[email protected]

پہلے ایک شعر سنیے ۔

رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح

بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہگاروں کی طرح

یہی وہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین تھے جن کے آنے پر اس وقت کی پاکستانی حکومت اور مقتدر لوگ پھولے نہیں سماتے تھے ، اس وقت ضیاء الحق اور ان رفقاء کار کی حکومت تھی،جن ہمارا صوبہ جنرل فضل حق کے حوالے تھا،ان حکمرانوں نے ہم پاکستانیوں کو زبردستی انصار کے منصب پر فائز کیا تھا کیوں کہ ان مہاجروں کے لیے امریکا ، مغربی یورپ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور کوریا وغیرہ بھاری امداد بھیج رہے تھے جو پاکستانیوں کے امانت دار اوردیانت دار ہاتھوں سے ان مہاجروں میں ’’تقسیم‘‘ ہوتی تھیں اورخود حکومت کو بھی ڈالروں میں غیرملکی امداد مل رہے تھے۔

افغان مجاہدین کی قیادت بھی امریکا اور نیٹو کے لاڈلے تھے، وہ بھی بھاری فنڈز وصول کرتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان افغان مہاجروں کو واپس بھیجنے کافیصلہ غلط ہے، حکومت پاکستان کاحق ہے کہ ان کو واپس بھیجے اوران کو واپس جانا بھی چاہیے کیونکہ اب افغانستان ایک بار پھر امارات اسلامیہ کے درجے پر فائز ہوچکا ہے اور وہاں ایماندار مجاہدین حکومت کررہے ہیں۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانستان کے باشندے پورے ملک سے واپس بھیجے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ کئی قسم کے شکوے شکایات کررہے ہیں، مثلاً طورخم بارڈر سے گزرنے میں ’’دقت‘‘ کے باعث ان کیگاڑیاں دیر تک رکی رہتی ہیں، ان میں بیماربھی ہیں، بچے بھی،بوڑھے اورخواتین بھی۔ ان کے علاوہ ان گاڑیوں کاکرایہ بھی بڑھ گیا ہے، جب راستے میں کئی دن گزررہے ہیں تو گاڑیوں کاکرایہ تو بڑھے گا ۔

میںایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ درست ہے اوراس پر کسی کوبھی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر غیرقانونی افغان باشندوں کے انخلا کا میکنزم بہتر بنایا جاتا تو کسی کو منفی باتیں پھیلانے کا موقع ہی نہ ملتا۔ میرے خیال میں دنیا میں یہ ایک معروف اور مناسب طریقہ ہے کہ کسی کو مکان سے یا دکان سے یا نوکری سے نکالنا ہوتو اسے پہلے نوٹس دیاجاتاہے، مناسب مہلت دی جاتی ہے، اس کے بعد اسے نکالنے کے لیے سختی کی جاتی ہے ۔

کوئی کہہ سکتاہے کہ یہاں بھی ’’نوٹس‘‘ دیاجاتا رہاہے لیکن یہ موقف غلط ہوگا کیونکہ بیانات میں کبھی کبھار تو کہاجاتا رہاہے لیکن سنجیدگی سے ’’نوٹس‘‘ کبھی نہیں دیاگیا، صرف کہاجاتارہاہے کہ افغان مہاجرچلے جائیں ،اس طرح کے بیانات تو روزانہ دیے جاتے۔ویسے کسی ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کا کوئی قانونی سٹیس نہیں ہوتا۔

نوٹس اس کوکہتے ہیں کہ جس طرح اب دیا گیا ہے، ویسے ایک دو مہینے پہلے ایسا سخت نوٹس دیا جانا چاہیے تھا یااب ایسے نوٹس دے کر اپنا کاروبار سمیٹنے کے لیے کہہ دیناچاہیے کہ فلاں تاریخ تک نکل جاؤ ورنہ پھر سختی کی جائے گی یاپھر کوئی اورایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا کہ یہ لوگ آرام سے چلے جاتے ۔

پنجاب اور سندھ میں میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو نکالنے کی کارروائی ہورہی ہے ، ایسی اطلاعات بھی جن میں بتایا گیا ہے کہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں پاکستانی پختونوں سے بھی پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ پرانا لطیفہ ہے لیکن ہوسکتاہے کسی نے نہ سنا ہویایاد نہ رہاہو۔

کہتے ہیں کہ ایک لومڑی جنگل میں بے تحاشا بھاگ رہی تھی ،کسی اورجانورنے پوچھا کیوں خالہ، اتنی تیزی سے کیوں بھاگی جارہی ہو ، لومڑی نے کہا، ادھر سرکاری لوگ آئے ہوئے ہیں اوراونٹوں کو پکڑ رہے ہیں، پوچھنے والے نے کہا ، اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں تم تو لومڑی ہو۔لومڑی نے کہا ، اگر کسی نے میرے بارے میںجھوٹ موٹ بھی کہہ دیا کہ یہ لومڑی نہیں اونٹ کا بچہ ہے تو خواری کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔

ہم نے کسی کالم میں کہا بھی ہے اوریہ بالکل سچ ہے کہ ایک مرتبہ پہلے بھی ایسی ایک مہم خیبر پختونخوا حکومت نے چلائی تھی جس کی تعمیل میں پولیس والے نکل پڑے تھے، اس وقت کے پی پولیس سے بھی لوگوں کو شکایات پیدا ہوئی تھیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا طریقہ ہونا چاہیے جس سے نفرتیں نہ بڑھیں۔

QOSHE - ایک ایشو - سعد اللہ جان برق
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

ایک ایشو

12 1
22.11.2023

[email protected]

پہلے ایک شعر سنیے ۔

رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح

بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہگاروں کی طرح

یہی وہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین تھے جن کے آنے پر اس وقت کی پاکستانی حکومت اور مقتدر لوگ پھولے نہیں سماتے تھے ، اس وقت ضیاء الحق اور ان رفقاء کار کی حکومت تھی،جن ہمارا صوبہ جنرل فضل حق کے حوالے تھا،ان حکمرانوں نے ہم پاکستانیوں کو زبردستی انصار کے منصب پر فائز کیا تھا کیوں کہ ان مہاجروں کے لیے امریکا ، مغربی یورپ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور کوریا وغیرہ بھاری امداد بھیج رہے تھے جو پاکستانیوں کے امانت دار اوردیانت دار ہاتھوں سے ان مہاجروں میں ’’تقسیم‘‘ ہوتی تھیں اورخود حکومت کو بھی ڈالروں میں غیرملکی امداد مل رہے تھے۔

افغان مجاہدین کی قیادت بھی امریکا اور نیٹو کے لاڈلے تھے، وہ بھی بھاری فنڈز وصول کرتے تھے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان افغان........

© Express News


Get it on Google Play