[email protected]

نواز شریف کی وطن واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا ڈھیل کا، وقت سب گتھیاں سلجھا دے گا، کچھ بھی پس پردہ نہیں رہے گا، سر دست اس موضوع پر گفتگو قبل از وقت ہوگی، لہٰذا اس موضوع کو پھر کسی موقع کے لیے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

میاں نواز شریف کی واپسی پر جو غیر معمولی پروٹوکول ہر جگہ دیا گیا، مقدمات میں جس تیزی سے ریلیف ملا، ان سارے معاملات کو دیکھ کر ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون چشم تصور سے انھیں چوتھی بار وزیر اعظم دیکھ رہی ہے۔

ان کی جماعت کو ایسا لگتا ہے جیسے ان کے مدمقابل کوئی نہیں، وہ الیکشن میں واضح برتری حاصل کریں گے اور بلا شرکت غیرے عنان اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایسے ہی موقع پر تو مرزا اسد اللہ غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

خوش ہونے پر پابندی ہے نہ اس کا کوئی بل آتا ہے لیکن خوش گمانی حد سے تجاوز کر جائے تو خود فریبی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دشوار گزار گھاٹیوں کا نام ہے، کبھی سامنے پہاڑ آجاتا ہے تو کبھی گہری کھائی، کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ تین بار بلند ترین پہاڑ چڑھ کر گہری کھائیوں میں گرنے والے تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو تو ان معاملات و مراحل کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے تھا۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے انھیں زمینی حقائق کا اندازہ ہے اور نہ ہی انھیں کوئی یہ بتانے والا ہے کہ یہ 2013 یا 2018 نہیں، یہ 2023 ہے جو چند روز بعد 2024 میں بدل جائے گا۔ پاکستان کی سیاست مکمل بدل چکی ہے، یہاں

’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘

والا معاملہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون جو اپنے تیئں الیکشن جیت کر بیٹھی ہے درحقیقت وہ اس وقت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ انھیں اس وقت کی کنگ پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے پر دباؤ کا سامنا ہے اور آئی پی پی نے نون لیگ سے جتنی قومی اسمبلی اور صوبائی نشستوں کا مطالبہ کیا ہے، مسلم لیگ کے ذرایع کے مطابق ایک نو وارد پارٹی کی طرف سے یہ مطالبہ اپنے جثے سے بہت زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ باپ پارٹی کا رویہ بھی بدلا بدلا سا لگ رہا ہے کیونکہ بلوچستان میں باپ کے الیکٹیبلز نے مسلم لیگ کے بعد اب پیپلزپارٹی کا رخ کر لیا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف کے محسن مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی ان سے پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق جے یو آئی نے قومی اسمبلی کی ایک سو اور پنجاب اسمبلی کی ڈیڑھ سو سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی حاصل کیے تھے جن میں اکثریت کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہے۔

جے یو آئی نے نون لیگ سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 5% اور صوبائی اسمبلی کی 10% نشستیں مانگ لی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ 2018کے الیکشن میں جے یوآئی نے پنجاب میں گنتی کی چند سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، کوئی کامیاب نہیں ہوا مگر ہر سیٹ پر معقول اور بعض سیٹوں پر بہت اچھے ووٹ حاصل کیے تھے، 2018 سے لے کر اب تک پورے کا پورا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے، پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، آج ماضی میں نون لیگ کے قلعہ لاہور کے در و دیوار ہل چکے ہیں۔

شریف خاندان کے لوگ اپنی روایتی سیٹوں سے الیکشن لڑنے پر خوف کا شکار ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا کہ یہ 2013 یا 2018 نہیں، اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن پہلے والے مولانا فضل الرحمن اور نہ ان کی جماعت پہلے والی جمعیت ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاست اور پیغام گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کے پی کے اور بلوچستان سے نکل کر ملک کے ہر شہر اور گاؤں میں پہنچ چکی ہے اور محسوس کی جارہی ہے۔

اب جمعیت ایک ملک گیر سیاسی جماعت اور مولانا پورے قدکاٹھ کے ساتھ قومی سطح کے لیڈر مانے جا چکے ہیں، پنجاب میں ایسا کوئی حلقہ نہیں جہاں مولانا کا قابل ذکر ووٹ نہیں، جو موجودہ حالات میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو جتوانے اور ہروانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر نون لیگی قیادت نے جے یو آئی کے ساتھ مناسب سیٹ ایڈجسٹمنٹ ڈیل نہیں کی اور جے یو آئی نے اپنے امیدواروں کے کاغذات واپس نہیں لیے تو وہ جو بھی ووٹ لینگے وہ مسلم لیگ کے ووٹ بینک سے ہی مائنس ہوگا۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ پنجاب میں بھی جے یو آئی کے مذاکرات شروع ہیں جن سے فریقین مطمئن ہیں۔ جے یو آئی کی پہلی ترجیح تو نون لیگ ہوگی مگر اگر نون نے یہ موقع ضایع کیا اور پیپلزپارٹی سے ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگئی تو نون لیگ کو ڈبل نقصان ہوگا کیونکہ یہ ووٹ نون کے ووٹ سے کم ہوکر پی پی پی کے ووٹ کے ساتھ جمع ہونگے۔ ایسی صورت میں آئی پی پی سے اتحاد بھی نون لیگ کو نہیں بچا سکے گا۔

اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے بھی لوگ متنفر ہو رہے ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی دیوار سے لگی نظر آرہی ہے لیکن جس طرح ان سے کاغذات نامزدگی چھیننے، ان کے ورکرز کو زد و کوب کرنے، انھیں آر او آفس تک نہ پہنچنے کی خبریں گردش کررہی ہیں،یہ انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش نظر آ رہی ہے، اس سارے عمل کا ملبہ نون لیگ پر گر رہا ہے۔

صورتحال پر گہری نظر جمائے سب پر بھاری زرداری گھات لگائے بیٹھے ہیں، وہ ایسا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے کیونکہ یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کا متنفر ووٹ نون لیگ سے دشمنی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کو ہی پڑے گا جو ایک بار پھر پنجاب میں ان کے پیر جمانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، جو مسلم لیگ کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ہوسکتا ہے۔

اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے پیر جمانے میں کامیاب ہوئی اور تحریک انصاف کی حکمت عملی کے تحت تیسرے ٹیئر میں وہ لوگ جو باقاعدہ پی ٹی آئی کے عہدیدار یا کارکن تو نہیں لیکن ووٹ، سپورٹ اور ہمدردی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اور زرداری کو طاقتوروں کا معمولی اشارہ ملا تو وہ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کا خواب اپنی زندگی میں پورا کر سکتے ہیں اور مسلم لیگ والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

یہ سارا منظر نامہ بڑا واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اس وقت نون لیگ گمبھیر صورتحال سے دو چار ہے۔ آئی پی پی اور جے یو آئی سے انتخابی ڈیل اس کی مجبوری ہے اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ لہٰذا نون لیگ کو بڑی حکمت کے ساتھ ان دونوں جماعتوں سے ڈیل کرنا ہوگی۔ سب سے اہم اور حساس ڈیل جے یو آئی کی ہے کیونکہ ہر حلقے میں اس کا بھاری ووٹ موجود ہے جسکا اندازہ ابھی مسلم لیگ سمیت کسی کو نہیں۔

گزشتہ ہفتے جے یو آئی پنجاب کے مجلس عاملہ کے اراکین جن میں حضرت مولانا سید محمود میاں دامت برکاتہم امیر جمعیت علماء اسلام پنجاب، حافظ نصیر احمد احرار سیکریٹری جنرل پنجاب،حافظ غضنفرعزیز صوبائی ترجمان پنجاب، حافظ محمد ابوبکر چوہدری حافظ زین العابدین، نوجوان عالم دین مولانا سید عکاشہ میاں ودیگر موجود تھے سے اس موضوع پر میرے گھر پر ایک طویل خصوصی نشست میں تفصیلی بات چیت ہوئی اس دوران پنجاب میں آنے والے انتخابات کے حوالے سے صوبائی جماعت خصوصاً حافظ نصیر احمد احرار صاحب پُر عزم اور پراْمید نظر آئے۔ ان کے کہنے کے مطابق اس الیکشن میں جے یو آئی پنجاب میں اپنا وزن ظاہر کرکے مسلم لیگ سمیت سب کی آنکھیں کھول دیگی۔ اور انشاء اللہ اگلے الیکشن میں جب پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی تو سب کو لگ پتہ جائے گا۔

اس نشست کے بعد جو بات میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ اگر مسلم لیگ نون نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مناسب ڈیل نہیں کی اور جمعیت کے امیدوار مد مقابل آگئے تو مسلم لیگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

لہٰذا مسلم لیگ کی قیادت کو حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے جمعیت کو پنجاب میں ساتھ رکھنا چاہیے ورنہ جے یو آئی کا موجودہ ووٹ بینک تو شاید ان کو نہ جتوا سکے مگر مسلم لیگ کے امیدوار کو ہرانے کے لیے ان کا ووٹ بینک اکثر حلقوں میں کافی سے بھی زیادہ ثابت ہوگا۔

QOSHE - ن لیگ کی نئی مشکل - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ن لیگ کی نئی مشکل

12 0
28.12.2023

[email protected]

نواز شریف کی وطن واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے یا ڈھیل کا، وقت سب گتھیاں سلجھا دے گا، کچھ بھی پس پردہ نہیں رہے گا، سر دست اس موضوع پر گفتگو قبل از وقت ہوگی، لہٰذا اس موضوع کو پھر کسی موقع کے لیے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

میاں نواز شریف کی واپسی پر جو غیر معمولی پروٹوکول ہر جگہ دیا گیا، مقدمات میں جس تیزی سے ریلیف ملا، ان سارے معاملات کو دیکھ کر ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون چشم تصور سے انھیں چوتھی بار وزیر اعظم دیکھ رہی ہے۔

ان کی جماعت کو ایسا لگتا ہے جیسے ان کے مدمقابل کوئی نہیں، وہ الیکشن میں واضح برتری حاصل کریں گے اور بلا شرکت غیرے عنان اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ایسے ہی موقع پر تو مرزا اسد اللہ غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

خوش ہونے پر پابندی ہے نہ اس کا کوئی بل آتا ہے لیکن خوش گمانی حد سے تجاوز کر جائے تو خود فریبی کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستانی سیاست دشوار گزار گھاٹیوں کا نام ہے، کبھی سامنے پہاڑ آجاتا ہے تو کبھی گہری کھائی، کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ تین بار بلند ترین پہاڑ چڑھ کر گہری کھائیوں میں گرنے والے تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو تو ان معاملات و مراحل کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے تھا۔

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے انھیں زمینی حقائق کا اندازہ ہے اور نہ ہی انھیں کوئی یہ بتانے والا ہے کہ یہ 2013 یا 2018 نہیں، یہ 2023 ہے جو چند روز بعد 2024 میں بدل جائے گا۔ پاکستان کی سیاست مکمل بدل چکی ہے، یہاں

’’ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘

والا معاملہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نون جو اپنے تیئں الیکشن جیت کر بیٹھی ہے درحقیقت وہ اس وقت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ انھیں اس وقت کی کنگ پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ انتخابی اتحاد کرنے پر دباؤ کا سامنا ہے اور آئی پی........

© Express News


Get it on Google Play