[email protected]

کیفی اعظمی، شوکت اعظمی، شبانہ اعظمی، بابا اعظمی، تنوی اعظمی اور جاوید اختر یہ ہے رشتوں کی کہکشاں جو شبانہ کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔

چلیے ملتے ہیں سب سے پہلے کیفی اعظمی سے جو شبانہ کے والد تھے۔ 14 جنوری 1919 کو اعظم گڑھ کے نزدیک ایک گاؤں مجوا میں پیدا ہوئے۔ نام رکھا گیا اطہر حسین رضوی، لیکن دنیا میں پہچانے گئے کیفی اعظمی کے نام سے۔ والد اور بڑے بھائی بھی شاعر تھے۔

کیفی نے گیارہ برس کی عمر میں ایک غزل لکھی اور اسے مشاعرے میں پڑھا۔ لوگوں کو یقین نہ آیا کہ گیارہ برس کا بچہ اتنی پختہ غزل لکھ سکتا ہے لیکن بعد میں یہ غزل بیگم اختر نے گائی۔ دراصل کیفی نے ہوش سنبھالتے ہی اردو اور فارسی کے شعرا کی کتابیں پڑھنی شروع کردی تھیں، تعلیم لکھنو میں حاصل کی اور ترقی پسند تحریک میں شامل ہو کر مارکسی نظریات کو اپنا لیا، وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن تھے۔

انھوں نے ایک ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ جوش، فراق اور جگر ان سے سینئر تھے جب کہ ساحر، مجروح سلطان پوری، سردار جعفری، مجاز لکھنوی، فیض اور مخدوم ان کے ہم عصر تھے۔ کیفی نے سب سے پہلے 1952 سے گیت نگاری کا آغاز کیا اور شاہد لطیف کی فلم ’’ بزدل‘‘ کے لیے گیت لکھے، اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔

بھارتی سینما اور شاعری کی تاریخ میں کیفی کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، عورت، ابن مریم اور ’’مکان‘‘ مشہور نظمیں ہیں۔ انھوں نے 90 فلموں کے لیے 250 گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ خاص کر فلم پیاسا اور ’’ ارتھ‘‘ کے لیے لکھے گئے گیت:

وقت نے کیا کیا حسیں ستم

تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم

٭…٭…٭

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

٭…٭…٭

بہاروں میرا جیون بھی سنوارو

کوئی آئے کہیں سے

٭…٭…٭

ہو کے مجبور مجھے اس نے بلایا ہوگا

زہر چپکے سے دوا جان کے کھایا ہوگا

٭…٭…٭

دھیرے دھیرے چل اے دل بے قرار

کوئی آتا ہے

اس کے دامن میں خوشبو ہواؤں میں ہے

اس کے قدموں کی آہٹ فضاؤں میں ہے

یوں تڑپ کے نہ تڑپا مجھے بار بار

کوئی آتا ہے

کیفی نے بہت ساری فلموں کے لیے گیت اور ڈائیلاگ لگے جن میں گرم ہوا، شطرنج، باورچی، حقیقت، پاکیزہ، سات ہندوستانی، کاغذ کے پھول، انوپما ، ہندوستان کی قسم، شعلہ و شبنم، شمع، ارتھ اور ’’ہیر رانجھا‘‘ اول درجے کی کامیاب فلمیں ہیں۔ کیفی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ ’’ سات ہندوستانی‘‘ پر نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا اور ایک بار انھیں ’’ پدم شری‘‘ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ایک بار حیدرآباد دکن میں گرلزکا مشاعرہ ہوا، شاعروں میں کیفی بھی تھے، مشاعرے کے بعد لڑکیاں شاعروں سے آٹو گراف لینے لگیں، انھی لڑکیوں میں شوکت بھی تھیں جن کی آٹو گراف بک پہ کیفی نے کچھ ایسا ویسا لکھ دیا۔

بس یہیں سے شوکت اور کیفی کی پریم کہانی شروع ہوگئی، شوکت کے والد ان کی شادی کیفی سے کرنے کے حق میں نہیں تھے، کیونکہ کیفی کے مالی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے مگر شوکت نے اپنے والد سے کہا کہ ’’ اگر کیفی مزدوری بھی کریں گے تو میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں گی‘‘ شوکت اعظمی 1928 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں، وہ شادی کے بعد فلموں اور تھیٹر میں کام کرنے لگیں کہ کیفی کی آمدنی بہت کم تھی، دونوں مل کر گھر چلا رہے تھے۔

شوکت اعظمی نے جن فلموں میں نہایت جان دار اداکاری کی ان میں امراؤ جان، حقیقت، گرم ہوا، ہیر رانجھا، سلام بمبے، بازار، سادھنا، جرم و سزا، دھوپ چھاؤں اور ’’سادھنا‘‘ شامل ہیں۔ خاص کر امراؤ جان میں نائیکہ کا کردار بہت خوبی سے نبھایا، یہی کردار پاکستانی ’’ امراؤ جان ادا‘‘ میں نیئر سلطانہ نے کیا خوب نبھایا تھا۔ شوکت شہر شہر جا کر تھیٹر بھی کیا کرتی تھیں، انھوں نے اپنے کمیونسٹ شوہر کا ساتھ نہایت ایمان داری سے نبھایا اورکبھی شکایت نہ کی۔ 22 نومبر 2019 میں انتقال ہوا۔

شبانہ اعظمی کا ایک بھائی ہے بابا اعظمی، جو ایک نہایت کامیاب سینماٹو گرافر ہے جس نے تنوی سے شادی کی ہے جو اداکارہ بھی ہے اور ماضی کی مشہور اداکارہ اوشا کرن کی بیٹی ہیں۔ شبانہ کا جنم کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی کے آنگن میں 18 ستمبر 1950 کو ہوا۔ اداکاری کی صلاحیت انھیں ورثے میں ملی، پہلی ہی فلم میں سپورٹنگ ایکٹریس کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ شبانہ کو بمبئی کے ایک علاقے گونڈی کے ایک اسکول میں داخل کرا دیا گیا، لیکن شبانہ کو یہ اسکول پسند نہ تھا، وہ پاؤں پٹختی ہوئی اسکول جایا کرتی تھیں۔

شبانہ کی یہ کیفیت دیکھ کر کیفی صاحب نے طے کیا کہ شبانہ کو کسی بہت اچھے اسکول میں داخل کیا جائے، اس کے لیے انھیں بہت محنت کرنی تھی، کیونکہ اچھے اسکولوں کی فیس بہت زیادہ تھی، لیکن کیفی صاحب نے ٹھان لی تھی کہ بیٹی کو بڑے اسکول میں پڑھائیں گے۔

لہٰذا شبانہ کے لیے کوئن میری اسکول کا انتخاب کیا گیا، لیکن وہاں یہ مسئلہ تھا کہ اسکول میں صرف انھی بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا جس کے ماں اور باپ دونوں کو انگریزی بولنی آتی ہو۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ کیفی اعظمی کے قریبی دوست اور ان کی بیوی شبانہ کے ماں باپ بن کر اسکول پہنچے اور اس طرح شبانہ کا داخلہ کوئن میری اسکول میں ہو گیا۔

شبانہ کو ایک دفعہ جیا بہادری کی فلم ’’سمن‘‘ دیکھنے کا موقع ملا وہ جیا بہادری کی اس فلم سے اتنی متاثر ہوئیں کہ فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا اور انھوں نے فلموں کی ایکٹنگ سیکھنے کے لیے (FTII)میں داخلہ لیا، وہاں ان کے سینئر تھے فاروق شیخ۔ کالج سے سائیکالوجی میں ڈگری لینے کے بعد انھوں نے فلموں میں کام کرنا شروع کیا۔

1972 میں انھوں نے خواجہ احمد عباس کی فلم فاصلہ میں کام کیا۔ انھی دنوں کانسی لال راٹھور کی فلم میں بھی کام کیا۔ ان دونوں فلموں سے پہلے فلم ’’انکر‘‘ ریلیز ہوگئی جو شیام بینگل نے بنائی تھی، اس فلم پر انھیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی ایکٹنگ کو بہت پسند کیا گیا، شبانہ نے آرٹ فلموں اور کمرشل فلموں دونوں میں کام کیا۔ انھوں نے آرٹ سینما اور کمرشل سینما میں ایک پل کا کام کیا۔ شبانہ اعظمی نے اداکاری کا کورس فلم اینڈ ٹیلی وژن انسٹیٹیوٹ آف انڈیا (FTII) سے کیا، تب فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ( جاری ہے)

QOSHE - شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان (پہلا حصہ) - رئیس فاطمہ
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

شبانہ اعظمی اور ان کا خاندان (پہلا حصہ)

11 0
15.12.2023

[email protected]

کیفی اعظمی، شوکت اعظمی، شبانہ اعظمی، بابا اعظمی، تنوی اعظمی اور جاوید اختر یہ ہے رشتوں کی کہکشاں جو شبانہ کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔

چلیے ملتے ہیں سب سے پہلے کیفی اعظمی سے جو شبانہ کے والد تھے۔ 14 جنوری 1919 کو اعظم گڑھ کے نزدیک ایک گاؤں مجوا میں پیدا ہوئے۔ نام رکھا گیا اطہر حسین رضوی، لیکن دنیا میں پہچانے گئے کیفی اعظمی کے نام سے۔ والد اور بڑے بھائی بھی شاعر تھے۔

کیفی نے گیارہ برس کی عمر میں ایک غزل لکھی اور اسے مشاعرے میں پڑھا۔ لوگوں کو یقین نہ آیا کہ گیارہ برس کا بچہ اتنی پختہ غزل لکھ سکتا ہے لیکن بعد میں یہ غزل بیگم اختر نے گائی۔ دراصل کیفی نے ہوش سنبھالتے ہی اردو اور فارسی کے شعرا کی کتابیں پڑھنی شروع کردی تھیں، تعلیم لکھنو میں حاصل کی اور ترقی پسند تحریک میں شامل ہو کر مارکسی نظریات کو اپنا لیا، وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن تھے۔

انھوں نے ایک ادبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ جوش، فراق اور جگر ان سے سینئر تھے جب کہ ساحر، مجروح سلطان پوری، سردار جعفری، مجاز لکھنوی، فیض اور مخدوم ان کے ہم عصر تھے۔ کیفی نے سب سے پہلے 1952 سے گیت نگاری کا آغاز کیا اور شاہد لطیف کی فلم ’’ بزدل‘‘ کے لیے گیت لکھے، اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔

بھارتی سینما اور شاعری کی تاریخ میں کیفی کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے، عورت، ابن مریم اور ’’مکان‘‘ مشہور نظمیں ہیں۔ انھوں نے 90 فلموں کے لیے 250 گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ خاص کر فلم........

© Express News


Get it on Google Play