[email protected]

ویسے تو ہماری یہ مملکت اللہ داد پاکستان اور بھی بہت ساری چیزوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے ؎

تری آنکھیں‘ تری زلفیں ‘تیرے آبرو‘ ترے لب

اب بھی مشہور ہیں دنیا میں ’’مثالوں‘‘ کی طرح

لیکن آج کل یہ خوش خبریوں بلکہ خوش بیانوں میں اے ون پوزیشن پر جارہا ہے۔ صبح اخبارات کے طلوع اور شام کو چینلوں کے غروب کے ساتھ خوش بیانیوں کی باراتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر اس وقت تک چلتی رہتی ہیں جب تک نئی خوش بیانیوں کا نیا ریلہ نہیں آتا۔اور پھر ان میں خاص الخاص خوش بیانیاں وہ ہوتی ہیں جو حکومت کے کرتا دھرتا ارشاد فرماتے ہیں۔اب کے جو سب سے بڑی ’’خوش بیانی‘‘ چل رہی ہے وہ ہمارے نگران وزیراعظم کی طرف سے آئی ہے۔

انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی لوگوں کی عیادت کرتے ہوئے یہ خوش بیانی ارشاد فرمائی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’جیت‘‘ چکے ہیں۔انھوں نے یہ تفصیل تو نہیں بتائی کہ کب؟ کہاں؟ کیسے؟۔یعنی یہ کہ یہ جنگ کہاں پر لڑی گئی اور دہشت گردی کے خلاف’’جیت‘‘ کیسے ہوئی اور اس ’’جیت‘‘کا فائدہ کیا ملا؟ لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ ہم جیت چکے ہیں تو بس جیت چکے ہیں اور جیت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ’’چکے‘‘ ہیں اس لیے ہمیں مان کر آمین ثمہ آمین کہنا چاہیے

’’ایں کار از تو آئدو مرداں چنیں کنند‘‘

دہشت گردی بھی کیا یاد رکھے گی کہ اس کا پالا کس سے پڑا تھا۔دنیا میں دندناتی پھرتی تھی۔اور اسے معلوم ہی نہ تھا کہ پاکستان میں آکر اسے شکست فاش ہوگی اب رو رہی ہوگی کسی کونے میں شکست خوردہ ہوکر ؎

آگئے تھے غم ہستی سے پریشان ہوکر

جارہے ہیں تری محفل سے پشیماں ہوکر

جب 1965میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو اس وقت ہمارے جناب فیلڈ مارشل ایوب خان نے فرمایا تھا ’’بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ اور اب یہی بات ہم دہشت گردی سے کہنا چاہتے ہیں‘ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس نے کس ’’قوم‘‘ کو للکارا ہے۔ اب روتی رہے اپنی شکست پر ٹسوے بہا کر یہاں پر ہمیں ایک کہانی بہت پرانی یاد آرہی ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اسے رواں موضوع سے لنک کیسے کریں لیکن یہ اطمینان ضرور ہے کہ آپ اسے کسی نہ کسی طرح لنک کر ہی لیں گے کیونکہ لنک کرنے میں آپ کو 76سالہ تجربہ حاصل ہے۔

اس عرصے میں آپ نا جانے کتنے لیڈروں کو پاکستانی خزانے سے لنک کرچکے ہیں اور وہ پاکستانی خزانے کو بیرونی بینکوں اور کمپنیوں سے لنک کرچکے ہیں۔ یہ کہانی مملکت ناپرسان عالی شان سے تعلق رکھتی ہے اور یہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نقب زن کی کہانی ختم ہوتی ہے جو ایک گھر میں نقب لگاتے ہوئے شہید ہوگیا تھا۔ اس کہانی میں ناپرسان عالی شان کے حکمران عالم فنا اور جہاں فنا نے عدل و انصاف کا زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سنار کو مجرم ٹھہرایا تھا جس کے بنائے ہوئے گھنگروں سے جو ایک شاہی کنیز کے پیروں میں تھے، کی جھنکار سے ایک ہاتھی بدمست ہوگیا تھا۔

خیر تو اس سنار کو پھانسی پر چڑھایا گیا لیکن اس کی گردن اتنی پتلی تھی کہ پھانسی کے پھندے سے باسکٹ بال کی طرح گزر گئی۔قانونی طور پر اسے دوسری بار پھانسی نہیں دی جاسکتی تھی لیکن بادشاہ نے اسے کیفرکردار تک تو پہنچانا تھا۔چنانچہ اسے حکم دیا گیا کہ بادشاہ کے لیے ایسا تاج تیار کرے جس کی مثال نہ تاریخ میں ملتی ہو جغرافیے میں نہ جنرل نالج میں اور نہ معاشرتی علوم میں۔اور اگر وہ تاج بنانے میں ناکام رہا تو اس کا سر اڑا دیا جائے گا۔

سنار بیچارے کے ہاتھوں کے طوطے، بٹیر، کبوتر، چیل، کوے یہاں تک کہ مرغیاں بطخیں تک اڑ گئیں۔ لیکن جان پر بنی تھی اس لیے سوچتا رہا سوچتا رہا آخر کار ایک طریقہ سوجھ گیا۔بادشاہ نے جو مہلت دی تھی اس کے آخری دن سنار شاہی پہرے میں حاضر دربار ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ یوں آگے کیے ہوئے تھے جیسے بہت ہی قیمتی اور مقدس چیز ہاتھوں پر اٹھا رکھی ہو۔حالانکہ اس کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔

اس نے دربار میں پہنچ کر بادشاہ کو مبارک باد دی اور پھر بڑے فخر سے اعلان کیا کہ جہاں فنا عالم فنا کی خواہش کے عین مطابق ’’تاج‘‘ بن گیا لیکن باقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ صرف اس شخص کو دکھائی دیتا ہے جس کا کردار مشکوک نہ ہو۔

مشکوک کردار والوں کو یہ ہر گز دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے اتنا کہتے ہی بادشاہ اور سارے درباریوں کو وہ تاج نظر آگیا اور سارے درباری اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے کیونکہ کسی کو بھی اپنا کردار مشکوک بنانا منظور نہ تھا۔ سنار نے بڑے اہتمام کے ساتھ وہ’’کمالی تاج‘‘ بادشاہ کے سر اقدس پر رکھا اور مبارک باد دیتے ہوئے اسے ہر زاویے سے دیکھا۔اور پھر اس کی تالیوں کے ساتھ سارا دربار تالیوں اور مبارک بادوں سے گونج اٹھا۔بادشاہ نے بھی مکمل شاہی رعب داب کے ساتھ اعلان کیا کہ تاج واقعی بے مثال ہے کافی دیر تک درباری اور وزیران باتدبیران مع معاونین خصوصی برائے خبریات و افواہیات تاج کی خوبیاں بڑھ چڑھ کر بیان کرتے رہے اور اپنے اپنے خاندان سے شکوک کا گردو غبار اڑاتے رہے۔

اگلے دن معاونین خصوصی برائے خبریات و افواہیات کے ذریعے یہ بریکنگ نیوز سارے ملک میں نشر ہوئی، بادشاہ،تاج اور سنار کی تصاویر بھی شایع ہوئیں چونکہ یہ بات پہلے ہی چاردانگ عالم میں پھیل چکی تھی کہ تاج صرف ان لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جن کا کردار مشکوک نہ ہو، اس لیے سارے لوگوں کو بادشاہ کے سر پر وہ تاج صاف صاف نظر آیا۔

اور یہ واقعہ نہ صرف مملکت ناپرسان عالیشان کی تاریخ میں ریکارڈ ہوگیا بلکہ اب یہ تاج ہر نئے حکمران کو پہنایا جاتا ہے اور ہر نئی تاج پوشی پر قومی جشن منایا جاتا ہے۔مملکت ناپرسان عالی شان میں اب ایسے ماہرین بھی کافی تعداد میں پیدا ہوگئے جو اس تاج کی خوبصورتی اور فن پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔تاج پوشی کے بعد اسے احتیاط سے قومی میوزیم میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں لوگ جوق درجوق آکر اپنے کردار کو صحیح اور جائز ثابت کرتے ہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکیں۔

QOSHE - ان وزیبل جیت اور تاج - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ان وزیبل جیت اور تاج

12 0
22.02.2024

[email protected]

ویسے تو ہماری یہ مملکت اللہ داد پاکستان اور بھی بہت ساری چیزوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے ؎

تری آنکھیں‘ تری زلفیں ‘تیرے آبرو‘ ترے لب

اب بھی مشہور ہیں دنیا میں ’’مثالوں‘‘ کی طرح

لیکن آج کل یہ خوش خبریوں بلکہ خوش بیانوں میں اے ون پوزیشن پر جارہا ہے۔ صبح اخبارات کے طلوع اور شام کو چینلوں کے غروب کے ساتھ خوش بیانیوں کی باراتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر اس وقت تک چلتی رہتی ہیں جب تک نئی خوش بیانیوں کا نیا ریلہ نہیں آتا۔اور پھر ان میں خاص الخاص خوش بیانیاں وہ ہوتی ہیں جو حکومت کے کرتا دھرتا ارشاد فرماتے ہیں۔اب کے جو سب سے بڑی ’’خوش بیانی‘‘ چل رہی ہے وہ ہمارے نگران وزیراعظم کی طرف سے آئی ہے۔

انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں زخمی لوگوں کی عیادت کرتے ہوئے یہ خوش بیانی ارشاد فرمائی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’جیت‘‘ چکے ہیں۔انھوں نے یہ تفصیل تو نہیں بتائی کہ کب؟ کہاں؟ کیسے؟۔یعنی یہ کہ یہ جنگ کہاں پر لڑی گئی اور دہشت گردی کے خلاف’’جیت‘‘ کیسے ہوئی اور اس ’’جیت‘‘کا فائدہ کیا ملا؟ لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ ہم جیت چکے ہیں تو بس جیت چکے ہیں اور جیت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ’’چکے‘‘ ہیں اس لیے ہمیں مان کر آمین ثمہ آمین کہنا چاہیے

’’ایں کار از تو آئدو مرداں چنیں کنند‘‘

دہشت گردی بھی کیا یاد رکھے گی کہ اس کا پالا کس سے پڑا تھا۔دنیا میں دندناتی پھرتی........

© Express News


Get it on Google Play