[email protected]

ہم لسانیات کے موضوع پر آتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ زبانیں بھی چلتی ہیں، یوں دنیا میں بہت ساری زبانیں بنتی گئیں۔ انسانوں کی طرح زبانوں کے درمیان بھی جب اختلاط ہوتا ہے تو نئی نئی زبانیں وجود میں آتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چشمے کا پانی جب بہتا ہے تو اس میں کئی اور دھارے بھی ملتے ہیں، مختلف زمینوں میں ان کا رنگ بھی بدلتا اور ذائقہ بھی۔پھر یہاں تک یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ کوئی یہ تعین نہیں کرتا کہ دریائے سندھ کا پانی ان چشموں کا پانی ہے جو ’’چلاس‘‘ کے سرچشمے سے چلا تھا، اسی اصول کے تحت زبانوں کا سرچشمہ بھی یہی جوف الارض ہے۔چنانچہ زبانوں کے اس ماخذ کو ’’ہندیورپی‘‘ کا نام دیا گیا۔

اس پر ماہرین نے بہت کچھ لکھا لیکن اس نظریے کی بنیادیں اس وقت ہل گئیں جب ترکی کے ایک مقام ’’بوغارکوئی‘‘ میں حتیوں کی عظیم الشان سلطنت ’’حتوشاش‘‘ کے آثاروں میں’’حتی زبان‘‘ کے نوشتے نکل آئے۔ابتدا میں تو حتی زبان کو بھی ہندیورپی سمجھ لیا گیا لیکن پھر جلد ہی یہ پتہ چلا کہ حتی زبان، ہند یورپی کی طرح تو ہے لیکن اس سے الگ بھی ہے۔

مزید تحقیق سے واضح ہوگیاکہ ہند یورپی زبان اور ژند اوویستا کی طرح، اس ختی زبان کی’’ماں‘‘ نہیں بلکہ بہن ہے، اس طرح وہ مشترکہ’’ماخذ‘‘ ایک پٹری اور اوپر چلا گیا۔اس تحقیق کے دوران پھر یہ انکشاف اور زیادہ چونکا دینے والا تھا کہ ان کی دو اور بہنیں بھی ہیں۔قدیم کوچی اور تخاری۔یوں ولیم جونز کا وہ مشترکہ ماخذ اور ان چار بہنوں کی’’ماں‘‘ پھر نامعلوم کے پردے میں چلی گئی جس کو علماء نے ’’ہندحتی‘‘ کا نام دے دیا ہے اور اس کی تحقیق جاری ہے۔

یہ تو زبانوں کے بارے میں مغربی نظریہ ہے اور چونکہ ہم اہل مشرق مغرب کے متاثرین ہیں بلکہ ان سے حد درجہ’’مرعوب‘‘ ہیں، اس لیے ہم اہل مشرق نے بھی ان نظریات کو سر آنکھوں پر لیا ہوا ہے۔لیکن طبعیات خصوصاً’’بشریات‘‘ کی روشنی میں یہ نظریہ سراسر غلط ہے۔جب ہم ’’نظریہ ارتقائ‘‘ کو مان چکے ہیں تو نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف گروہوں اور رنگوں میں ترقی پزیر ہوا ہے، انسان مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے الگ اور دور دور آباد تھے۔

ہر ہر وادی میں الگ الگ لوگوں کے گروہ تھے تو ’’زبان‘‘ بھی الگ الگ ہونی چاہیے اور تھی۔جسے آج بھی مختلف کوہستانوں اور وادیوں میں الگ الگ کوہستانی بولی جاتی ہوگی اور تھی۔چنانچہ کسی ایک زبان کو’’اُم السنہ‘‘ یا زبانوں کی ماں یا سر چشمہ نہیں کہا جاسکتا۔دعویٰ تو سب کو اپنی زبان کے قدیم ہونے اور’’اُم السنہ‘‘ کا ہے۔ لیکن کوئی ایک زبان ساری زبانوں کی’’ماں‘‘ یا سرچشمہ نہیں ہے۔مشرقی لسانیات میں ایک زبان’’سریانی‘‘ کا ذکر پایا جاتا ہے۔

عام طور پر لکھا گیا ہے کہ’’سریانی‘‘ انسان کی پہلی زبان ہے۔ سریانی زبان‘‘یک حرفی‘‘ تھی۔یعنی حروف اس کے الفاظ تھے جن کو اعراب کی مدد سے معنی دیے جاتے تھے مثلاً نزدیک اور سامنے کی چیز کے لیے(آ) اپنے آپ کے لیے(ا) اور غائب اور دور کے لیے(اُ) ۔سریانی زبان کے بارے میں صرف یہی ایک بات درست ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ سریانی انسانوں کی پہلی اور واحد زبان تھی بلکہ سریانی کا لفظ ہند یورپی ہے اور اس کے معنی آواز،بولنے یا بات کرنے کے ہیں۔سُر اب بھی کئی زبانوں میں آواز کے لیے بولا جاتا ہے لیکن اب یہ زیادہ تر سازوں کی آواز سے مختص ہے۔

سریانی کے معنی کوئی مخصوص زبان نہیں بلکہ اس کا مفہوم ہے، بولنا یا آواز۔اس لیے ہر خطے گروہ قبیلے علاقے اور وادی کی اپنی اپنی اور بے شمار سریانیاں تھیں۔ پھر دوسرے مرحلے میں دو حرفی مادے ہونے لگے۔

ہندیورپی زبانوں کے بھی بنیادی مادے دو حرفی ہوتے ہیں جیسے کر،چر،لر،بر،جر،مر، در،ور، دم،غم، کم، جن،من،ون،گن۔جب کہ ترقی یافتہ مرحلے کی زبانوں کے مادے’’سہ حرفی‘‘ یعنی ثلاثی مجرد ہوتے ہیں جیسے عربی جو اس وقت زیادہ مالدار اور ترقی یافتہ زبان ہے۔ فعل، علم،اسم،راس، ناس، فلس،کرم، رحم،خلف،قال، مال، جعل،رشد،خبر،کفر وغیرہ۔ مطلب یہ کہ ہم کسی بھی زبان کو واحد’’اُم السنہ‘‘ یا سر چشمہ نہیں کہہ سکتے کہ ساری ابتدائی زبانیں ’’سریانیاں‘‘ تھیں جو چند الفاظ پر مشتمل تھیں اور وہ الفاظ اب بھی’’زبانوں‘‘ میں جاری وساری ہیں۔

جس طرح انسانوں کے خروج اس سلسلہ کوہ اور وسطی ایشیا سے نکلتے رہے ہیں اسی طرح زبانیں بھی اس مخزن ومعدن سے نکلتی رہی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت بات ’’سفیدکاکیشین نسل‘‘ کی کر رہاہوں کیونکہ یہی انسانوں کی سب سے بڑی اور متحرک نسل رہی ہے۔ باقی دو انسانی نسلیں زرد اور سیاہ نسل محدود رہی ہیںاور زیادہ پھیلی نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی زبانیں زیادہ پھیلی ہیں۔

سفید کاکیشین نسل بنیادی طور پر سفیدفام ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں اور مختلف خطوں میں ہجرت کے باعث اس نسل کی خاصی بڑی تعداد گندمی رنگ کی بھی ہوگئی بلکہ خط استوا کے قریبی علاقوں میں سیاہی مائل گندمی بھی ہوگئی ہے۔اس صراحت کے بعد ہمارے لیے قدیم ترین زبانوں کا سراغ لگانا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ ہندوستان کا یہ تکون ٹکڑا جسے برصغیر یا جنوبی ایشیا بھی کہاجاتا ہے، ایک ایسا خطہ ہے جہاں جو بھی آیا ہے، چاہے وہ انسان ہو، زبان ہو یا مذہب ہو، وہ یہیں کا ہو گیا۔

(جاری ہے)

QOSHE - الفاظ کا سفرنامہ۔ زبانیں (دوسرا حصہ) - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

الفاظ کا سفرنامہ۔ زبانیں (دوسرا حصہ)

10 0
06.03.2024

[email protected]

ہم لسانیات کے موضوع پر آتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ زبانیں بھی چلتی ہیں، یوں دنیا میں بہت ساری زبانیں بنتی گئیں۔ انسانوں کی طرح زبانوں کے درمیان بھی جب اختلاط ہوتا ہے تو نئی نئی زبانیں وجود میں آتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ چشمے کا پانی جب بہتا ہے تو اس میں کئی اور دھارے بھی ملتے ہیں، مختلف زمینوں میں ان کا رنگ بھی بدلتا اور ذائقہ بھی۔پھر یہاں تک یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ کوئی یہ تعین نہیں کرتا کہ دریائے سندھ کا پانی ان چشموں کا پانی ہے جو ’’چلاس‘‘ کے سرچشمے سے چلا تھا، اسی اصول کے تحت زبانوں کا سرچشمہ بھی یہی جوف الارض ہے۔چنانچہ زبانوں کے اس ماخذ کو ’’ہندیورپی‘‘ کا نام دیا گیا۔

اس پر ماہرین نے بہت کچھ لکھا لیکن اس نظریے کی بنیادیں اس وقت ہل گئیں جب ترکی کے ایک مقام ’’بوغارکوئی‘‘ میں حتیوں کی عظیم الشان سلطنت ’’حتوشاش‘‘ کے آثاروں میں’’حتی زبان‘‘ کے نوشتے نکل آئے۔ابتدا میں تو حتی زبان کو بھی ہندیورپی سمجھ لیا گیا لیکن پھر جلد ہی یہ پتہ چلا کہ حتی زبان، ہند یورپی کی طرح تو ہے لیکن اس سے الگ بھی ہے۔

مزید تحقیق سے واضح ہوگیاکہ ہند یورپی زبان اور ژند اوویستا کی طرح، اس ختی زبان کی’’ماں‘‘ نہیں بلکہ بہن ہے، اس طرح وہ مشترکہ’’ماخذ‘‘ ایک پٹری........

© Express News


Get it on Google Play