[email protected]

شک تو ہمیں بہت پہلے سے تھا اور تاریخ، جغرافیہ،جنرل نالج،معاشرتی علوم اور پاکستان اسٹڈیز سب کے سب گواہ ہیں کہ محقق کا شک بھی یقین کے برابر ہوتا ہے۔مثلاً ایک مرتبہ ایک سرکاری محقق ادارے کو ایک لومڑی پر اونٹ کا بچہ ہونے کا شک ہوگیا اور اسے اپنی تحویل میں لے کر’’محقق خانے‘‘ لے گئے۔ ایک گھنٹہ سے کم تحقیق کے بعد وہ جب محقق خانے سے نکلی تو اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں تھی۔

چنانچہ ہمیں بھی یہ شک لاحق تھا کہ ہو نہ ہو یہ دُھند بھی جسے فیشن ایبل اصطلاح میں سموگ کہتے ہیں یہ بھی شاید اس ’’شیڈنگ‘‘ کا تسلسل ہے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شروع ہوئی تھی اور اب ’’سن شیڈنگ‘‘ تک آگئی۔جب مصنوعی بارش برسائی جاسکتی ہے مصنوعی جمہوریت چلائی جاسکتی ہے مصنوعی لیڈر پیدا کیے جاسکتے ہیں مصنوعی صادق وامین اگائے جاسکتے ہیں تو ’’دُھند‘‘ کیا چیز ہے۔

اتنی دُھند تو 25کروڑ لوگوں کی آہوں سے بھی پیدا کی جاسکتی ہے اور لوگوں کی ’’ آہیں‘‘ نکالنا حکومت بلکہ ہر سرکاری محکمے اور ادارے کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، دائیں ہاتھ سے’’چیخیں‘‘ نکالی جاسکتی ہیں اور اب تو حکومت نے سنا ہے کہ یہ کام یعنی عوام کی آہیں اور چیخیں نکالنے کا کام مستقل طور پر مشہور بین الاقوامی کمپنی آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر دے دیا ہے اور اس کی تصدیق تو مرشد نے بھی کی ہے کہ

ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا

باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہوجانا

ویسے تو یہ’’شیڈنگ‘‘ کا سلسلہ پاکستان قائم ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوا ہے اور وقتاً فوقتاً کچھ چیزوں کی شیڈنگ ہوتی رہی ہے۔ایمانداری،دیانت داری،عدل انصاف،جمہوریت فرض شناسی، حب الوطنی ان سب کی بار بار ہی شیڈنگ ہوئی، مطلب یہ کہ چادر کے نیچے یا چھاؤں کے نیچے، کسی کو پتہ نہیں چلا کہ ’’چنری کے نیچے کیا ہے‘‘۔لیکن واضح طور پر لوڈ شیڈنگ جسے سب نے دیکھا بجلی کی شروع ہوئی تھی، اب انسان کی تو جدی پشتی یہ عادت ہے کہ ایک دروازہ بند پاتا ہے تو دوسرے پر دستک دے دیتا ہے چنانچہ لوگوں نے فیول کے جنریٹر اور آلات استعمال کرنا شروع کردیے۔

یہ بھی بند ہوا تو گیس کے دروازے پر ہجوم ہوگیا۔یہاں بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی تو لوگوں نے سورج سے رجوع کرلیا اور اپنے خیال میں ’’شمسی‘‘ ہوکر’’ارضی‘‘ آفتوں سے محفوظ ہوگئے۔لیکن جانتے نہیں کہ یہ کرہ ارض پر ہزاروں سال سے دندنانے والے حکمران اور اشراف آخر ’’شاگرد‘‘ کس کے ہیں چنانچہ آفتاب کے آگے دُھند کی چادر تان دی۔سجنا نے بوئے آگے چک تان لئی۔اور تو ہم بتاچکے ہیں’’دُھند‘‘ پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہیں لیکن یہ تو سیدھی بات ہوئی لیکن اس سیدھی بات میں جو ’’ٹیڑھی‘‘ بات مثل جلیبی چھپی ہوئی ہے۔

اس کے بارے میں عام امی لوگ تو کیا ’’یونان ثانی‘‘ کے سقراط بقراط بھی نہیں جانتے جو کالموں اور چینلوں پر ٹنوں کے حساب سے دانش بگھار رہے ہیں اور اس ’’ٹیڑھی جلیبی بائی‘‘ جیسی بات کو سمجھنے کے لیے پہلے آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ اس وقت دنیا پر حکمرانی کس کی ہے۔ اگر آپ کا دھیان مختلف ممالک کے بڑے بڑے ’’سروں‘‘ جنابوں اور عالی جاہوں کی طرف جارہا ہے تو اسے روک دیجیے۔

یہ سب کے سب کٹھ پتلیاں ہیں اور ان سب کی ڈور پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے ’’ماسٹر‘‘ کے ہاتھوں میں ہے۔اور اس ماسٹر کا نام ہے عالمی مالی مافیا۔کچھ لوگ اسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (w.t.o) بھی کہتے ہیں لیکن اس کا اصل اور حقیقی نام جو چھایا جاتا ہے ’’یہودی ساہوکار‘‘ یا نیکسٹرزیا۔یہ ایک زنجیر یا آکٹوپس۔یا امربیل ہے جو ساری دنیا کے گرد لپٹی ہوئی ہے اور جس میں ہوائی جہازوں، ٹینکوں اور میزائلوں سے صابن اور ٹوتھ پیسٹ بنانے والی کمپنیاں پروئی ہوئی ہیں۔ہتھیارسازی اس کی مارکیٹنگ اور مارکیٹوں کے بارے میں کبھی تفصیل سے بات کریں گے کیونکہ یہ بھی ایک بہت بڑا اژدہا ہے جو دہشت گردی کے نام سے کرہ ارض کو لپٹا ہوا ہے۔

فی الحال ہم دنیا پر نازل ہونے والی زمینی آسمانی اور انسانی بلاؤں کی بات کر رہے ہیں جو مل ملاکر اور ہر پھر کر کسی نہ کسی تجارت کے لیے منافع بخش ہوجاتی ہیں۔بجلی تھی تو بجلی کے آلات خوب بکتے رہے پھر اس میں ایک ٹوسٹ آیا تو پیٹرولیم سے چلنے والے آلات پر بہار آگئی پھر گیس پھر سولر۔اور یہ ساری صنعتیں اسی آکٹوپس یا امربیل سے منسلک ہیں جو اس کرہ ارض کا خون چوس چوس کر اس کے پیٹ میں پہنچاتی ہیں۔اور تو اور کہ عالمی میڈیا کا94فیصد بھی اس کے قبضے میں ہے۔

جرائم اور منشیات کی انڈسٹری بھی اس کے ہاتھ میں ہے مختلف مذاہب سے منسلک مذہبی انڈسٹریاں بھی اس کے ساجھے داری میں چل رہی ہیں یا یوں کہیے کہ اس’’گلوبل ویلج‘‘ کے گردا گرد اس ’’عفریت‘‘ اس ’’بلا‘‘ اس اکٹوپس اور اس ’’امربیل‘‘ کا محاصرہ اتنا مکمل ہوچکا ہے کہ چاہے کوئی بھی زمینی آسمانی یا انسانی آفت ہو فائدہ اس کا ہوتا ہے۔

عرصہ ہوا دانتوں کے ڈاکٹر نے گپ شپ میں ایک بات کہی تھی اور وہ بات ہم بھی کبھی بھولے نہیں۔ اس نے کہا تھا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے منہ میں ہمارا رزق لے کر آتا ہے۔ایسی ہی ایک بات ایک غریب مذہبی آدمی نے ایک خاندانی منصوبہ بندی والے سے کہی تھی کہ ہر بچہ پیدا ہوکر ہمارے لیے ہماری روزی روٹی لے کر آتا ہے، ہم کیوں لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے روکیں۔ لیڈروں کے لیے ووٹ لاتا ہے تو کیا یہ سارے تاجر، سوداگر، دکاندار صنعت کار ،کارخانے دار دیوانے ہیں جو ’’کسی آفت‘‘ کی مخالفت کریں، ہر آفت میں ان کی کمائی ہوتی ہے پھر ان ہی لوگوں کی کمائی ہوئی دولت سے امداد این جی اوز اور ان کے ذریعے اپنے مفادات۔ آخر میں ایک پشتو کا ٹپہ سنیے

کہ اباسین راغلے نہ وے

پہ گنگخڑوں کے بہ چا موندل ٹیکونہ

ترجمہ۔اگر اباسین میں سیلاب نہ آیا ہوتا تو لوگ حس وخاشاک میں سونے چاندنی کے زیور کیسے پاتے؟

QOSHE - اور اب سن شیڈنگ؟ - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اور اب سن شیڈنگ؟

12 2
15.02.2024

[email protected]

شک تو ہمیں بہت پہلے سے تھا اور تاریخ، جغرافیہ،جنرل نالج،معاشرتی علوم اور پاکستان اسٹڈیز سب کے سب گواہ ہیں کہ محقق کا شک بھی یقین کے برابر ہوتا ہے۔مثلاً ایک مرتبہ ایک سرکاری محقق ادارے کو ایک لومڑی پر اونٹ کا بچہ ہونے کا شک ہوگیا اور اسے اپنی تحویل میں لے کر’’محقق خانے‘‘ لے گئے۔ ایک گھنٹہ سے کم تحقیق کے بعد وہ جب محقق خانے سے نکلی تو اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں تھی۔

چنانچہ ہمیں بھی یہ شک لاحق تھا کہ ہو نہ ہو یہ دُھند بھی جسے فیشن ایبل اصطلاح میں سموگ کہتے ہیں یہ بھی شاید اس ’’شیڈنگ‘‘ کا تسلسل ہے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شروع ہوئی تھی اور اب ’’سن شیڈنگ‘‘ تک آگئی۔جب مصنوعی بارش برسائی جاسکتی ہے مصنوعی جمہوریت چلائی جاسکتی ہے مصنوعی لیڈر پیدا کیے جاسکتے ہیں مصنوعی صادق وامین اگائے جاسکتے ہیں تو ’’دُھند‘‘ کیا چیز ہے۔

اتنی دُھند تو 25کروڑ لوگوں کی آہوں سے بھی پیدا کی جاسکتی ہے اور لوگوں کی ’’ آہیں‘‘ نکالنا حکومت بلکہ ہر سرکاری محکمے اور ادارے کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، دائیں ہاتھ سے’’چیخیں‘‘ نکالی جاسکتی ہیں اور اب تو حکومت نے سنا ہے کہ یہ کام یعنی عوام کی آہیں اور چیخیں نکالنے کا کام مستقل طور پر مشہور بین الاقوامی کمپنی آئی ایم ایف کو ٹھیکے پر دے دیا ہے اور اس کی تصدیق تو مرشد نے بھی کی ہے کہ

ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا

باور آیا........

© Express News


Get it on Google Play