کون ایسا شخص ہوگا جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتا ہوگا، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے، والدین اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتے ہی ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟

ہم اپنی نئی نسل کو کیا سونپ رہے ہیں، محبت سے مجبور ہوکرآخر کیوں؟ وہ بارہ تیرہ برس کی پیاری سی بچی سرخ بس کی ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی اس کا سفر ابھی طویل تھا، تب ہی اس کی بوریت کا خیال کر کے اس کی ماں نے اس کی جانب ایک چمکتا سیل فون بڑھایا تھا اور پھر بچی نے کانوں میں ایئرپوڈ لگایا اور ایک دوسری دنیا میں کھو گئی، کچھ دیر تو وہ یوں ہی دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی تصویریں بنانی شروع کر دیں اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ وڈیو بھی بنانی شروع کردی۔

خدا جانے اس موبائل پرکیا نظر آ رہا تھا کہ اس نے دھیمے سے مسکرا کر انگلیاں بھی ہلانا شروع کردیں جیسے کوئی ہیروئن ہو، اسے اس بات کی چنداں فکر نہ تھی کہ وہ کس ماحول میں بیٹھی ہے اس کے اردگرد کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں یا نہیں، اس کے اندر کی ایک دنیا آباد تھی اور وہ اس میں گم تھی۔

ہم سب کی دنیا الگ الگ آباد ہو چکی ہے بالکل اس معصوم بچی کی مانند لیکن ہم اپنی خواہشوں کے منہ زور گھوڑے کے آگے مجبور ہیں۔ تعیشات کے سیلاب نے ہمارے اندر خواہشوں کا وحشی جن پیدا کردیا ہے جو ہمارے اندر کے اصل انسان کو تھپک تھپک کر سلاتا رہتا ہے۔

والدین کے لیے بچوں کو قابو میں رکھنے کا یہ ایک آسان حل ہے، ایک سے تین برس کا بچہ ہو یا بارہ سے چودہ پندرہ برس کے بچے، ان کی فطری شوخیوں، شرارتوں اور چیخ و پکار سے بچاؤ کے لیے ان کے ہاتھ میں ایک ایسا کھلونا پکڑا دیتے ہیں جس میں وہ گم ہو کر اپنی شخصیت کی نفی میں جڑ جاتا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سیل فون سے تیز روشنی نکلتی ہے یہ روشنی نقصان دہ تاب کاری ہے جو بچوں کی آنکھوں کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے ان کی نگاہ کمزور ہوتی جاتی ہے، مستقل موبائل کا استعمال اس کو پکڑنے کا انداز انسانی جسم کی نارمل ساخت پر اثرانداز ہوتا ہے، جس سے نہ صرف ان کا ظاہری بلکہ پٹھوں کا کھنچاؤ، کمر درد، اعصابی درد جنم لیتے ہیں، سیل فون کا مستقل استعمال خاص کر بڑھتی عمر کے بچوں پر تیزی سے اثرکرتے ہیں جس سے بازو اور انگوٹھے میں ٹینڈونائٹس اور فرسٹ کاربومیٹا کارپل آرتھرائٹس یعنی پٹھوں، اعصاب، جوڑوں کارٹیلج اور ریڑھ کی ہڈی کی خرابی جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔

’’یہ پڑھائی میں بہت اچھی ہے، اس لیے میں اسے فالتو اوقات میں سیل فون دے دیتی ہوں تاکہ اس کا جی بہلے، لیکن یہ ذرا چڑچڑی سی ہو گئی ہے اپنی ہم عمر کزنز کے ساتھ بھی زیادہ گھلتی ملتی نہیں ویسے اکیلی بھی ہے نا (ان کی مراد اس کے اکلوتا ہونے سے تھی)۔‘‘

اس معصوم بچی کی والدہ کا یہ اعتراف حیران کن تھا کہ موبائل فون کا استعمال اس کی نفسیاتی نوعیت پر کس طرح اثر ڈال رہا ہے لیکن وہ پھر بھی پہلو تہی کرتی نظر آئیں، غالباً انھیں شک ہی تھا اور یوں بچی کی چڑچڑاہٹ کا سارا ملبہ اس کے اکلوتے پن پر ڈال دیا گیا۔

ماہر نفسیات اور مطالعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو کم عمر بچے اپنا زیادہ وقت موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں وہ بچے چڑچڑے پن، اضطراب، تناؤ اور افسردگی کا شکار زیادہ بنتے ہیں۔ پیغامات کی بھاگ دوڑ میں دیر یا تناؤ کے پیغامات ان کی شخصیت پر پوری طرح سحر کی مانند طاری ہو جاتے ہیں بہ ظاہر وہ نارمل نظر آ رہے ہوتے ہیں لیکن اندر ہی اندر ان میں ٹوٹ پھوٹ، شکستگی جاری رہتی ہے۔

آج کے اس چھوٹے سے ہاتھ برابر فون میں سب کچھ دستیاب ہے۔ ماضی میں جو باتیں بچوں کے سامنے کہنے کو عار سمجھا جاتا تھا آج کھلے عام سب کچھ نظر آتا ہے، بچے کم سنی سے ہی وہ سب کچھ چند منٹوں کی وڈیوز اور سیکنڈوں کی شارٹس میں دیکھ لیتے ہیں جنھیں جاننے، سمجھنے اور سوچنے میں لوگوں کی عمریں لگتی ہیں، وقت سے پہلے ادراک کا تسلسل معصوم ذہنوں کو بری طرح ٹارچر کرتا ہے اور یوں بے راہ روی، عریانیت اور فحش گوئی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں آج کے زمانے میں بچوں کو گھر بٹھا کر موبائل ہاتھ میں تھما دینا ہرگز بھی عقل مندی نہیں ہے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’جو بچے بہت زیادہ موبائل فون استعمال کرتے ہیں یا فون کو اپنے بہت قریب رکھتے ہیں، ان کی آنکھوں میں بھینگا پن آنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

کے کونم نیشنل یونیورسٹی اسپتال کے ماہرین نے سات سے سولہ سال کے بارہ لڑکوں پر اپنی ریسرچ کی۔ ماہرین نے ان بچوں کو روزانہ چار سے آٹھ گھنٹے تک فون استعمال کرنے اور فون کو اپنی آنکھوں سے آٹھ سے بارہ انچ کے فاصلے تک رکھنے کو کہا دو ماہ بعد ان میں سے 9 لڑکوں میں بھینگے پن کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں۔

ماہرین کے مطابق مسلسل فون پر اپنی نظر رکھنے سے بچوں کی آنکھیں اندر کی طرف مڑنے لگتی ہیں اور بالآخر بھینگے پن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماہرین نے اپنی ریسرچ کے بعد بچوں سے موبائل فون کی عادت چھڑوائی جس سے ان کی آنکھوں کے بھینگے پن کی ابتدائی علامات ختم ہوگئیں۔

سویڈن میں 2008 میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق موبائل کا کثرت سے استعمال کانوں کے قریب کینسر کے پھوڑے بننے کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اسی طرح سے ایک ریسرچ کے مطابق جو بچے بیس سال کی عمر سے پہلے موبائل فون کا استعمال کثرت سے کرتے تھے، ان میں انتیس سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں پانچ گنا بڑھ جاتے ہیں جنھوں نے موبائل کا استعمال بچپن میں نہیں کیا یہ ریسرچ پیپر رائل سوسائٹی آف لندن نے شایع کیا تھا۔

مطالعے سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ بچوں میں موبائل فونزکا استعمال افسردگی، اضطراب، شرم، اعتماد کی کمی، علمی استدلال اور خراب تعلیمی کارکردگی پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔فزیوتھراپی کے ایک ماہر ڈاکٹر کے مطابق موبائل فون کے استعمال میں اگر احتیاطی تدابیر نہ اپنائی جائیں تو جسمانی صحت سے جڑے مسائل میں شدت آ جاتی ہے اس میں وقت سے پہلے جسم کا جھک جانا یعنی کبڑا پن شامل ہے۔

موبائل فون آج کی دنیا میں بہت کام کی چیز ہے جس سے انسان بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے وہیں ہماری نئی پود اس فون کے بے تحاشا استعمال کے باعث جسمانی اور نفسیاتی الجھنوں میں گھرتے جا رہے ہیں ہماری آنے والی نسل ہماری کوتاہیوں اور سردمہری کے باعث ایک ان دیکھے تاریک کنوئیں کی جانب بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے مضر اثرات آیندہ آنے والے سالوں میں اندھیروں کی مانند چھا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس سحر سے بچانا ہوگا۔

QOSHE - ہم، نئی نسل کوکیا سونپ رہے ہیں؟ - شہلا اعجاز
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ہم، نئی نسل کوکیا سونپ رہے ہیں؟

28 0
28.01.2024

کون ایسا شخص ہوگا جو اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتا ہوگا، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے، والدین اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتے ہی ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟

ہم اپنی نئی نسل کو کیا سونپ رہے ہیں، محبت سے مجبور ہوکرآخر کیوں؟ وہ بارہ تیرہ برس کی پیاری سی بچی سرخ بس کی ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی اس کا سفر ابھی طویل تھا، تب ہی اس کی بوریت کا خیال کر کے اس کی ماں نے اس کی جانب ایک چمکتا سیل فون بڑھایا تھا اور پھر بچی نے کانوں میں ایئرپوڈ لگایا اور ایک دوسری دنیا میں کھو گئی، کچھ دیر تو وہ یوں ہی دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی تصویریں بنانی شروع کر دیں اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ وڈیو بھی بنانی شروع کردی۔

خدا جانے اس موبائل پرکیا نظر آ رہا تھا کہ اس نے دھیمے سے مسکرا کر انگلیاں بھی ہلانا شروع کردیں جیسے کوئی ہیروئن ہو، اسے اس بات کی چنداں فکر نہ تھی کہ وہ کس ماحول میں بیٹھی ہے اس کے اردگرد کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں یا نہیں، اس کے اندر کی ایک دنیا آباد تھی اور وہ اس میں گم تھی۔

ہم سب کی دنیا الگ الگ آباد ہو چکی ہے بالکل اس معصوم بچی کی مانند لیکن ہم اپنی خواہشوں کے منہ زور گھوڑے کے آگے مجبور ہیں۔ تعیشات کے سیلاب نے ہمارے اندر خواہشوں کا وحشی جن پیدا کردیا ہے جو ہمارے اندر کے اصل انسان کو تھپک تھپک کر سلاتا رہتا ہے۔

والدین کے لیے بچوں کو قابو میں رکھنے کا یہ ایک آسان حل ہے، ایک سے تین برس کا بچہ ہو یا بارہ سے چودہ پندرہ برس کے بچے، ان کی فطری شوخیوں، شرارتوں اور چیخ و پکار سے بچاؤ کے لیے ان کے........

© Express News


Get it on Google Play