[email protected]

ایک دلچسپ کالم ۔تاریخ میںاپنی قومی احساس کم تری کامطالعہ کریں۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاریخ اتنی سادہ نہیںجتنی ہمارے کچھ دوست بیان کرتے ہیں‘انسانوں کی نسلی اور گروہی حد بندیاں بہت پیچیدہ عمل سے ہوکر آج تک پہنچی ہیں ’’اب ہم جہاںپر ہیں اور جیسے ہیں‘‘ پر فخر کرنا سیکھنا چائیے۔

جب ڈیڑھ ہزار برس قبل مسیح میں وسطی ایشیاء کے خانہ بدوش آریائی قبائل مشرقی یورپ اورجنوبی ایشیا میں پھیلنے شروع ہوئے تو جہاں جہاں انھوں نے مستقل بستیاں بسائیں ‘وہاں وہاں کے ہو رہے ‘یورپ میں ان کی شناخت سلاوک اورجرمن ہوئی ‘ایشیاء میں ایرانی‘ پختون اور جنوبی ایشیاء میں ہندو کہلانے لگے۔

آریاؤں کے برعکس سامی النسل یہودی 3500سال کی دربدری کے باوجود آج بھی الگ شناخت رکھتے ہیں ، اس دوران انھوں نے کم از کم ایک مرکز ایسا بنا لیا ہے ‘جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہودی بھلا کسی ملک میں رہتا ہو‘وہ پہلے یہودی ہے پھر کچھ اوراسی لیے دنیا کے کسی کونے سے جو بھی یہودی چاہے، اپنی غیر اسرائیلی شناخت سمیت اسرائیل میںآباد ہو سکتا ہے۔کم و بیش یہی حال سامیوں کے دوسرے گروہ عربوں کا بھی ہے‘ وہ اسلام سے پہلے بھی عربی تفاخرمیں مبتلا تھے‘اور اسلا م کے بعد بھی عرب عصبیت دماغ سے نہ نکال سکے۔

سلطنت عثمانیہ کی فوج میں بھرتی کے لیے یمن سے آنے والا چاؤش بھلا کتنا ہی باتیں کرلیں‘آج ڈھائی سو برس بعد بھی اس کی آٹھویں نسل خواب میں یمن دیکھتی ہے۔ عربی (صاحب السان ) اور عجمی (اجنبی اور گونگا)اور جو عرب اس نفسیات سے بظاہر انکار کریں‘انھیں ذرا دس منٹ کرید کر دیکھ لیں، پھر وہ آپ کو دیکھ لیں گے اور یہ صرف عربوں کا حال نہیں ‘صحرائے اعظم کا بربر اور نائیجیریا کا بلالی مسلمان ہو یا بپتسما زدہ جنوبی سوڈانی عیسائی زادہ‘خود کو بیچ ڈالے گا مگر اپنی افریقی شناخت کسی قیمت پر فروخت نہیں کرے گا۔

رہاجنوبی ایشیاء تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں یا غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں دیکھتے ہیں‘ انھیں زمین زادہ ہونے پر اتناہی فخرہے‘ جتنا مسلمان‘ ہندو یا بدھ ہونے پر‘یہی حال ملائی اور انڈونیشینز کابھی ہے ‘عقیدہ خواہ کچھ بھی ہو ، ان کی شناخت ، جینا مرنا اپنے جنم بھومی سے وابستہ ہے‘ ان کے پرکھے ہزاروں برس پہلے کہیں سے بھی آئے ہوں، ان کی بلا سے۔

مگر (سوائے بنگال کے)‘جنوبی ایشیاء کے مسلمان کون ہیں؟اگر تو یہ اسی دھرتی کے ہیں تو پھر باہر کیوں دیکھتے ہیں اور اگر یہ باہر کے لوگ ہیں تو پھر جہاں جہاںکے ہیں تو وہاں کے لوگ انھیں اپنا تسلیم کیوں نہیں کرتے ‘یہ کب تک شناخت کے صحراء میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کے روحوں کو کب قرار آئے گا اور دل و دماغ کب سمجھیں گے کہ تمہارا اصل کس مٹی میں ہے؟

آج آپ خود ہی سوچیے کہ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک‘عرب ‘ایران‘افغانستان اور وسط ایشیاء سے زیادہ سے زیادہ کتنے ترک ‘پٹھان‘ ایرانی‘ کرد‘ کاکیشیائی فوجی ‘امرائ‘درویش یا ہنر مند آکر برصغیر میں بس گئے ہوں گے۔دس لاکھ‘ بیس‘ تیس لاکھ‘پچاس لاکھ‘ حد ایک کروڑ‘آج بھارت اور پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد38سے 40کروڑ بتائی جاتی ہے۔

سب سے زیادہ سید جنوبی ایشیاء میں ہیں اور سب کے شجرے ایران‘بخارا اورحجاز سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوتے ہیں یقیناً منگولوں کے حملوں کے بعد بالخصوص بخارا ‘سمر قند، ایران اورعربستان کے لوگوں نے برصغیر کی جانب ہجرت کی مگرکیا یہ تمام کے تمام علمائ‘ صوفیاء اوراشرافیہ ہی تھے؟کوئی ایک آدھ ترکھان ‘ کمہار، جولاہا‘لوہار‘مزدور، فنکار اور کاشتکار بھی توان علاقوں سے آیا ہوگا‘وہ آج کہاںہیں؟

کہا جاتاہے کہ ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی ‘خاندان غلاماں سے مغلوں تک سب یہیں آکر بسے ‘مقامی رسوم و رواج سے بھی متاثر ہوئے اور اپنی روایات سے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا،یہ بھی قابل غور ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد بیشتر مغل آخر پنجاب میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں؟ پاکستان کے دیگر صوبوں میں اتنے کیوں دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سے پختونوں کا خیال ہے کہ وہ مقامی یا آریائی نسل نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا بارھواں گمشدہ قبیلہ ہیںتو پھر باقی گیارہ قبیلوں کے وارث انھیں اپنا گمشدہ بھائی تسلیم کیوں نہیں کرتے؟ آپ کہیں گے چونکہ بنی اسرائیل کا یہ قبیلہ‘ مسلمان ہوگیا‘ اس لیے یہودی کیوں انھیں تسلیم کرنے لگے۔

توعرض یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی دو سرکاری زبانیں ہیں۔ عبرانی اور عربی۔ اسرائیل کی بیس فی صد آبادی عرب مسلمانوں پرمشتمل ہے(مقبوضہ علاقوںکے فلسطینیوں کو نکال کر)۔اوریہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اسرائیلی ریاست کی شہریت یہود النسل ہونا ہے، آپ بھلے اسرائیل سے نفرت کرتے رہیں لیکن اپنا DNA ٹیسٹ کروا کر یہ اطمینان تو کرلیں کہ آپ اصل میں ہیں کون؟(اصلی آریائی نسل کے سینٹرل ایشیائی پختون اگر اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں توان پر ترس ہی کیا جاسکتا ہے)۔

سندھی اتنے قوم پرست ہیں کہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ دیسوں‘‘۔لیکن جہاں جڑوں کی بحث چھڑتی ہے تو کلہوڑے اور داؤد پوترے فوراً سلطنت عباسیہ سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں‘تالپور ‘چانڈیہ ‘جتوئی ‘زرداری وغیرہ بلوچ ہیں اور بلوچ خود کو کردوں کا ایک قبیلہ سمجھتے ہیں‘صرف براہوی ایسے ہیں جو خودکویہاںکاکہتے ہیں‘ سومرو نہ جانے کب سے سندھی ہیں مگر گفتگو میں وہ آپ کو عربستان سے اپنی آمد کا بتانا نہیں بھولیں گے۔

سید ایسوسی ایشن بھی آپ کو سندھ میں ہی ملے گی‘ سندھ کے سماٹ قبائل‘ خود کو یہاں کا بتاتے ہیں لیکن کسی کو بھی یہ کہنا سننا اچھا نہیں لگتا کہ ان کے پرکھے راجہ داہر کی بھی رعایا اور ہم مذہب رہے ہوںگے۔میں بہت سے سندھی دوستوںکو جانتا ہوں جوخود کو فخریہ سماٹ بھی کہتے ہیں اور اگلی سانس میں یہ بھی جتاتے ہیںکہ وہ محمد بن قاسم کے سا تھ یا فورًا بعد سے یہاں آباد ہیں۔

قبل از ضیاء دور کے تعلیمی نصاب میں کم ازکم اتنا ضرور تھاکہ موہن جودڑو ‘ہڑپہ اور ٹیکسلا کو بھی پاکستان کا تہذیبی و نسلی ورثہ شمار کیا جاتا تھا لیکن اب سے پانچ برس پہلے جب میںنے موہنجودڑو میوزیم کے ایک کیوریٹر سے ان آثارکی دن بدن خستہ حالی کی بابت پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ تو ہندؤں کا ورثہ ہے ‘ہندو تویہاں سے چلے گئے ‘ہم سے جتنی دیکھ بھال ہو سکتی ہے۔کر رہے ہیں‘ ابھی اور کیا کریں سائیں۔

ایک جانب تو برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ کہ ان کی رگوں میں آج بھی وسطی ایشیاء ، ایران سے لے کے حجاز اوریمن تک کا خون دوڑ رہا ہے اور اسی سبب سے ان مقامات سے ان کی عقیدت بھی باقی دنیا کے مسلمانوںکے مقابلے میں دوچند ہے۔

جب تک اندر کے بجائے باہر دیکھنے کی عادت رہے گی ‘تب تک نہ اپنی نگاہوں میں اپنی توقیر ہو سکتی ہے اور نہ دوسروں کی نظروں میں ۔پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے ‘مگر یہ محاورہ سچ ہونا تب ہی ممکن ہے کہ خود کو غیر برصغیری ، تھنک سنڈروم سے آزاد کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے اوران مسلمان قوموں سے سبق لیا جائے جو اپنی اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں مگر ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑتا‘آپ یہاں کے ہیں اور یہیں رہیںگے ‘بھلے آپ مانیں یا نہ مانیں ‘دوسرے آپ کو یہی مانتے ہیں۔(وسعت اللہ خان کے کالم سے ماخوذ)

QOSHE - کیا ہم احساس کمتری کا شکار ہیں؟ - جمیل مرغز
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کیا ہم احساس کمتری کا شکار ہیں؟

11 0
15.12.2023

[email protected]

ایک دلچسپ کالم ۔تاریخ میںاپنی قومی احساس کم تری کامطالعہ کریں۔اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاریخ اتنی سادہ نہیںجتنی ہمارے کچھ دوست بیان کرتے ہیں‘انسانوں کی نسلی اور گروہی حد بندیاں بہت پیچیدہ عمل سے ہوکر آج تک پہنچی ہیں ’’اب ہم جہاںپر ہیں اور جیسے ہیں‘‘ پر فخر کرنا سیکھنا چائیے۔

جب ڈیڑھ ہزار برس قبل مسیح میں وسطی ایشیاء کے خانہ بدوش آریائی قبائل مشرقی یورپ اورجنوبی ایشیا میں پھیلنے شروع ہوئے تو جہاں جہاں انھوں نے مستقل بستیاں بسائیں ‘وہاں وہاں کے ہو رہے ‘یورپ میں ان کی شناخت سلاوک اورجرمن ہوئی ‘ایشیاء میں ایرانی‘ پختون اور جنوبی ایشیاء میں ہندو کہلانے لگے۔

آریاؤں کے برعکس سامی النسل یہودی 3500سال کی دربدری کے باوجود آج بھی الگ شناخت رکھتے ہیں ، اس دوران انھوں نے کم از کم ایک مرکز ایسا بنا لیا ہے ‘جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہودی بھلا کسی ملک میں رہتا ہو‘وہ پہلے یہودی ہے پھر کچھ اوراسی لیے دنیا کے کسی کونے سے جو بھی یہودی چاہے، اپنی غیر اسرائیلی شناخت سمیت اسرائیل میںآباد ہو سکتا ہے۔کم و بیش یہی حال سامیوں کے دوسرے گروہ عربوں کا بھی ہے‘ وہ اسلام سے پہلے بھی عربی تفاخرمیں مبتلا تھے‘اور اسلا م کے بعد بھی عرب عصبیت دماغ سے نہ نکال سکے۔

سلطنت عثمانیہ کی فوج میں بھرتی کے لیے یمن سے آنے والا چاؤش بھلا کتنا ہی باتیں کرلیں‘آج ڈھائی سو برس بعد بھی اس کی آٹھویں نسل خواب میں یمن دیکھتی ہے۔ عربی (صاحب السان ) اور عجمی (اجنبی اور گونگا)اور جو عرب اس نفسیات سے بظاہر انکار کریں‘انھیں ذرا دس منٹ کرید کر دیکھ لیں، پھر وہ آپ کو دیکھ لیں گے اور یہ صرف عربوں کا حال نہیں ‘صحرائے اعظم کا بربر اور نائیجیریا کا بلالی مسلمان ہو یا بپتسما زدہ جنوبی........

© Express News


Get it on Google Play