[email protected]

یہ جو سفید چمڑی کے لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہی چالاک خطرناک اورناک ناک ہوتے ہیں، اوپر سے بگلا اوربطخ پہن کر اندر چیل، کوے اورگدھ پالے ہوئے ہوتے ہیں، ویسے تو یورپ اورامریکا والے سب کے سب سفید فام ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں لیکن پھر ان میں یہ فرنگی اورانگریز سب کے ’’گرو‘‘ ہوتے ہیں، آدھی سے زیادہ دنیا پر ان مٹھی بھر لوگوں نے یونہی حکومت نہیں بلکہ اپنے ایجاد کردہ خطرناک ہتھیار استعمال کرکے کی ہے۔

انھوں نے جو جنگی ہتھیار ایجاد کیے، وہ کچھ کم خطرناک نہیں ہیں لیکن ان کے ایجاد کردہ وہ ہتھیار اورزیادہ خطرناک ہیں جو دکھائی نہیں دیتے، صرف سنائی دیتے ہیں، ان ہتھیاروں میں پھر انتہائی درجے کاہتھیار تو وہ ہے جسے ’’ڈیوائڈاینڈ رول‘‘ کہاجاتاہے، یہی وہ ہتھیار ہے جس کی برکت سے چیونٹی یا چوہا ہاتھی کے اوپر سواری کرتی ہے اورہاتھی ذرا بھی برا ماننے کے بجائے فخر کرتا ہے اور’’گاڈ سیو دی کنگ‘‘ گاتا ہے۔

اسی ہتھیار سے چند لوگوں کا ایک ٹولہ یاگینگ کروڑوں عوام کالانعام پرحکومت کرتاہے ، ویسے تو اس ہتھیار میں کبھی کبھی نسل، زبان، قومیت یا علاقائیت کا بارود بھی استعمال ہوتاہے لیکن بہترین نتائج ’’مذہبی بارود‘‘ بھرنے سے حاصل ہوتے ہیں ، کہاجاتاہے کہ جب ہلاکو خان بغداد پر حملہ آورہوا تو شہرکے عام لوگوں سے لے کر اہل علم تک مذہبی معاملات پر بحث کرنے میں مصروف تھے ۔

لیکن آج ہم اس ہتھیار کابھی ذکر نہیں کررہے ہیں کیوں کہ اس کی تباہی سے ایک دنیا واقف ہے اورخاص طورپر مسلمان تو اورزیادہ واقفیت رکھتے ہیں کہ ابھی تک اس کی برکت سے تقریباً ایک ہزار فرقے تو ہوہی چکے ہوں گے ، جب حافظ شیرازی کے وقت میں بہتر تھے تو آج کتنے ہوں گے۔

جنگ ہفتادو دوملت ہمہ راغد ربفہ

چوں نہ دبدند حقیقت رہ افسانہ زدند

بلکہ جس ہتھیار کاہم ذکر کرناچاہتے ہیں اس کا نام ’’کرومت کہو‘‘ یاکہومت کرو۔ یعنی دائیاں دکھا کر بایاں مارو۔ ایک دانشورنے اس کی تشریح یوں کی ہے۔ جو کرو وہ دکھائی نہ دے اورجو دکھائی دے وہ مت کرو۔

ایک اور دانشورنے یوں تشریح کی ہے کہ آج کی دنیا میں اور پھر خاص طورپر سیاست کی دنیا میں جو ہوتا ہے، وہ دکھائی نہیں دیتاہے اورجو دکھایاجاتاہے اسے ہونے نہیں دیا جاتاہے اوراس کا تحریری بلکہ مطبوعہ ثبوت بھی موجود ہے بلکہ ہرروز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، اخبارات میں بیانات کی شکل میں۔یہ بیانات مسلسل چلے آرہے ہیں کیوں کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی ایک ’’پیراڈائزلاسٹ‘‘ بنانے کے بیانات آرہے تھے ۔

معاف کیجیے! ہم اصل موضوع سے پھر بھٹک گئے، دراصل یہ جن لوگوں کاہم ذکر کررہے ہیں یعنی جو اندرکے چیل ،کوئوں اورگدھوں کو باہرکے ’’بگلے بطخ‘‘ سے چھپاتے ہوئے رہتے ہیں ، ان کے ’’گل اورگن‘‘ اتنے زیادہ ہیں کہ

دامان نگہہ تنگ وگل حسن تو بیسار

کی کیفیت آجاتی ہے، ہم دراصل بتانا یہ چاہتے ہیں کہ خود تو اپنی ’’سیاہی‘‘ کو سفیدی سے ڈھانپے رہتے تھے لیکن ہمیں جو نظام عدل وانصاف دے گئے ہیں، اس میں سفیدی کو سیاہی سے ڈھانپا جاتاہے۔ پہلے تو وہ ’’مورتی‘‘ جس کاذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں جس کے ہاتھ میں ’’ترازو‘‘ ہوتاہے، لوگ اس کو انصاف کی دیوی کہتے ہیں جب کہ اس کی آنکھوں پر کالے رنگ کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔ سوچتا ہوں، آخر اس مورتی کا رنگ بالکل انھی گوروںکی طرح سفید براق کیوں ہے؟ اور آنکھوں پر کالی پٹی کیوں باندھی گئی ہے ؟

بہت کچھ سوچنے پر بھی یہ ’’سفیدے‘‘ ہماری سمجھ میں نہیں آتے، صرف یہ ہی نہیں کہ خود کو باہرسے سفید ہو کر اندر اندھیرے چھپائے رہتے ہیں اوردوسروں کی اندر کی سفیدی پر اپنے اندر کی سیاہی پہناتے ہیں، اس سیاہ سفیدکی کھلاڑی قوم پر ہمیں اپنا ایک مرحوم پروفیسر دوست یاد آیا، اس نے انگریزی ادب میں انگلینڈ سے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اورپھر اسلامیہ کالج پشاور میں پروفیسر ہوگیا تھا لیکن عام زندگی کی، عام باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، ایک دن ہم لیڈی ریڈنگ اسپتال کی چڑھائی میں ایک میڈیسن کی دکان میں بیٹھے تھے ،پروفیسر اورچند دوسرے دوست بھی تھے، سڑک پر ایک بہت ہی کالاآدمی گزرا تو غلام عباس نے طنزیہ طورپر کہا، نظر نہ لگے، بہت ہی سفید آدمی ہے۔

پروفیسر فوراً حیران ہوکربولا ، غلام عباس صاحب! آپ اس رنگ کو سفید کہہ رہے ہیں مگر میں تو اس رنگ کو کالا سمجھ رہاتھا ۔ سب سمجھ گئے اورغلام عباس کی تائید کرنے لگے، اس نے پروفیسرسے کہا آپ غلط سمجھ رہے ہیں ، یہ دیکھو یہ کاغذ جو ہے یہ کالا ہے اوراس پر جو لکھائی ہے وہ سفید ہے ، پروفیسر حیران ہوکر کہہ رہاتھا ، کمال ہے میں تو آج تک سفید کو سیاہ اورسیاہ کو سفید سمجھ رہاتھا۔

اس پر ایک اوردوست نے کہا، تم تو صرف سمجھ رہے تھے یہاں کچھ لوگ سیاہ کو سفید اورسفید کو سیاہ کرتے ہیں اورسیاہ و سفید کماتے ہیں، اشارہ بیرسٹر کی طرف تھا ۔ بیرسٹر سمجھ گیا، بولا وہ تو ہم صرف کچہریوں میں کرتے ہیں۔ دوسرا تڑسے بولا ، نہیں اب یہ سیاہ وسفید کرنے والے باہربھی یہ کرنے لگے ہیں اورسیاسی پارٹیوں کے کالوں کو سفید اورمخالف سفیدوںکو کالا کرتے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان کم بخت فرنگیوں نے اپنے ہاں کاسب کچھ الٹ پلٹ کردیا ہے، سمجھ میں نہیں آتا کس کو سفید سمجھیں اورکس کو سیاہ۔

QOSHE - سیاہ وسفید اور سفید وسیاہ - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

سیاہ وسفید اور سفید وسیاہ

10 0
26.11.2023

[email protected]

یہ جو سفید چمڑی کے لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہی چالاک خطرناک اورناک ناک ہوتے ہیں، اوپر سے بگلا اوربطخ پہن کر اندر چیل، کوے اورگدھ پالے ہوئے ہوتے ہیں، ویسے تو یورپ اورامریکا والے سب کے سب سفید فام ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں لیکن پھر ان میں یہ فرنگی اورانگریز سب کے ’’گرو‘‘ ہوتے ہیں، آدھی سے زیادہ دنیا پر ان مٹھی بھر لوگوں نے یونہی حکومت نہیں بلکہ اپنے ایجاد کردہ خطرناک ہتھیار استعمال کرکے کی ہے۔

انھوں نے جو جنگی ہتھیار ایجاد کیے، وہ کچھ کم خطرناک نہیں ہیں لیکن ان کے ایجاد کردہ وہ ہتھیار اورزیادہ خطرناک ہیں جو دکھائی نہیں دیتے، صرف سنائی دیتے ہیں، ان ہتھیاروں میں پھر انتہائی درجے کاہتھیار تو وہ ہے جسے ’’ڈیوائڈاینڈ رول‘‘ کہاجاتاہے، یہی وہ ہتھیار ہے جس کی برکت سے چیونٹی یا چوہا ہاتھی کے اوپر سواری کرتی ہے اورہاتھی ذرا بھی برا ماننے کے بجائے فخر کرتا ہے اور’’گاڈ سیو دی کنگ‘‘ گاتا ہے۔

اسی ہتھیار سے چند لوگوں کا ایک ٹولہ یاگینگ کروڑوں عوام کالانعام پرحکومت کرتاہے ، ویسے تو اس ہتھیار میں کبھی کبھی نسل، زبان، قومیت یا علاقائیت کا بارود بھی استعمال ہوتاہے لیکن بہترین نتائج ’’مذہبی بارود‘‘ بھرنے سے حاصل ہوتے ہیں ، کہاجاتاہے کہ جب ہلاکو خان........

© Express News


Get it on Google Play