[email protected]

مولانا عبدالسلام نیازی کے پراسرار واقعات کو سمیٹنا ایک کالم میں ممکن نہیں۔ اس لیے قارئین کے لیے کچھ اور واقعات پیش خدمت ہیں۔ یہ واقعات راشد اشرف کی مرتب کردہ کتاب ’’ مولانا عبدالسلام نیازی‘‘ سے اخذ کیے گئے ہیں، اس کتاب میں ایک طویل مضمون طارق مسعود کا شامل ہے۔

سب سے پہلے ملک کے معروف اور منفرد قوال عزیز میاں کا قصہ ہے۔ عزیز میاں بہت پڑھے لکھے اور صاحب علم انسان ہیں، وہ ابن رشد کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔

اس زمانے میں میاں محمد یٰسین کی محفل میں جب چشتیہ بزرگوں کا تذکرہ ہوتا تو مولانا عبدالسلام کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا جاتا۔ عزیز میاں کو ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ عزیز میاں کو شیخ اکبر کی ’’ فتوحات مکیہ‘‘ نے اپنے تحیر کی لپیٹ میں لے لیا۔ مسلمانوں کی اس کتاب کو دنیا بھر میں اپنے موضوع کے اعتبار سے ہر مکتبہ فکر میں سند سمجھا جاتا ہے۔

شیخ اکبر نے اس کتاب میں وحدت الوجود کو اس خوبصورتی اور آسان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فلسفے کا طالب علم اس کا مطالعہ کیے بغیر نہیں رہتا۔ عزیز میاں کو جب ’’ فتوحات مکیہ‘‘ پڑھنے اور سمجھنے کا شوق ہوا تو میاں محمد یٰسین نے انھیں دہلی جانے اور مولانا عبدالسلام نیازی سے ملنے کا مشورہ دیا۔

مولانا صاحب کی عمر اس وقت 90 سے تجاوز کر چکی تھی، آپ مفسر قرآن، محدث اور میدان تصوف کے شاہ سوار تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ابوللیث صدیقی، بھارت کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین، جوش ملیح آبادی، مولانا فضل الحق پانی پتی جیسی شخصیات مولانا کے شاگردوں میں شامل تھیں۔ مولانا کے دروازے پر ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت بھی دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ ان کے آگے بڑے بڑوں کا پتّا پانی ہوتا تھا۔

عزیز میاں کو جب اذن سفر ملا تو وہ لاہور سے دہلی روانہ ہوئے۔ عزیز میاں دہلی گئے تو وہاں دو مواقع پر انھیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جہاں کسی صاحب نظر کی کرامت کے سامنے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

حضرت میاں یٰسین نے عزیز میاں کو نصیحت کی کہ مولانا عبدالسلام کی کسی بات کو بے معنی اور بے مغز نہ جاننا۔ وہ بہ ظاہر بہت سخت مزاج ہیں لیکن اپنے کشف و کرامات کے عالم میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو صرف اہل طریقت ہی سمجھ پاتے ہیں۔

ان کی بعض باتیں اہل دنیا کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لیکن ان کے رویے سے کبھی بد دل نہ ہونا۔ عزیز میاں دہلی پہنچے ترکمان گیٹ میں تھانے میں اپنی آمد کا اندراج کروایا اور پھر حضرت محبوب الٰہی کے دربار پر حاضری دی۔ اس سفر کے دوران عزیز میاں کے پاس دری، چادر اور تکیہ پر مشتمل ایک بستر تھا اور ایک بریف کیس تھا۔

دلی کی مزے دار نہاری کھانے کے بعد ایک رکشہ کرائے پر لیا اور نماز مغرب کے وقت ترکمان دروازے پر حضرت مولانا عبدالسلام کے مکان پر جا پہنچے۔ مولانا نے نہایت سخت الفاظ میں ان کا خیر مقدم کیا اور بیٹھنے کو کہا، اور اپنا مدعا بیان کیا کہ وہ ’’ فتوحات مکیہ‘‘ پڑھنے آئے ہیں۔

مولانا نے ان کی بات سن کر کہا کہ ’’ ہم تم کو صبح اپنی شاگردی میں لیں گے، لیکن شاگردی میں آنے سے پہلے انھیں ایک رات ’’ اس بازار‘‘ میں گزارنی ہوگی۔‘‘ عزیز میاں یہ شرط سن کر سٹپٹا گئے۔ مولانا نے یہ شرط بھی عائد کی کہ اگر ’’ اس بازار‘‘ میں رات نہ گزاری تو یہاں آنے کی زحمت گوارا نہ کرنا۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد بولے ’’ اب اپنا سامان اٹھاؤ اور چلتے بنو۔‘‘

عزیز میاں نے اپنا سامان اٹھایا اور چل پڑے۔ اور رکشہ کر کے طوائف کے کوٹھے پہ چل پڑے۔ رکشے والے نے انھیں ایک تین منزلہ مکان پہ اتار دیا جو جاپان منزل کے نام سے تھی۔ وہ عجیب کشمکش میں بستر اٹھائے اس عمارت میں داخل ہوئے جہاں سب فلیٹوں میں طوائفیں رہتی تھیں۔

وہ ہر منزل پہ چڑھتے چلے جاتے تھے، ہر منزل کے کونے پر چائے اور پان کی دکان تھی، انھوں نے دوسری منزل پہ چائے پی اور پان لے کر تیسری منزل کی طرف چل پڑے۔ ان کے ذہن میں مولانا کے الفاظ گونج رہے تھے۔

بازار کا وقت ختم ہوتا جا رہا تھا، رات کا ایک بج رہا تھا، اگر بازار بند ہو گیا اور انھیں بغیر رات گزارے یہاں سے واپس جانا پڑا تو مرشد کی حکم عدولی ہوگی۔ وہ یہ سوچتے سوچتے جب تیسری منزل پہ پہنچے تو دو لڑکیاں بیٹھی نظر آئیں۔ انھوں نے فوراً بھانپ لیا کہ یہ دونوں بہنیں ہیں اور اندر کمرے میں کوئی نہیں ہے۔

وہ بوجھل قدموں سے کمرے میں داخل ہوئے اپنا بستر رکھا، کمرہ بہت سلیقے سے سجا ہوا تھا، چاندنی بچھی تھی، گاؤ تکیہ لگا تھا، ایک ہارمونیم اور طبلہ رکھا تھا لیکن کوئی سازندہ موجود نہ تھا۔ عزیز میاں نے جیب سے پرس نکال کر سامنے رکھا اور لڑکیوں سے گانے کی فرمائش کی اور سر جھکا کر بیٹھ گئے کہ اچانک لڑکیوں کے قہقہے نے انھیں پریشان کر دیا۔

انھوں نے تعجب کے عالم میں قہقہے کی وجہ دریافت کی تو بڑی بہن نے جواب دیا ’’ہم نے ایسا تماش بین آج تک نہیں دیکھا۔‘‘ عزیز میاں نے کہا ’’ کیا مجھ میں سرخاب کے پر لگے ہیں یا کوئی اور بات ہے جو آپ کہہ رہی ہیں کہ میرے جیسا تماش بین آج تک نہیں دیکھا۔‘‘ تب وہ بولی کہ ’’ نہ تو آپ میں کوئی انوکھی بات ہے نہ سرخاب کے پر لگے ہیں۔

بات یہ ہے کہ اس کوٹھے پر بڑے بڑے نواب آتے ہیں لیکن بستر ہمارے ہی ہوتے ہیں، آپ واحد تماش بین ہیں جو بستر ساتھ لائے ہیں۔‘‘ عزیز میاں نے کہا کہ ’’ میں پردیسی ہوں اور پاکستان سے آیا ہوں، یہ بستر میرا رخت سفر ہے اور میں صرف اسی کوٹھے کے لیے نہیں آیا، نہ ہی سیر و تفریح کے لیے آیا ہوں، بلکہ میرے استاد نے مجھے ایک رات یہاں گزارنے کا حکم دیا تھا سو چلتا چلتا یہاں آ نکلا۔‘‘ لڑکی نے کہا کہ ’’ وہ کیسے استاد ہیں جو آپ کا سامان تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔‘‘ عزیز میاں کو یہ انداز تخاطب اچھا نہیں لگا۔

انھوں نے ناگوار لہجے میں کہا ’’دیکھو بائی! مجھے جو چاہو کہہ لو، مگر میرے استاد کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔‘‘ لڑکی نے ترنت پوچھا ’’ جناب! ذرا اپنے استاد کا نام تو بتائیے؟‘‘ عزیز میاں نے لیت و لعل سے کام لیا تو دونوں بہنیں پیچھے پڑگئیں، آخرکو عزیز میاں کو نام بتانا پڑا۔

عزیز میاں کے منہ سے مولانا عبدالسلام کا نام نکلنا تھا کہ اس لڑکی پر دیوانگی سی طاری ہوگئی۔ وہ عزیز میاں کے قدموں سے لپٹ گئی اور رونے لگی اور دیوانہ وار کہنے لگی ’’آج وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘ عزیز میاں یہ دیکھ کر حیران پریشان ہو رہے تھے۔ انھوں نے لڑکی کو اپنے قدموں سے اٹھایا اور اس راز سے پردہ اٹھانے کو کہا۔

لڑکی نے بتایا کہ چند سال پہلے دونوں بہنوں کے کپڑوں میں پیوند لگے تھے۔ اکثر فاقوں کی بھی نوبت آ جاتی تھی، ہم نے حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہو کر حالات کی بہتری کی دعا کی، انھوں نے دعا فرماتے ہوئے نصیحت کی کہ ’’ تمہارے پاس تین آدمی آیا کریں گے، تم صرف انھی کو اپنا گانا سنانا، یہ تین آدمی ہفتے میں دو دن گانا سننے کے لیے آتے ہیں۔

ان تینوں کا کس مذہب سے تعلق ہے ہمیں پتا نہیں۔ ان تینوں کا نام بھی ہم نہیں جانتے، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ اس کوٹھے پر سب سے مال دار ہم ہیں، ہم ہر جمعرات کو حضرت بابا کے پاس سلام کے لیے حاضر ہوتی ہیں اور ہر بار التجا کرتی ہیں کہ کبھی ہمارے غریب خانے پر تشریف لائیں۔ آپ ہمیشہ ایک ہی بات کہتے تھے کہ ’’ جب بھی میرا کوئی شاگرد تمہارے پاس آئے تو سمجھنا میں آگیا۔ یہ آٹھ دس سال کا انتظار آج ختم ہو گیا۔‘‘

یہ کہہ کر چھوٹی بہن نے عزیز میاں کا سامان اٹھایا اور اندرکے کمرے کی بڑی الماری میں رکھ دیا۔ ان کے لیے فوراً کھانے کا بندوبست کیا گیا۔ کھانے کے بعد انھیں جو کمرہ آرام کے لیے دیا گیا وہ انتہائی سجا ہوا تھا، جب صبح ہوئی تو ان کے لیے انتہائی پرتکلف ناشتہ آیا، ناشتہ کرنے کے بعد جب مولانا کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے نکلنے لگے تو دونوں بہنوں نے اس وعدے پہ رخصت کیا کہ وہ مولانا سے اجازت لینے کے بعد روزانہ یہاں قیام کریں گے۔

جب عزیز میاں نے مولانا کی خدمت میں حاضری دی تو مولانا دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ’’ کہو میاں! بندوبست اچھا ہو گیا، کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟‘‘

انھوں نے ہاتھ باندھ کر مولانا سے کہا ’’ حضور! یہ سب آپ کی نظر کرم کا نتیجہ ہے۔‘‘ اس کے بعد مولانا نے عزیز میاں کو باقاعدہ اپنی شاگردی میں لے لیا، مولانا کے پاس دن گزارنے کے بعد حسب وعدہ کوٹھے پر پہنچ گئے۔ عزیز میاں تقریباً سوا سال مولانا کے پاس پڑھتے رہے۔

اس دوران ان دونوں بہنوں نے ہر صبح انھیں اس وعدے کے ساتھ رخصت کیا کہ مولانا سے فراغت پا کر وہ حسب وعدہ یہیں آئیں گے۔ ان لڑکیوں کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے عزیز میاں کے کپڑوں کی پیمائش لے کر درجنوں سوٹ معہ جواہرکٹ سلوا کر ان کی الماری میں رکھ دیے، جب صبح وہ جانے کے لیے تیار ہوتے تو نئے جوڑے کی جیب میں ضرورت سے زیادہ کی رقم بھی پڑی ہوتی۔

انھیں مطالعے کے لیے الگ کمرہ بھی مل گیا، اجنبی شہر میں نہ صرف رہائش کا بندوبست ہوگیا بلکہ ان کے کھانے پینے اور ہر ضرورت کا بھی بندوبست ہو گیا۔ مولانا عبدالسلام نیازی کی بدولت عزیز میاں سوا سال تک ’’ فتح مکیہ‘‘ پڑھ کر واپس آئے۔

QOSHE - مولانا عبدالسلام نیازی اور عزیز میاں قوال - رئیس فاطمہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

مولانا عبدالسلام نیازی اور عزیز میاں قوال

13 11
19.01.2024

[email protected]

مولانا عبدالسلام نیازی کے پراسرار واقعات کو سمیٹنا ایک کالم میں ممکن نہیں۔ اس لیے قارئین کے لیے کچھ اور واقعات پیش خدمت ہیں۔ یہ واقعات راشد اشرف کی مرتب کردہ کتاب ’’ مولانا عبدالسلام نیازی‘‘ سے اخذ کیے گئے ہیں، اس کتاب میں ایک طویل مضمون طارق مسعود کا شامل ہے۔

سب سے پہلے ملک کے معروف اور منفرد قوال عزیز میاں کا قصہ ہے۔ عزیز میاں بہت پڑھے لکھے اور صاحب علم انسان ہیں، وہ ابن رشد کے نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔

اس زمانے میں میاں محمد یٰسین کی محفل میں جب چشتیہ بزرگوں کا تذکرہ ہوتا تو مولانا عبدالسلام کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا جاتا۔ عزیز میاں کو ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ عزیز میاں کو شیخ اکبر کی ’’ فتوحات مکیہ‘‘ نے اپنے تحیر کی لپیٹ میں لے لیا۔ مسلمانوں کی اس کتاب کو دنیا بھر میں اپنے موضوع کے اعتبار سے ہر مکتبہ فکر میں سند سمجھا جاتا ہے۔

شیخ اکبر نے اس کتاب میں وحدت الوجود کو اس خوبصورتی اور آسان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فلسفے کا طالب علم اس کا مطالعہ کیے بغیر نہیں رہتا۔ عزیز میاں کو جب ’’ فتوحات مکیہ‘‘ پڑھنے اور سمجھنے کا شوق ہوا تو میاں محمد یٰسین نے انھیں دہلی جانے اور مولانا عبدالسلام نیازی سے ملنے کا مشورہ دیا۔

مولانا صاحب کی عمر اس وقت 90 سے تجاوز کر چکی تھی، آپ مفسر قرآن، محدث اور میدان تصوف کے شاہ سوار تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر ابوللیث صدیقی، بھارت کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین، جوش ملیح آبادی، مولانا فضل الحق پانی پتی جیسی شخصیات مولانا کے شاگردوں میں شامل تھیں۔ مولانا کے دروازے پر ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت بھی دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ ان کے آگے بڑے بڑوں کا پتّا پانی ہوتا تھا۔

عزیز میاں کو جب اذن سفر ملا تو وہ لاہور سے دہلی روانہ ہوئے۔ عزیز میاں دہلی گئے تو وہاں دو مواقع پر انھیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جہاں کسی صاحب نظر کی کرامت کے سامنے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

حضرت میاں یٰسین نے عزیز میاں کو نصیحت کی کہ مولانا عبدالسلام کی کسی بات کو بے معنی اور بے مغز نہ جاننا۔ وہ بہ ظاہر بہت سخت مزاج ہیں لیکن اپنے کشف و کرامات کے عالم میں بعض ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو صرف اہل طریقت ہی........

© Express News


Get it on Google Play