[email protected]

ہم سے ایک دن ایک شخص نے پوچھا کہ یہ شاعری میں جو ایک بدنام اور نہایت ہی ناپسندیدہ، بدمعاش، بدقماش اور عیاش و فحاش کردار’’رقیب‘‘ کا ذکر ہوتا ہے اور شعراء صاحبان جب رقیب کو کوس کوس کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کرلیتے ان کو چین نہیں ملتا اسے غیرغماز،مدعی اور موذی بھی کہا جاتا ہے، ’’روسیاہ‘‘ اور سیاہ بخت، بدبخت اور دل سخت بھی کہا جاتا ہے بلکہ حد درجہ بے شرم،بے کرم اور بے دھرم بھی مشہور ہے۔

یہ ’’کون‘‘ ہوتا ہے کہاں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے تو ہم نے اسے بتایا کہ’’کامیاب عاشق‘‘ یہ کامیاب عاشق ہی ہوتا ہے جسے ناکام عاشقوں عرف شاعروں نے’’رقیب‘‘ کا نام دیا ہے

زندگی جن کو تیرا پیار ملا وہ جانیں

ہم تو ناکام ہوئے چاہنے والوں کی طرح

پھر یہ ناکام عاشق پاگل ہوجاتے ہیں خود کو شاعر کے مرتبہ پر فائز کردیتے ہیں اور اپنی ’’توپوں‘‘کا رخ اس کامیاب عاشق عرف’’رقیب‘‘ کی طرف کردیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ سیاست میں بھی چلتا رہتا ہے جو ’’جیت‘‘جاتے ہیں انھوں نے ’’دھاندلی‘‘کی ہوتی ہے اور جو ناکام ہوجاتے ہیں وہ’’دھاندلی دھاندلی‘‘کی قوالی گانے لگتے ہیں

لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں

کہ لیلیٰ جا چھپی ہے رقیبوں کے من میں

بلکہ ’’من‘‘ کی جگہ دامن یا انگن کہیے تو زیادہ بہتر ہوگا پھر ناکام امیدوار کو ہر جگہ دھاندلی ہی دھاندلی دکھائی دینے لگتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ’’کامیاب‘‘ ہونے والے کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا شاید ناکاموں کی بد دعائیں اسے بھی بہت جلد ڈبودیتی ہیں۔کہتے ہیں ایک صاحب پاگل خانے کا دورہ کررہے تھے اور گائیڈ اسے بریف کر رہاتھا۔ایک کمرے میں ایک پاگل کا تعارف کرتے ہوئے گائیڈ نے کہا یہ ایک لڑکی پر عاشق تھا لیکن ناکام ہوگیا۔

اس لیے بیچارا پاگل ہوگیا۔پھر دوسرے کمرے میں بند پاگل کا تعارف کراتے ہوئے اس نے کہا اور یہ وہ شخص ہے جس کی اس لڑکی سے شادی ہوگئی تھی، مطلب یہ عشق اور سیاست دونوں جڑواں بہنیں ہیں دونوں کا انجام ایک جیسا ہوتا ہے۔عشق کی تاریخ تو بہت وسیع وعریض اور صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اس لیے اس کی تفصیل بتانے کے لیے کم سے کم پانچ ریل گاڑیوں کی ضرورت پڑے گی۔

جن میں تمام زبانوں کے تمام شاعروں کے دیوان بھی شامل ہوں گے ’’سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے‘‘۔لیکن دھاندلی کی تاریخ صرف 77سال پر پھیلی ہوئی ہے اس کی پیدائش یا ولادت بے سعادت77 سال پہلے کچھ لائق فائق کے ہاتھوں میں ہوگئی تھی اس کی ماں تو ایک انگریز’’میم‘‘ تھی اس’’شکنتلا‘‘ کو جنم دے کر’’سورگ‘‘ چلی گئی۔ کالی داس کا مشہور ومعروف ڈرامہ جو اصل میں ’’مہابھارت‘‘ کے رزمیے کا باب ہے لیکن کالی داس نے اسے ابھیج مان شکنتم کے نام سے ڈرامائی شکل دی ہے۔

کہانی کے مطابق ایک’’رشی وشوامتر‘‘ بہت سخت تپسیا کرنے لگا تو جنت کے دیوتا آندر کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ تپسیا کرکے اتنے اونچے مقام پر نہ پہنچ جائے کہ مجھ سے سورگ(جنت) چھین لے چنانچہ اس نے جنت کی ایک ’’الیسرا‘‘ (خوب صورت عورت) منیکا کو بھیجا اور اس نے اپنے حسن اور اداؤں کے جال میں پھنسا کر بھٹکا لیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی جس سے ایک لڑکی نے جنم لیا۔

منیکا تو بیٹی کو جنم دے کر جنت واپس چلی گئی۔وشوامتر بھی دوبارہ تپسیا میں مصروف ہوگیا اور اس نومولود لڑکی کو پرندوں نے پالا۔شکنتلا کے معنی ہیں پرندوں کی پالی ہوئی۔کہانی تو آگے چلتی رہی لیکن ہمیں یہاں اس ’’شکنتلا‘‘ کی بات کرنی ہے۔جسے ’’دھاندلی‘‘ کہا جاتا ہے جو مقامی سرکاری نوابوں، جاگیرداروں رئیسوں اور خطاب یافتوں کی شکل میں اس شکنتلا کا ’’باپ‘‘ تھی اور ’’منیکا‘‘ سورگ سے آئی ہوئی ایک الیسرا لفظ ’اپ سرا‘‘ کا مطلب ہے پانی جیسی شفاف سراپے والی یعنی سفید اور خوبصورت ۔اور ’’سورگ‘‘ کی پہچان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہاں کا سب کچھ پانی کی طرح سفید اور شفاف ہوتا تھا جس سے انسان اپنی غلطیوں کے سبب محروم ہوگیا لیکن اب اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ’’وہاں‘‘ کے لیے بے تاب ہے۔

وشوامتر ایک ہندی یعنی سیاہ فام راجہ اور رشی تھا لیکن بہکاوے کا شکار ہوا۔ بہرحال دونوں کے ملاپ سے یہ جو ’’دھاندلی‘‘ نام کی شکنتلا پیدا ہوئی اس کی پرورش ان پرندوں نے کی جو کبھی اس شاخ کبھی اس ڈال۔ کبھی ہوا میں اور کبھی زمین پر رہتے تھے ۔ایک مرتبہ ہم نے ایک بھن بھینس خریدی کچھ روز بعد ’’وہ سو‘‘ گئی۔لیکن بچھڑا یا کٹڑا دو تین روز میں بیکار ہوکر مرگیا اس کٹڑے کا بھوسے کا کٹڑا بنانے کے لیے ہم نے ایک ماہر کو بلایا۔ایسی حالت میں مردہ بچے کی کھال اتار کر اس میں بھوسہ بھر دیاجاتا ہے اور بھینس کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس ماہر نے جب اس بچے کا پیٹ چاک کیا تو اس میں ہزاروں کیڑے ایک گچھے کی شکل میں برآمد ہوئے جو اس بیچارے بچھڑے کی موت کا سبب بنے تھے۔یعنی ماں کے پیٹ ہی میں وہ پیٹ کے کیڑوں کا شکار تھا اب اس سے آگے آپ جو چاہیں سوچیں ہم تو بس اتنا کہیں گے۔کیڑے بڑے جان لیوا ہوتے ہیں اور وہ کیڑے ماں کے پیٹ ہی سے کٹڑے یا بچھڑے میں آجائیں وہ پیدائشی موروثی اور خاندانی ہوتے ہیں اور یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ پیٹ کے کیڑے اس وجود کا خون چوس چوس کر پلتے ہیں۔

میری تعمیر میں مضمر تھی اک صورت خرابی کی

ہیولیٰ برق’’خرمن‘‘ کا ہے خون گرم’’دہقان‘‘ کا

QOSHE - دھاندلی کس نے کی - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دھاندلی کس نے کی

8 4
09.03.2024

[email protected]

ہم سے ایک دن ایک شخص نے پوچھا کہ یہ شاعری میں جو ایک بدنام اور نہایت ہی ناپسندیدہ، بدمعاش، بدقماش اور عیاش و فحاش کردار’’رقیب‘‘ کا ذکر ہوتا ہے اور شعراء صاحبان جب رقیب کو کوس کوس کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کرلیتے ان کو چین نہیں ملتا اسے غیرغماز،مدعی اور موذی بھی کہا جاتا ہے، ’’روسیاہ‘‘ اور سیاہ بخت، بدبخت اور دل سخت بھی کہا جاتا ہے بلکہ حد درجہ بے شرم،بے کرم اور بے دھرم بھی مشہور ہے۔

یہ ’’کون‘‘ ہوتا ہے کہاں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے تو ہم نے اسے بتایا کہ’’کامیاب عاشق‘‘ یہ کامیاب عاشق ہی ہوتا ہے جسے ناکام عاشقوں عرف شاعروں نے’’رقیب‘‘ کا نام دیا ہے

زندگی جن کو تیرا پیار ملا وہ جانیں

ہم تو ناکام ہوئے چاہنے والوں کی طرح

پھر یہ ناکام عاشق پاگل ہوجاتے ہیں خود کو شاعر کے مرتبہ پر فائز کردیتے ہیں اور اپنی ’’توپوں‘‘کا رخ اس کامیاب عاشق عرف’’رقیب‘‘ کی طرف کردیتے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ سیاست میں بھی چلتا رہتا ہے جو ’’جیت‘‘جاتے ہیں انھوں نے ’’دھاندلی‘‘کی ہوتی ہے اور جو ناکام ہوجاتے ہیں وہ’’دھاندلی دھاندلی‘‘کی قوالی گانے لگتے ہیں

لیلیٰ لیلیٰ پکاروں میں بن میں

کہ لیلیٰ جا چھپی ہے رقیبوں کے من میں

بلکہ ’’من‘‘ کی جگہ........

© Express News


Get it on Google Play