[email protected]

میری بھتیجی افروز آج کل کینیڈا سے پاکستان آئی ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں وہ میرے پاس کچھ دن رہنے کے لیے آئی تو یوں ہی بات پچھلے دور کی طرف نکل گئی، وہ کہنے لگی، ہمارے بچے تو اس زمانے سے واقف ہی نہیں جو ہم نے گزارا، اور اب بیرون ملک جا کر بسنے سے تو اپنی شناخت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ گھرانے اب بھی عید پہ بقر عید پہ رمضان میں ایسی محفلوں کا اہتمام کر لیتے ہیں جو ہمارے مذہب کا تقاضا ہے۔

افروز کی بات سے مجھے بھی بہت کچھ بھولا بسرا یاد آیا۔ ہم چھوٹے تھے تو دادی کی ہر بات حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی، کیوں کہ یہ سب ہم نے ماحول سے سیکھا تھا، ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے والد اور والدہ دادی کے کیسے تابع دار تھے۔

یہ ادب ہم بہن بھائیوں کے خون میں شامل تھا، کیوں کہ ہوش سنبھالتے ہی یہ سب ہم نے دیکھا تھا۔ اگر دادی نے کہیں جانے سے منع کردیا تو مجال ہے کہ کوئی ان کی بات سے اختلاف کرے۔ میری والدہ تو روز مرہ کی ہنڈیا بھی ان سے پوچھ کر پکاتی تھیں۔ عید، بقر عید پر کیا بنے گا، کیا پکے گا، یہ سب دادی طے کرتی تھیں۔

وہ خاندان کی بڑی تھیں، اس لیے سبھی لوگ انھیں سلام کرنے آتے تھے۔ شیر خرمہ، زردہ، بریانی، سموسے، مٹھائی سب کچھ ان کی مرضی سے آتا تھا۔ کچوریاں، سبزی اور سموسے میری والدہ گھر میں بناتی تھیں، فون بہت کم تھے، کسی کسی گھر میں ہوا کرتے تھے۔

اس لیے مہمانوں کی مدارات کا اہتمام پہلے سے کیا جاتا تھا۔ مہمانوں کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا، لوگوں میں محبتیں تھیں، ایسے ادب پرور ماحول میں بچوں کو کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بچے خود ماحول سے سیکھتے جاتے ہیں۔

رات کو دادی ہمیں کہانیاں سناتی تھیں، ہم تو بہت چھوٹے تھے جب دادی جان نے چار درویش کی کہانی سنائی تھی، بڑے ہو کر جب میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ اور رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانۂ عجائب‘‘ پڑھیں تو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ تو ہمیں دادی جان بہت چُھٹ پن میں سنایا کرتی تھیں، شہزادی ماہ طلعت کی کہانی، بولتے طوطے کی کہانی اور بہت کچھ۔ الف لیلیٰ کی کہانیاں، عمر و عیار کی چالاکیاں، صرصر صبا رفتار اور شمیمہ نقب زن کے قصے، سب ہمیں دادی جان نے سنائے۔

اس کے ساتھ ہی والد بھی بہت سی کہانیاں سناتے تھے۔ رات کو جب وہ بستر پہ لیٹتے تو دونوں بڑے بھائی ان کی ٹانگیں دباتے تھے، میں ان کے سر میں انگلیاں پھیرتی جاتی تھی، وہ کہانیاں سناتے جاتے تھے، ان کا انگریزی اور فرانسیسی ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔گھر میں جب مہمان آتے تھے اور ان کی تعداد زیادہ ہوتی تھی تو سفید دستر خوان قالین پر بچھایا جاتا تھا۔ مہمانوں کے ہاتھ سلفچی میں وہیں دھلوائے جاتے تھے۔

ایک ملازم لوٹا اور تولیہ لیے کھڑا ہوتا تھا اور دوسرا سلفچی لیے ہوتا تھا، کھانا تانبے کی ڈشوں میں نکالا جاتا تھا۔ گلاس کٹورے بھی خالص تانبے کے ہوتے تھے، لیکن ساتھ ساتھ کانچ کے گلاس اور جگ بھی دستر خوان پہ ہوتے تھے۔ کھانا کھاتے کل بھی ایک تہذیب تھی، پہلے مہمان نکالیں گے پھر میزبان۔ میزبان بھی وہ جو گھر کا سربراہ ہو۔ جب بچے یہ ماحول دیکھتے ہیں تو ان کی تربیت خودبخود ہو جاتی تھی۔

ہماری خالہ جان کا گھر بھی بہت بڑا تھا، وہ گھر آج بھی موجود ہے۔ قائد اعظم کے مزار کے نزدیک ایک منزلہ بنگلوز بنے ہوئے تھے، انھی میں سے ایک خالہ جان کا تھا۔

ان کے گھر سب لوگ ہفتے کی رات کو جمع ہوتے تھے کیوں کہ صبح اتوار کو چھٹی ہوتی تھی، تمام کزنز اور مہمان جب صبح اٹھتے تو ناشتہ تیار ہوتا تھا، خالہ جان بجائے کیتلی میں چائے دم کرنے کے ایک تانبے کے پتیلے میں چائے بناتی تھیں، الائچی والی دودھ پتی کی چائے بنا کر وہ ہم میں سے کسی کو آواز دیتیں، ہم بہنوں میں سے سبھی ان کی آواز پہ لپکتیں، وہ پیالیوں میں چائے نکالتی جاتیں، ہم لوگ وہ دوسرے مہمانوں تک پہنچاتے جاتے۔ دوسری بہنیں مکھن، ڈبل روٹی، باقر خانیاں اور بسکٹ وغیرہ پلیٹوں میں رکھتے۔

خالہ جان تمام کھانا کوئلوں پہ پکاتی تھیں، انگیٹھیوں پر۔ اس وقت سوئی گیس کراچی میں نہیں آئی تھی، خالہ جان کے گھر اور ہمارے گھر سارا کھانا کوئلوں پہ پکتا تھا، سوئی گیس پہلے ایئرپورٹ پہ آئی تھی اور پھر پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں، یعنی ہمارے گھر۔ لیکن میری والدہ اور خالہ جان روٹیاں کوئلوں کی انگیٹھی پہ پکاتی تھیں۔

کیوں کہ میرے والد کو اور خالو جان کو گیس کی روٹیاں پسند نہیں تھیں، ویسے بھی ہمارے گھر ملازموں سے اوپر کے تمام کام تو کروائے جاتے تھے لیکن کھانا گھر کی عورتیں خود پکاتی تھیں۔ تندور کی روٹیاں اس وقت آتی تھیں جب نہاری کا قورمہ یا پائے پکتے تھے۔

ہم نے بھی انھی روایات کو برقرار رکھا۔ میں نے اپنے بیٹے کی تربیت کہانیاں سنا کر کی، جو اچھی بات اس کی تربیت کے لیے ضروری تھی وہ میں نے کہانیوں کے ذریعے اس کے ذہن میں ڈالی۔ کیوں کہ بچے کہانیاں شوق سے سنتے ہیں۔ میری بچوں کی کہانیوں پہ مشتمل کتاب ’’جن دادا اور دوسری کہانیاں‘‘ جو سلسلہ وار ہمدرد نونہال میں شایع ہوئی تھیں۔ بعد میں ان کہانیوں کو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شایع کیا۔

آج سب کچھ کتنا بدل چکا ہے، ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون ہے، مہمان اب بلائے جان سمجھے جاتے ہیں، اب رشتے دار ایک دوسرے کے گھر اس طرح نہیں جاتے جیسے پہلے بے تکلفی سے چلے جاتے تھے، بغیر فون کیے اور جہاں جاتے تھے وہاں میزبان ان کی حسب توفیق خاطر مدارات کرتے تھے۔ بچوں کی تربیت کا خانہ آج کل خالی ہے۔

چھ چھ ماہ کے بچوں کے ہاتھوں میں مائیں موبائل فون تھما دیتی ہیں تاکہ انھیں بچے کو گود میں نہ لینا پڑے۔ ننھے بچے ٹی وی کی اسکرین کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں کیونکہ رنگ برنگی بدلتی ہوئی تصویریں بچوں کو اٹریکٹ کرتی ہیں، موبائل پہ پڑے گیم اور کارٹون بھی ننھے بچوں کو اچھے لگتے ہیں۔

لیکن مائیں یہ بھول جاتی ہیں کہ اگر وہ بچے کو موبائل ہاتھ میں دینے کے بجائے اس سے باتیں کریں کیوں کہ لوری کا زمانہ اب گزر چکا ہے تو بچے ماں سے زیادہ مانوس ہو جائیں گے۔ دادا، دادی اب شاید ہی کسی گھر میں پائے جائیں، جوائنٹ فیملی کا زمانہ گزر چکا ہے۔

اب تربیت کی ضرورت ماں باپ نہیں سمجھتے، بڑوں کا ادب اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے بڑوں کے منہ کو آتے ہیں، کبھی والدین کے سامنے لڑکے اپنی اولاد کو گود میں لیتے ہوئے شرماتے تھے، آج پیدا ہوئے بچے کو باپ اٹھائے پھرتا ہے، ہر دور کی اپنی روایات ہوتی ہیں، وہ روایات اور تہذیب جو مٹ گئی ہے اس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔

ہماری عمر کے لوگ جب وہ زمانہ یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کیا تھی وہ تہذیب جب بیویاں شوہر کے گھر آنے سے پہلے گھر کی صفائی پر توجہ دیتی تھیں، شوہر کو گرما گرم چائے بنا کر دیتی تھیں، اس کے آرام کا خیال رکھتی تھیں۔

اسے کوئی ذہنی ٹینشن نہ دیتی تھیں کہ جو مرد سارا دن گھر سے باہر رہ کر بیوی بچوں کے لیے کما کر لاتا ہے اسے آرام اور ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہے۔ شوہر کو بیویاں گدھا مزدوری کرنے والا ملازم سمجھتی ہیں جو ہر ہفتے انھیں باہر لے جا کر کسی مہنگے سے ہوٹل میں ڈنر کروائے، شاپنگ کروائے اور اس کے میکے والوں کے نخرے اٹھائے۔

یہی وجہ ہے کہ طلاقوں کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اب بیٹوں کی مائیں بیٹوں کی شادیاں کرنے سے ڈرتی ہیںکہ پہلی رات ہی دلہن کا مطالبہ الگ گھر کا ہوتا ہے اور بدنصیب بیٹے بیوی کی بات مان کر بیوہ ماؤں کو اکیلے چھوڑ کر بیوی کے پلو سے بندھ کر چلے جاتے ہیں اور مائیں پھر بھی بیٹوں کی سلامتی اور لمبی عمر کی دعائیں مانگتی ہیں اور پھر بیٹے کو دیکھنے کی آرزو لیے قبر میں جا سوتی ہیں۔

QOSHE - کل اور آج - رئیس فاطمہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کل اور آج

17 0
26.01.2024

[email protected]

میری بھتیجی افروز آج کل کینیڈا سے پاکستان آئی ہوئی ہے۔ پچھلے دنوں وہ میرے پاس کچھ دن رہنے کے لیے آئی تو یوں ہی بات پچھلے دور کی طرف نکل گئی، وہ کہنے لگی، ہمارے بچے تو اس زمانے سے واقف ہی نہیں جو ہم نے گزارا، اور اب بیرون ملک جا کر بسنے سے تو اپنی شناخت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ گھرانے اب بھی عید پہ بقر عید پہ رمضان میں ایسی محفلوں کا اہتمام کر لیتے ہیں جو ہمارے مذہب کا تقاضا ہے۔

افروز کی بات سے مجھے بھی بہت کچھ بھولا بسرا یاد آیا۔ ہم چھوٹے تھے تو دادی کی ہر بات حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی، کیوں کہ یہ سب ہم نے ماحول سے سیکھا تھا، ہم دیکھتے تھے کہ ہمارے والد اور والدہ دادی کے کیسے تابع دار تھے۔

یہ ادب ہم بہن بھائیوں کے خون میں شامل تھا، کیوں کہ ہوش سنبھالتے ہی یہ سب ہم نے دیکھا تھا۔ اگر دادی نے کہیں جانے سے منع کردیا تو مجال ہے کہ کوئی ان کی بات سے اختلاف کرے۔ میری والدہ تو روز مرہ کی ہنڈیا بھی ان سے پوچھ کر پکاتی تھیں۔ عید، بقر عید پر کیا بنے گا، کیا پکے گا، یہ سب دادی طے کرتی تھیں۔

وہ خاندان کی بڑی تھیں، اس لیے سبھی لوگ انھیں سلام کرنے آتے تھے۔ شیر خرمہ، زردہ، بریانی، سموسے، مٹھائی سب کچھ ان کی مرضی سے آتا تھا۔ کچوریاں، سبزی اور سموسے میری والدہ گھر میں بناتی تھیں، فون بہت کم تھے، کسی کسی گھر میں ہوا کرتے تھے۔

اس لیے مہمانوں کی مدارات کا اہتمام پہلے سے کیا جاتا تھا۔ مہمانوں کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا، لوگوں میں محبتیں تھیں، ایسے ادب پرور ماحول میں بچوں کو کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بچے خود ماحول سے سیکھتے جاتے ہیں۔

رات کو دادی ہمیں کہانیاں سناتی تھیں، ہم تو بہت چھوٹے تھے جب دادی جان نے چار درویش کی کہانی سنائی تھی، بڑے ہو کر جب میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ اور رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانۂ عجائب‘‘........

© Express News


Get it on Google Play