[email protected]

یوں توہم اوربھی بہت ساری نعمتوں اورکرم نوازیوں کے شکرگزار ہیں لیکن اس کریم وبخشائش گرنے ہمیں جو تین ڈاکٹردیے ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید ہم اب تک خود ہی خود کو کیفرکردار تک پہنچاچکے ہوتے۔

مطالعہ ہماری کمزوری بلکہ عادت ہے اور رحمان بابا نے کہا ہے کہ ’’لت‘‘چھوٹ جاتی ہے لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی ، چنانچہ ہم اخباروں، رسالوں اورمیگزینوں میں حکیموں، ڈاکٹروں اورعطائیوں کے وہ مضامین اکثر پڑھتے ہیں جو وہ الامراض والعلاج کے موضوع پر لکھتے ہیں اوراس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ہم جیسے نہ جانے کتنے ان کی تحریریں پڑھ کر وہ ساری بیماریاں اپنے اندر دریافت کرلیتے ہیں یاڈال لیتے ہیں یا پیدا کرلیتے ہیں ،خاص طورپر ہم نے تو آج تک جتنی بھی بیماریوں کے بارے میں پڑھا ہے۔

وہ سب کی سب اپنے اندر موجود پائی ہیں ، ظاہرہے اپنے اندر اتنی ساری بیماریاں پاکر ہمیں اب تک ’’غفرلہ‘‘ ہوناچاہیے تھا لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں چند ایسے ڈاکٹر دے رکھے ہیں جن کے پاس جا کر ہم ان خطرناک اورجان لیوا بیماریوں سے چھٹکارا پالیتے ہیں، یوں تو ڈاکٹروں کی مہربانیوں، دواساز کمپنیوں کی برکات اورپرائیویٹ اسپتالوں اورکلینکوں کی فراوانی سے ان دنوں بیماریوں کی اتنی بہتات ہو چکی ہے کہ دنیا میں جتنے انسان ہیں۔

ان سے دس گنا زیادہ بیماریاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن درجہ بندی کی جائے تو ان کو تین کیٹگریوں میں بانٹا جا سکتا ہے، ایک وہ بیماریاں جو جسم کو لاحق ہوتی ہیں یالاحق کجی جاتی ہے دوسری وہ جو دل کی بیماریاں کہلاتی ہیں جب کہ تیسری قسم دماغی امراض کی ہے چنانچہ جب ہم اپنے اندر اخباروں، رسالوں اورمیگزینوں سے دس بارہ بیماریاں دریافت کرلیتے ہیں تو فزیشن ڈاکٹر مشتاق سے رجوع کرلیتے ہیں ۔

دل میں کچھ کچھ پاتے ہیں تو ڈاکٹر عدنان گل کے پاس جاتے ہیں اوردماغ میں کچھ دھماکا قسم کی علامات پاتے ہیں تو ڈاکٹر رضوان کے پاس جاتے ہیں ، خدا ان تینوں کابھلاکرے کہ وہ ابھی تک صرف ڈاکٹر ہی ہیں، ترقی کرکے ڈاکو نہیں بنے ہیں۔

دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ یا تو جانتے ہیں کہ ہماری بیماریاں صرف’’مطالعے‘‘ کی عطا کردہ ہیں یایوں کہیے کہ اپنی کمائی ہوئی ہوتی ہیں ،ویسے تو اب تک ہم اپنے اندر تقریباً وہ ساری بیماریاں ڈال چکے ہیں اورہمارے یہ تین مہربان اورمرض شناس ڈاکٹر ان کو جنات کی طرح ہمارے اندر سے نکال چکے ہیں، لیکن ابھی ابھی کرنٹ اورتازہ ترین بیماری جو ہمیں لاحق ہوئی یا ہم اپنے آپ کو لاحق کرچکے ہیں، بہت ہی مشکل اورضدی ثابت ہورہی ہے اورتینوں ڈاکٹر اس کے سامنے سرینڈر کرچکے ہیں چونکہ یہ بیماری کسی ایسے ویسے ذریعے سے ہمیں نہیں لگی ہے بلکہ اپنے پیر ومرشد مرزا اسداللہ خان غالب کی لگائی ہوئی ہے کیوں کہ وہ خودبھی اس عارضہ میں بری طرح مبتلاتھے ۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

اورٹھیک یہی کیفیت آج کل ہماری بھی ہے، یہ آئینے سے ڈرنے کاسلسلہ تو بعد میں شروع ہوا، پہلے یہ اٹیک ہوا کہ سارے انسان اچانک کچھ اور دکھائی دینے لگے ، کوئی بھیڑیا ،کوئی بھیڑ، کوئی سانپ، کوئی بچھو، کوئی شیرک،وئی گیڈر کوئی گدھا، کوئی چیل ،کوئی کوا،کوی گدھ۔اس بیماری کاعلاج تو آسان تھا کہ ہم نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا، بازار میں نکلنا کسی خطرناک جنگل جیسا لگنے لگا۔

مشکل ہے اب شہرمیں نکلے کوئی گھر سے

دستار پہ بات آگئی، ہوتی ہوئی سر سے

لیکن اس سے بھی بات نہیں بنی کیوں کہ ہم خود کو تو گھر میںبند کر سکتے تھے لیکن آنے والوں کو کیسے روکتے جو کسی نہ کسی وجہ سے ملنے آجاتے تھے، ہماری محبت میں نہیں بلکہ کسی ضرورت کے لیے، بیگانوںسے تویہ کہلاکر بچا جاسکتاہے کہ گھر میں نہیں ہوں لیکن اپنے تو سیدھے گھر میں گھس آتے تھے اوریہ تو آپ کو بھی پتہ ہوگا کہ سگے ، سگوں سے بھی زیادہ سگ ہوتے ہیں ، سگ باش برادر سگ مباش۔

دشمنوں سے پیارہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

چنانچہ بھیڑیوں کے بعد اب سگوں سے بچنے کاصرف ایک ہی راستہ نظر آیا اورہم گاؤں چھوڑ کر ویرانے میں آن بسے جہاں دوردورتک دو پیروں والا کوئی درندہ موجود نہیں، اڑوس پڑوس میں اکادکا چار پیروں والے درندے ضرورہیں لیکن بھوک لگنے پر کھاتے ہیں، دوپیروں والوں کا پیٹ بھرجانے کے بعد بھی بھوک ختم نہیں ہوتی لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ قاتل کواپنے ہی گھر لے کر آگیا۔

ایک صبح آئینہ دیکھا تو بے ہوش ہوتے ہوئے بچے اورمرشدکا وہ شعر یادآگیا جسے ہم نے آج تک غورسے نہیں پڑھا تھالیکن اب پتہ چلا کہ یہ سانحہ صرف ہم پر نہیں گرزا ہے بلکہ مرشد بھی آئینے سے ڈرتے تھے ، مردم گزیدہ ہونے کی وجہ سے

دیکھا جو آئینہ تو مجھے سوچنا پڑا

خود سے نہ مل سکا تو مجھے سوچنا پڑا

اورسوچنا پڑا کہ آج انسان کو سب سے بڑا خطرہ انسان سے ہے اورہماری جان کو خطرہ خود اپنی ہی جان سے ہے ، انسان تو پھر بھی اپنے چہرے پر دوسرا چہرہ چڑھالیتے ہیں لیکن یہ کم بخت آئینہ تو بڑا بے مروت اوربے ریا ہوتاہے

چاہے سو نے کے فریم میں جڑ دو

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

مسئلہ اب یہ ہے کہ ہمارے تینوں ڈاکٹر بھی جواب دے چکے ہیں کیوں کہ آئینوں کاعلاج ان کے بس کی بھی بات نہیں ، سو ہم نے اپنا علاج آپ کرلیا ہے کہ گھر کے سارے آئینے توڑڈالے ہیں ۔

خود اپنے سے ملنے کا بھی یارانہ نہ تھامجھ میں

میں بھیڑمیں گم ہوگیا تنہائی کے ڈر سے

QOSHE - ڈرتا ہوں آئینے سے - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ڈرتا ہوں آئینے سے

18 0
10.01.2024

[email protected]

یوں توہم اوربھی بہت ساری نعمتوں اورکرم نوازیوں کے شکرگزار ہیں لیکن اس کریم وبخشائش گرنے ہمیں جو تین ڈاکٹردیے ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو شاید ہم اب تک خود ہی خود کو کیفرکردار تک پہنچاچکے ہوتے۔

مطالعہ ہماری کمزوری بلکہ عادت ہے اور رحمان بابا نے کہا ہے کہ ’’لت‘‘چھوٹ جاتی ہے لیکن عادت کبھی نہیں چھوٹتی ، چنانچہ ہم اخباروں، رسالوں اورمیگزینوں میں حکیموں، ڈاکٹروں اورعطائیوں کے وہ مضامین اکثر پڑھتے ہیں جو وہ الامراض والعلاج کے موضوع پر لکھتے ہیں اوراس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ہم جیسے نہ جانے کتنے ان کی تحریریں پڑھ کر وہ ساری بیماریاں اپنے اندر دریافت کرلیتے ہیں یاڈال لیتے ہیں یا پیدا کرلیتے ہیں ،خاص طورپر ہم نے تو آج تک جتنی بھی بیماریوں کے بارے میں پڑھا ہے۔

وہ سب کی سب اپنے اندر موجود پائی ہیں ، ظاہرہے اپنے اندر اتنی ساری بیماریاں پاکر ہمیں اب تک ’’غفرلہ‘‘ ہوناچاہیے تھا لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں چند ایسے ڈاکٹر دے رکھے ہیں جن کے پاس جا کر ہم ان خطرناک اورجان لیوا بیماریوں سے چھٹکارا پالیتے ہیں، یوں تو ڈاکٹروں کی مہربانیوں، دواساز کمپنیوں کی برکات اورپرائیویٹ اسپتالوں اورکلینکوں کی فراوانی سے ان دنوں بیماریوں کی اتنی بہتات ہو چکی ہے کہ دنیا میں جتنے انسان........

© Express News


Get it on Google Play