[email protected]

سہگل صاحب غضب کے بلانوش تھے اور شراب پیے بغیر گانا نہیں گا سکتے تھے۔ اس لت کی وجہ سے ان کا جگر چھلنی ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں نشہ سنگیت کا ہو تو اچھا ہے لیکن شراب کا ہو تو بہت برا۔ 1941 میں سہگل بمبئی آ چکے تھے تاکہ رنجیت مووی ٹون میں کام کرسکیں۔

یہاں انھوں نے 1942 میں تان سین اور ’’ بھگت سورداس‘‘ میں کام کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔ سہگل کی شراب نوشی بہت بڑھ گئی تھی، ایک بار مدھوک اور نوشاد بیٹھے تھے۔ نوشاد اس سے پہلے سہگل سے بذات خود کبھی نہیں ملے تھے۔

مدھوک نے بتایا کہ ’’ یہ سہگل ہیں‘‘ تب نوشاد نے فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے لیے سہگل صاحب کو بک کیا، شام چھ بجے ریکارڈنگ شروع ہوئی تو نوشاد نے ان کے لیے کرسی منگوائی۔ سہگل صاحب نے کہا ’’ میرے لیے تخت لائیں، میں تخت پہ بیٹھ کے گاتا ہوں‘‘ تخت منگوایا گیا، ریکارڈنگ کے دوران سہگل صاحب نے آٹھ پیک پی ڈالے۔ نوشاد صاحب پہلی بار سہگل کے ساتھ کام کر رہے تھے، انھیں بہت حیرانی ہوئی، انھوں نے سہگل سے کہا ’’ اب رات کے تین بج چکے ہیں، آپ بھی تھک گئے ہوں گے اور میوزیشن بھی تھک گئے ہوں گے، بس آپ بھی آرام کیجیے، ہم ریکارڈنگ کل کریں گے۔‘‘

شراب کو لے کر ایک قصہ بہت مشہور ہے، فلم شاہ جہاں میں ایک گیت ریکارڈ کرنا تھا، نوشاد صاحب نے کہا کہ ’’ وہ یہ گیت بغیر شراب پیے گائیں گے۔‘‘ لیکن سہگل نے کہا کہ نہیں میں شراب پیے بغیر نہیں گاؤں گا۔ لیکن نوشاد بضد رہے کہ نہیں، تمہیں یہ گانا بغیر شراب پیے گانا ہی ہوگا۔

لہٰذا پہلے ایک گانا سہگل نے بغیر شراب پیے گایا اور دوبارہ یہی گانا شراب پی کر گایا، لیکن دونوں گانوں کو سننے کے بعد سہگل کو اندازہ ہوا کہ وہ شراب پی کر بہتر نہیں گا رہے، پہلے والا گانا زیادہ اچھا تھا۔ تب سہگل نے نوشاد صاحب کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے افسردگی سے کہا ’’ میاں نوشاد! کاش یہ کام تم پہلے کر لیتے۔ مگر اب تو بہت دیر ہو چکی ہے، شراب مجھے پی چکی ہے۔ اب تو زندگی میری مٹھی سے نکل چکی ہے۔‘‘

فلم یہودی کی لڑکی میں سہگل نے غالب کی یہ غزل بڑی خوب صورتی سے گائی۔ انھوں نے غالب کی تقریباً بیس غزلیں گائی ہیں۔

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل

اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

جوانی میں انھوں نے ایک بچی کو گود لے لیا تھا جس کا نام تھا درگیش نندنی۔ 1935 میں انھوں نے آشارانی سے شادی کر لی۔ ان کے تین بچے تھے، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں، بیٹے کا نام تھا مدن موہن، بیٹیوں کے نام تھے لیلا اور بینا۔ درگیش نندنی ان کے بھائی کی بیٹی تھی، سہگل نے فلمی گیتوں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں انھوں نے غالب کی بیس غزلیں بنوائیں، وہ غالب کے پرستار تھے، انھوں نے غالب کے مزار کی مرمت بھی کروائی، بعد میں سہراب مودی نے اپنی فلم ’’مرزا غالب‘‘ کی شوٹنگ کے دوران غالب کے مزارکو بنوایا۔

سہگل نے غیر فلمی غزلوں میں استاد ذوقؔ اور حضرت اکبر الٰہ آبادی کی غزلیں بڑی محنت سے گائیں، استاد ذوقؔ کی مشہور غزل یہ تھی جسے انھوں نے 1936 میں گایا:

لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے لوگ

اپنی بلا سے باد صبا اب کبھی چلے

اسی طرح اکبر الٰہ آبادی کی یہ غزل بھی خوب گائی، سننے والا محو ہو جاتا ہے، یہ غزل انھوں نے 1940 میں گائی تھی۔

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

وہ گل ہوں خزاں نے جسے برباد کیا ہے

الجھوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں ہوں

زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی

ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں

اس خانہ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث

سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں

سہگل کو خدا نے بڑا سریلا گلا اور منفرد آواز دی تھی، وہ جو بھی گاتے امر ہو جاتا، کون تھا جو سہگل کا دیوانہ نہ تھا۔ سب سے پہلے سہگل نے اپنے گانوں کی رائلٹی لینی شروع کی تھی۔ ان کا ایک البم ریلیز ہوا تھا جس کا نام تھا ’’جھولا نہ جھلاؤ ‘‘ یہ نان فلمی البم تھا۔ اس وقت بہت کم لوگوں کے پاس ریکارڈ پلیئر ہوتا تھا، لیکن سہگل کے گانے سننے کے لیے لوگوں نے ریکارڈ پلیئر خریدے۔ اس البم کے پانچ لاکھ ریکارڈ فروخت ہوئے۔

غالب کی مندرجہ ذیل غزلیں سہگل نے بڑی عقیدت سے گائیں جن میں چند ایک یہ ہیں۔

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری وحشت تیری شہرت ہی سہی

٭………٭

پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا

دل جگر تشنہ فریاد آیا

٭………٭

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

دلیپ صاحب نے کہا کہ جب کبھی ہندوستانی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی اس وقت سہگل کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سہگل کا دور اس وقت کا سنہری دور تھا۔ تاریخ انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی، وہ ناقابل فراموش ہیں۔

18 جنوری 1940 جالندھر میں سہگل صاحب کا انتقال صرف 42 سال کی عمر میں ہوگیا، شراب نے انھیں کھا لیا تھا۔ ان کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔

16 جنوری 1932 کو فلموں میں انٹری دی، جب تک زندہ رہے گاتے رہے۔ ایکٹنگ کرتے رہے، اس زمانے میں جو ہیرو اور ہیروئن ہوتے تھے انھیں خود گانا پڑتا تھا، جیسے ثریا، سہگل، اوما دیوی، اشوک کمار، سریندر، نور جہاں، خورشید وغیرہ۔ ان سب کے گیت آج بھی دستیاب ہیں، شایقین انھیں سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔

QOSHE - کندن لال سہگل، برصغیر کا پہلا سپر اسٹار (تیسرا اور آخری حصہ) - رئیس فاطمہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کندن لال سہگل، برصغیر کا پہلا سپر اسٹار (تیسرا اور آخری حصہ)

8 19
23.02.2024

[email protected]

سہگل صاحب غضب کے بلانوش تھے اور شراب پیے بغیر گانا نہیں گا سکتے تھے۔ اس لت کی وجہ سے ان کا جگر چھلنی ہو گیا۔ لوگ کہتے ہیں نشہ سنگیت کا ہو تو اچھا ہے لیکن شراب کا ہو تو بہت برا۔ 1941 میں سہگل بمبئی آ چکے تھے تاکہ رنجیت مووی ٹون میں کام کرسکیں۔

یہاں انھوں نے 1942 میں تان سین اور ’’ بھگت سورداس‘‘ میں کام کیا جو بہت مقبول ہوئیں۔ سہگل کی شراب نوشی بہت بڑھ گئی تھی، ایک بار مدھوک اور نوشاد بیٹھے تھے۔ نوشاد اس سے پہلے سہگل سے بذات خود کبھی نہیں ملے تھے۔

مدھوک نے بتایا کہ ’’ یہ سہگل ہیں‘‘ تب نوشاد نے فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کے لیے سہگل صاحب کو بک کیا، شام چھ بجے ریکارڈنگ شروع ہوئی تو نوشاد نے ان کے لیے کرسی منگوائی۔ سہگل صاحب نے کہا ’’ میرے لیے تخت لائیں، میں تخت پہ بیٹھ کے گاتا ہوں‘‘ تخت منگوایا گیا، ریکارڈنگ کے دوران سہگل صاحب نے آٹھ پیک پی ڈالے۔ نوشاد صاحب پہلی بار سہگل کے ساتھ کام کر رہے تھے، انھیں بہت حیرانی ہوئی، انھوں نے سہگل سے کہا ’’ اب رات کے تین بج چکے ہیں، آپ بھی تھک گئے ہوں گے اور میوزیشن بھی تھک گئے ہوں گے، بس آپ بھی آرام کیجیے، ہم ریکارڈنگ کل کریں گے۔‘‘

شراب کو لے کر ایک قصہ بہت مشہور ہے، فلم شاہ جہاں میں ایک گیت ریکارڈ کرنا تھا، نوشاد صاحب نے کہا کہ ’’ وہ یہ گیت بغیر شراب پیے گائیں........

© Express News


Get it on Google Play