[email protected]

ایک زمانہ تھا واہ جی کیازمانہ تھا بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ اس دنیا کاگولڈن بلکہ ’’ڈائمنڈ ایرا‘‘تھا جب اس دنیا کو یہ انتہائی دردناک اذیت اور شرمناک مرض ’’جمہوریت‘‘ لاحق نہیں ہواتھا، ہرملک میں صرف ایک بادشاہ ہوتا تھا جسے لوگ ’’گاڈ دی سیودی کنگ‘‘ کی دعائیں دیتے تھے، چند ملکائیں، چند کنیزیں اورچند خواجہ سرا ہوتے تھے دوچار شہزادے، شہزادیاں ہوتی تھیں۔

بادشاہ ملک کو اپنی ملکیت سمجھتاتھا اوراس کا اتنا ہی خیال رکھتاتھا جتنا لوگ اپنی ملکیت کارکھتے ہیں، رعایہ کو وہ کماؤ اولاد سمجھتاتھا اوراتنی محبت کرتاتھا جتنی والدین کماؤ اولاد کے ساتھ کرتے تھے۔ ضرورت ہوتی تو بادشاہ ایک آدھ وزیر بھی رکھ لیتا تھا یہ وزیروں عرف سفید ہاتھیوں کی فوج ظفر موج نہیں ہوتی تھی ، یہ مشیر،صلاح کار، معاونین اورترجمان بالکل نہیں ہوتے تھے جنھیں ملک کے خوراکی پھوڑے یاناسور بھی کہاجاتاتھا یہاں تک کہ بیرسٹر بھی نہیں ہوتے تھے جنھیں جھوٹ کے مینار کہاجاتا ہے ۔

پھر نا جانے کیا ہوا ، کیوں ہوا کیسے ہوا ، شاید خدا انسانوں سے ناراض ہوگیا کہ یونان میں ایک قبیلہ ط، ق یاق، ص پیدا ہوا اوراس میں بے شمار ط،ق یا ق، ص پیداہونے لگے ، سقراط ،بقراط، طمطراق، طقماق، دمیقراط، افلاطون، ارسطو ،قرسطو، طرسطو وغیرہ اور انھوں نے ساری دنیا کو اپنے زہلے دانش سے بھر دیا۔ بے چارے سادہ دل اورمعصوم انسان ناپید ہونے لگے اوران کی جگہ ’’دانادانشور‘‘ انسانیت کو ڈسنے لگے حالانکہ اس سے پہلے جنت کازمانہ تھا ۔

بہشت آں جاکہ آزارے نہ باشد

کسے رابا کسے کارے نہ باشد

اور پھر ہرکسے کو ہر کسے کے کارے میں ٹانگ اڑانے کاسلسلہ شروع ہوگیا ۔ باقی تو جتنے ط ق ک ظ،ص تھے وہ بھی دنیا کو بہت سارا زہریلا آزارے دے گئے لیکن ان میں سے ایک جو دمیقراط نام کاق ط تھا اس نے تو دنیا کو دو جہنم دے دیے ان میں سے ایک تو گرم جہنم تھا جسے اس نے آتوم یاایٹم کہا اوردوسرا سرد سقر تھا بلکہ ہے جسے جمہوریت کہتے ہیں

اس جمہوریت نامی بلا کے سیکڑوں ’’سر‘‘ ہوتے ہیں۔ سربھی ایسے کہ ایک کاٹو تووہاں دوسرا اورنکل آتا ہے ، اس جمہوریت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ بادشاہوں کاکوئی شمار ہوتاہے نہ وزیروں کی کوئی قطار، نہ شہزادوں کاکوئی حساب ہوتاہے نہ شہزادیوں کی ، اس کے علاوہ ان کے ساتھ اپنے زیادہ وغیرہ وغیرہ بھی چپکے ہوئے ہوتے ہیں کہ کسی جیب کو بھی حاجت رفو نہیں رہتی ۔

سب سے بڑی بات اس میں یہ ہوتی ہے کہ انسان اورانسانی خون کے علاوہ باقی سب کچھ مہنگا ہوجاتاہے ، انسان ہندسے اوراعداد بن جاتے ہیں اورمسائل کے پولٹری فارم کھل جاتے ہیں، انسان کاخانہ چیونٹیوں کاماتم خانہ بن جاتا ہے، خوشی بانجھ ہوجاتی ہے اوراس کابھائی غم کثرت اولاد کاشکار ہوجاتاہے ۔

اس یونانی بے وقوف دانشوراوراحمق دانا کی نادانی بے وقوفی اورحماقت کے لیے اس سے بڑی دلیل کیاہوگی کہ اس نے جن دوچیزوں کی نشان دہی کی تھی ان دونوں کی انسان نے وہ مٹی پلید کی کہ وہ حشر نشر کی کہ دونوں ہی کسی اورکو تو کیاخود اپنے آپ کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے ۔

اگر وہ کمبخت یہ نہ کہتا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ذرہ ہے تو آج انسان اس ناقابل تقسیم ذرے کو تقسیم درتقسیم کرکے اورتوڑپھوڑ کرکے ، دنیا اورانسانوں کے توڑ کرکے دنیا اورانسانوں کے توڑپھوڑ کے لیے استعمال نہ کررہا ہوتا۔اوراگر وہ اس بدبخت منحوس انسان چوس جمہوریت کاڈھول نہ پیٹتا کہ عوام پر عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے تو آج عوام پر لٹیروں کی حکومت لٹیروں کے ذریعے کرنے کی یہ لعنت نہ ہوتی ۔

اس ناہنجار نابکار سراسر آزار دمیقراط نے دراصل وہ کام کیاہے جو دو لڑنے والوں کے درمیان ایک تیسرے خیر خواہ نے کیاتھا وہ دو آدمی کسی بات پر لڑ رہے تھے دونوں میں مکالات چل رہاتھا کہ اس تیسرے نے ایک طرف پڑی ہوئی کلہاڑی کو دیکھا اورخاص خیرخوانہ بلکہ دمیقرانہ اندازمیں زورزوسے بولنے لگا۔

خداخیر کرے دونوں کی نظر کلہاڑی پر نہ پڑے۔ دونوں نے سن لیا اورایک نے بڑھ کر کلہاڑی اٹھائی اوردوسرے کاسرپاش پاس کرکے لڑائی ختم کردی اورامن وامان قائم کردیا۔

QOSHE - یونان کا ایک شرپسند دانشور - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

یونان کا ایک شرپسند دانشور

14 0
21.12.2023

[email protected]

ایک زمانہ تھا واہ جی کیازمانہ تھا بلکہ یوں سمجھ لیجیے کہ اس دنیا کاگولڈن بلکہ ’’ڈائمنڈ ایرا‘‘تھا جب اس دنیا کو یہ انتہائی دردناک اذیت اور شرمناک مرض ’’جمہوریت‘‘ لاحق نہیں ہواتھا، ہرملک میں صرف ایک بادشاہ ہوتا تھا جسے لوگ ’’گاڈ دی سیودی کنگ‘‘ کی دعائیں دیتے تھے، چند ملکائیں، چند کنیزیں اورچند خواجہ سرا ہوتے تھے دوچار شہزادے، شہزادیاں ہوتی تھیں۔

بادشاہ ملک کو اپنی ملکیت سمجھتاتھا اوراس کا اتنا ہی خیال رکھتاتھا جتنا لوگ اپنی ملکیت کارکھتے ہیں، رعایہ کو وہ کماؤ اولاد سمجھتاتھا اوراتنی محبت کرتاتھا جتنی والدین کماؤ اولاد کے ساتھ کرتے تھے۔ ضرورت ہوتی تو بادشاہ ایک آدھ وزیر بھی رکھ لیتا تھا یہ وزیروں عرف سفید ہاتھیوں کی فوج ظفر موج نہیں ہوتی تھی ، یہ مشیر،صلاح کار، معاونین اورترجمان بالکل نہیں ہوتے تھے جنھیں ملک کے خوراکی پھوڑے یاناسور بھی کہاجاتاتھا یہاں تک کہ بیرسٹر بھی نہیں ہوتے تھے جنھیں جھوٹ کے........

© Express News


Get it on Google Play