی ان کو کسی مرغن امیدوار کے ہاتھوں کروڑ دو کروڑ میں فروخت کردیتی تھی، پھر جب وہ امیدوار انڈے اپنی ٹوکری میں جمع کرلیتا تھا تب بھی پارٹی والے ان انڈوں کے آملیٹ، خاگینے اور حلوے بناکر ہڑپتے تھے، بیچارے امیدوار کو کسی وزارت یا کمیٹی یا صرف معمولی معاوضے پر ٹرخایا جاتا تھا۔نوکریاں،ٹوکریاں شوکریاں پارٹی والے فروخت کرتے تھے۔

بس اک داغ سجدہ مری کائنات

جبین تری، آستانے ترے

فقیروں کا جھمگٹ گھڑی دو گھڑی

شرابیں تری بادہ خانے ترے

لیکن اب آزاد امیدوار آزاد امیدوار ہوتا ہے جس کے ساتھ کالانعام بھی کچھ نہ کچھ’’پا‘‘ لیتے ہیں، الیکشن بھی مرغن ہوتے ہیں، پھر ہر معاملہ آزاد امیدوار کے حق میں ہوتا ہے، وہ جب چاہے، جہاں چاہے اور جس قیمت پر چاہے اپنے انڈوں کی ٹوکری لیے پھرتا رہتا ہے اور منہ مانگے داموں فروخت کرتا ہے، وزارت مشاورت یا خصوصی جو چاہے حاصل کرلیتا ہے۔

حکومت اس ڈر سے کہ کہیں آزاد صاحب رسہ تڑواکر کسی اور مارکیٹ میں ٹوکری نہ لے جائے، اس کی ہر خواہش بسر و چشم قبول کرتی رہتی۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں وہ اپنے کالانعاموں کا منہ بھی تر کرتا رہتا ہے اور آیندہ کے لیے پارٹی یا نظریات وغیرہ کی زنجیر جو اس کے گلے میں نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ آزاد امیدوار زندہ باد ، سودا کار جہوریت پایندہ باد

QOSHE - آزاد امیدوار؟ - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

آزاد امیدوار؟

12 0
10.03.2024

[email protected]

یہ بات تو اب عالمی سطح پر ثابت ہوچکی اور تسلیم کی جاچکی ہے کہ ہمارا پیارا اور انوکھا نیارا ملک پاکستان ایک اور’’اعزاز‘‘ اپنے نام کرچکا ہے اور بین الااقوامی تھنک ٹینک یا غور کے حوض، آج کل تغور اور تفکر کررہے ہیں کہ اس کے لیے بھی نوبل پرائز یا آسکر ایوارڈ مختص کریں اور یہ اعزاز جمہوریت کی لیبارٹری ہونے کا ہے کیونکہ پاکستان میں اب تک اتنی اقسام کی ترقی دادہ ’’جمہوریتیں‘‘ لانچ ہوچکی ہیں کہ خود جمہوریت بھی حیران و پریشاں ناطقہ سربگریباں اور خامہ انگشت بدنداں ہے کہ میرے اندر اتنی اقسام، اشکال اور رنگوں کی جمہوریتیں موجود تھیں اور مجھے پتہ تک نہیں تھا۔وہ تو خدا بھلا کرے پاکستانیوں کا،جنھوں نے میرے اندر سے اتنی ساری جمہوریتیں نکال کر لانچ کی ہوئی ہیں ورنہ مجھے تو خود بھی اپنے اندر کے اتنے ’’گُن‘‘معلوم نہیں تھے۔

لوگوں کو ہے خورشید جہاں تاب کا دھوکا

ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور

بلکہ جمہوریت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر پاکستانی جمہوری سائنس دان نہ ہوتے تو میرے اتنے سارے’’گُن‘‘ پوشیدہ ہی رہ جاتے اور میں بیچاری ’’بانجھ‘‘ ہی مرجاتی۔

کثرت جذبات سے چشم شوق کس مشکل میں ہے

اتنی شمعیں کب تھیں جتنی’’روشنی‘‘ محفل میں ہے

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک اس ’’جمہوری لیبارٹری‘‘ سے لگ بھگ چارسوبیس........

© Express News


Get it on Google Play