[email protected]

پہلے ایک دل خوش کن خبر سنیے…

دھواں چھوڑتی ہوئی گاڑیوں کا راج۔ پشاورمیں دس مقامات انسانی صحت کے لیے خطرناک ۔ اسکول بسیں، پرانی ویگنیں، رکشے سرفہرست، پرانی ٹیکسیاں بھی ماحول کو آلودگی کا سبب بننے لگیں۔

روزانہ پشاورشہر میں چار لاکھ گاڑیاں آتی اورجاتی ہیں، رنگ روڈ چارسدہ چمکنی دلہ زاک روڈ، جی ٹی روڈ، خیبر بازار چوک پر ٹریفک پولیس خاموش تماشائی، آگے خبر کی تفصیلات اور بھی کچھ ہے لیکن خبر دینے والوں نے جو نتیجہ نکالاہے یاجس خطرے کی طرف اشارہ کیا وہ سرے سے خطرہ ہے ہی نہیں، انھوں نے دھوئیں اور ماحول کی آلودگی پر زوردیا حالانکہ یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ شاید کسی کو یہ پتہ نہیں کہ ماحول کو آلودہ کرنے اوربیماریاں پھیلانے سے حکومت اوراس کے چٹے بٹے کو کتنا فائدہ پہنچ رہاہے۔

دراصل لوگ بڑے نادان ہوتے ہیں صرف اپنے پیروں تلے کی زمین دیکھتے ہیں اور باقی کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ جب ہم آپ کے سامنے مضبوط دلائل کا ڈھیر لگا دیں گے تو آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ یہ ازکار رفتہ گاڑیاں، دھوئیں کے بادل، ماحول کی آلودگی اورامراض کی یلغار کتنی بڑی نعمت ہے اوراس کے فوائد کہاں کہاں تک پہنچتے رہتے ہیں۔

فرض کیجیے اگرحکومت کے وہ محکمے اورادارے کام کرنے لگیں جن میں وزیروں، مشیروں، گورنروں اور منتخب نمایندہ کے لاڈلے ’’کام نہ کرنے‘‘ کی تنخواہیں وصول کررہے ہیں اوریہ لوگ ’’کام‘‘ شروع کردیں تو ہو گا کیا۔ سب سے پہلے تو بازاروں میں رش کم ہوجائے گا اور جب رش کم ہوجائے گا تو سمجھ لو کہ ٹریفک والوں کا روزگار ختم ہوجائے گا۔

دھواں نہ ہوگا تو ماحول صاف ہو جائے گا اوربیماریاں نہیں رہیں گی تو بیچارے ڈاکٹر کلینک اوربے شمار متعلقین بھی بے روزگار ہوجائیں گے، ڈرگ اسٹور، لیبارٹریاں سب کیا کریں گے۔ نتیجے میں دواساز کمپینوں کا روزگار ٹھپ ہوجائے گا اور ان کا روزگار ٹھپ ہوجائے گا تو بہت سارے محکموں کے بہت سارے افسروں اورکارکنوں کی آمدنی بھی ختم ہوجائے گی۔

یہ جو دھڑا دھڑ عمارتیں، مارکیٹیں اور پلازے بن رہے ہیں سب کے سب اپنا سرکھا جائیں گی اورحالات میں یہ دھواں دار گاڑیاں جو ماحول کو خوشبو دار عطر دار اورمشک وعنبردار بنا رہی ہیں ایک طرح سے نعمت سمجھ لیجیے، ہاں اتنا ہے کہ کچھ لوگ اس کے ہاتھوں مر جائیں گے، زندہ درگورہوجائیں گے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

ایک تو پاکستان میں خدا کے فضل وکرم سے آئی ایم ایف کے دم قدم سے اورلیڈروں کی سعی پیہم سے لوگوں کی ’’پیداوار‘‘ اتنا بے تحاشاہے کہ اگر دو چار لاکھ روزانہ بھی خرچ ہو رہے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور پھر جو لوگ مرتے ہیں وہ مرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتے ہیں ان کی پیدائش ہی اشراف اورحکمرانوں پر نچھاورہونا ہے اس لیے جتنی جلدی نچھاورہوجائیں اچھا ہے۔

میںیہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن

یہ تو ہم نے زنجیر کا صرف ایک سرا پکڑا ہے جب کہ اس زنجیر کا ایک اورسرا بھی ہے جو اس سے پہلے سرے سے زیادہ موٹا ہے مثلاً اگر حکومت بادل نخواستہ ان دھواں دھارگاڑیوں پر پابندی لگادے اوربیس تیس سال سے زیادہ پرانی گاڑیوں کو ایکسپائرقراردے تو آدھی سے زیادہ گاڑیاں سڑکوں پر سے غائب ہوجائیں گی۔

اس حساب سے پٹرول، ڈیزل اورگیس کی بچت ہو جائے گی تو وہ سرکاری، نیم سرکاری اورغیرسرکاری ’’ڈاکو‘‘ کیا دھوئیں گے اورکیانچوڑیں گے جن پر تیل وگیس کی مہنگائی اوراس مہنگائی سستائی کے کھیل میں برستا ہے جو اسی تیل وگیس کی مہنگائی سستائی کی برکت سے کروڑپتی ارب پتی بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔

ان بیچاروں کی تو نانی ہی مرجائے گی بلکہ یوں سمجھ لیں کہ تیل وگیس کی تجارت کی جو لمبی زنجیر ہے جس میں بہت ساری سرکاری وغیرسرکاری کڑیاں ہیں سب کی آمدنی آدھی ہو جائے گی پھر وہ منتخب نمایندے کیسے بنیں گے، وزیر کیسے بنیں گے اورامیرابن امیر ابن امیر کیسے بنیں گے۔

یہ تو یہی دھواں دھار گاڑیاں ہیں جن میں انیس سو انیس ماڈل سے لے کر اب تک کے سارے عجوبے شامل ہیں، ایسے ایسے عجوبے کہ پاکستانیوں کی مہارت کے نمونے ہیں، کیوں کہ ان میں ایسی بھی گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں اورایندھن پھونکتی ہے کہ ان کو خود بھی اپنی ماں باپ کا پتہ نہیں ہوتا، کیوں کہ ہرہرقسم اور ماڈل کے پرزے ان میں ہوتے ہیں۔

ایسی گاڑیوں کے لیے پاکستانیوں نے خود ہی ماڈل ایجاد کیاہواہے، ایسی گاڑیوں کو ’’گٹو‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہی ان کی کمپنی بھی ہے اورماڈل بھی۔

ان میں زیادہ تر اینٹ، پتھر، ریت اور مٹی ڈھونے والی باربردار ہوتی ہیں لیکن بہترین نمونے پہاڑی علاقوں میں چلنے والی جیپیں ہوتی ہیں۔

ایک مرتبہ سوات کے ایک پہاڑی علاقے میں ہم نے ایک ایسی گٹو جیپ کا سفر کیا جس میں پچیس آدمی، اٹھارہ بکریاں، چارگائیں اوربیس مختلف سامانوں کی بوریاں لدی ہوئی تھیں۔

ڈرائیور سے ہم نے پوچھا یہ کس کمپنی کی جیپ ہے تو اس نے بتایا کہ کمپنی کاتو مجھے پتہ نہیں لیکن یہ ہماری خاندانی جیپ ہے، میرے دادا بھی یہی جیپ چلاتے رہے ہیں، میرے والد بھی اسی جیپ کے ساتھ اپنی عمرطبعی پور ے کرکے مجھے سونپ گئے اورچالیس سال سے میں چلارہاہوں لیکن جو جیپ دادا چلاتے تھے اس کی صرف یہ اسٹیئرنگ ہی اس میں باقی ہے، باقی سب کچھ نیا ہے۔

کیاآپ جانتے ہیں کہ یہ سب لوگ بیروزگار ہوجائیں محض چند خداماروں کی صحت کے لیے۔

QOSHE - دھواں دار گاڑیاں - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

دھواں دار گاڑیاں

12 0
28.12.2023

[email protected]

پہلے ایک دل خوش کن خبر سنیے…

دھواں چھوڑتی ہوئی گاڑیوں کا راج۔ پشاورمیں دس مقامات انسانی صحت کے لیے خطرناک ۔ اسکول بسیں، پرانی ویگنیں، رکشے سرفہرست، پرانی ٹیکسیاں بھی ماحول کو آلودگی کا سبب بننے لگیں۔

روزانہ پشاورشہر میں چار لاکھ گاڑیاں آتی اورجاتی ہیں، رنگ روڈ چارسدہ چمکنی دلہ زاک روڈ، جی ٹی روڈ، خیبر بازار چوک پر ٹریفک پولیس خاموش تماشائی، آگے خبر کی تفصیلات اور بھی کچھ ہے لیکن خبر دینے والوں نے جو نتیجہ نکالاہے یاجس خطرے کی طرف اشارہ کیا وہ سرے سے خطرہ ہے ہی نہیں، انھوں نے دھوئیں اور ماحول کی آلودگی پر زوردیا حالانکہ یہ کوئی بری بات نہیں بلکہ شاید کسی کو یہ پتہ نہیں کہ ماحول کو آلودہ کرنے اوربیماریاں پھیلانے سے حکومت اوراس کے چٹے بٹے کو کتنا فائدہ پہنچ رہاہے۔

دراصل لوگ بڑے نادان ہوتے ہیں صرف اپنے پیروں تلے کی زمین دیکھتے ہیں اور باقی کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ جب ہم آپ کے سامنے مضبوط دلائل کا ڈھیر لگا دیں گے تو آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ یہ ازکار رفتہ گاڑیاں، دھوئیں کے بادل، ماحول کی آلودگی اورامراض کی یلغار کتنی بڑی نعمت ہے اوراس کے فوائد کہاں کہاں تک پہنچتے رہتے ہیں۔

فرض کیجیے اگرحکومت کے وہ محکمے اورادارے کام کرنے لگیں جن میں وزیروں،........

© Express News


Get it on Google Play