اسرائیل فلسطین جنگ میں آگ اور بارود کی مسلسل یلغار کو تقریباً ایک ماہ ہونے کو ہے۔ اس جنگ نے جہاں اسرائیل کے متشدد اور انتہا پسند صیہونیوں کے عزائم کو بے نقاب کیا ہے وہیں جمہوری مزاج کی ترقی یافتہ حکومتوں کی جمہور مزاجی کو بھی بے نقاب کیا ہے۔

امریکا اور برطانیہ سمیت یورپ بھر کی حکومتوں نے جس ڈھٹائی کے ساتھ فلسطین بالخصوص غزہ کے 17 سالہ محاصرے اور ان پر مسلط بربریت کو نظر انداز کیا ہے ، وہ بجائے خود انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

یوکرائن پر روسی حملے پر شدید رد عمل اور اسے ہر طرح کی اخلاقی اور جنگی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش ان مغربی ممالک کے ہاں غزہ میں بربریت کے شکار فلسطینیوں کے لیے ، یکجہتی ایک جرم بن گیا۔ امریکا برطانیہ اور یورپ میں اکثر جگہ یکجہتی کے اظہار میں فلسطین کا پرچم لہرانا حتیٰ کہ نام لینا بھی ایک جرم قرار دے دیا گیا۔عالمی سیاست میں منافقت مفادات کی خاطر ایک سفارتی آرٹ ہے۔

نئے ورلڈ آرڈر میں تجارت، مفادات اور سیاست کچھ یوں گتھے ہوئے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جانچنے کا پیمانہ بھی یک طرفہ ہے۔امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت بالعموم تمام حکومتوں نے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے تباہ کن بمباری کو جائز مانا اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

مغربی میڈیا میں ہر فلسطینی کو حماس کا دہشت گرد قرار دے کر پروگراموں میں شریک ماہرین کو ان کی تنقید پر الفاظ منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیراعظم رشی سوناک تو بنفس نفیس تل ابیب پہنچے اور انتہا پسند جارح نیتن یاہو اور اس کی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا کہ؛ ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔امریکا برطانیہ اور یورپ بھر میں البتہ عوام کی ایک کثیر تعداد نے حکومتی موقف کے برعکس موقف اپنایا۔ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل ریلیاں نکالی گئیں۔

فلسطین کے پرچم لہرائے گئے، سرکاری موقف کے برعکس عوام نے اسرائیل کی طرف سے جاری بربریت، وحشت بارود اور آگ کے الاؤ پر شدید احتجاج کیا۔ہمارے ہاں میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا میں یہودیوں اور صیہونیوں کو ایک ہی بریکٹ میں گنا جاتا ہے۔

شد و مد سے یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ فلسطین کے حق میں بولنے سے پڑھے لکھے لبرل یہودی گریزاں رہتے ہیں۔تمام معاشروں کی طرح اسرائیل میں بھی یہودی رائے اور خیال کے اعتبار سے منقسم ہیں۔

لہٰذا تمام یہودیوں کو ایک ہی بریکٹ میں جاننا مناسب نہیں۔ انتہا پسند اور شدت پسند یہودیوں کو صہیونی کہا جاتا ہے جو اپنی مذہبی روایات کو بنیاد بنا کر اس خطے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تاہم اسرائیل اور امریکا میں موجود بہت سے یہودی صحافی، پروفیسر تاریخ دان اور اسکالرز سالہا سال سے ان شدت پسند اور انتہا پسند صیہونیوں کے خلاف لکھتے اور بولتے آئے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تنقیدی آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت کے موقف کی تنقید پر ان میں سے بیشتر کو بڑی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑتی رہی ہے لیکن وہ فلسطین پر جاری جبر اور انتہا پسند صیہونیوں کے عزائم کے شدید ترین ناقدین رہے ہیں۔ نیتن یاہو اور انتہا پسندوں پر مشتمل حکومت اسرائیل اور امریکا کے ان لبرل اسکالرز اور ناقدین سے شدید تنگ اور نفرت کرتے ہیں۔

دلیل اور مکالمے کے ساتھ بات کرنے والے ان ناقدین کی گفتگو اور تحریریں قابل غور ہیں۔ ان کی تنقید فلسطینی عوام کے لیے حوصلہ افزا آواز ہے۔

ان میں سے چند نمایاں صحافیوں تاریخ دانوں پروفیسرز اور اسکالرز کے نام ذیل میں درج کیے ہیں۔ان اسکالرز کے مضامین، کتابیں اور وڈیوز گوگل یوٹیوب پر موجود ہیں۔ انھیں پڑھنا اور سننا بالکل ایک الگ زاویہ پیش کرتا ہے۔

Gideon Levy, Ilan Pappe, Israel Shahaak, Miko Peledro, Norman Finkelstein…

اسرائیل کا ایک اخبار Haartez

بھی ان معدودے چند میڈیا میں شامل ہے جو انتہا پسند صیہونیوں کے خلاف پیش پیش ہے۔ ذیل میں اس اخبار کے اداریے سے چند اقتباسات پیش ہیں۔ایک ایسے وقت جب اسرائیلی دفاعی افواج غزہ کی پٹی میں اپنی زمینی کارروائیوں کو پھیلا رہا ہے ، دوسری جانب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہاں اسرائیلی بھی ہیں جو جنگ میں ایک اور محاذ شامل کرنا چاہتے ہیں۔

مغربی کنارے میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد سیکیورٹی اہلکار آباد کاروں کی جانب سے علاقے پر قبضہ کرنے، فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور زیتون کے سیکڑوں درختوں کو اکھاڑ پھینکنے، نذر آتش کرنے اور توڑ پھوڑ کے ذریعے دہشت زدہ کرنے کی دانستہ کوشش میں پیش پیش ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اور اسرائیل کے اندر ایسے انتہا پسند عناصر کام کر رہے ہیں جو کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

حکومت انھیں نہیں روکتی اور یہاں تک کہ ان پر کروڑوں شیکل خرچ کرتی ہے، جو رقم حکومت نے آبادکاری کے وزیر اورٹ اسٹروک کے دفتر کے لیے مختص کی ہے، اور اسے عالمی صہیونی تنظیم کے سیٹلمنٹ ڈویژن میں منتقل کیا جائے گا۔آباد کار اسرائیل کو مغربی کنارے میں جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی کنیسٹ کے رکن زیوی سککوٹ مغربی کنارے پر ذیلی کمیٹی کی سربراہی کے لیے اسرائیلی آباد کار مغربی کنارے میں بے دخلی کو روک نہیں رہے ہیں۔

آباد کار نئی چوکیاں قائم کرنے کے لیے جنگ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اجمال اس تفصیل کی لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ اسرائیل اس وقت ایک انتہا پسند صہیونی گروہ کے شکنجے میں ہے۔ عام یہودیوں کی ایک کثیر تعداد اسرائیل اور اسرائیل سے باہر صہیونیت کے جنون سے نبرد آزما ہیں۔

تاہم صہیونی اقلیت نے انھیں بھی غیر موثر بنا کر رکھ دیا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عام یہودی مسلمان اور فلسطین دوستی کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ تاہم ظلم کے خلاف اسرائیل کے اندر بھی آوازیں موجود ہیں اور دنیا بھر میں بھی لیکن نیا ورلڈ آرڈر کولونیل کے نئے بھوت کی صورت میں سامنے ہیں۔

جارح اور مظلوم کی تعریف اس کے ہاں یوکرائن اور فلسطین میں الگ الگ ہے۔ یہ دو عملی اور منافقت کل کی تاریخ کا بھی سفاک سچ تھا اور آج کے حال کا بھی۔

QOSHE - اسرائیل فلسطین جنگ میں ایک منفرد بیانیہ - خالد محمود رسول
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

اسرائیل فلسطین جنگ میں ایک منفرد بیانیہ

7 1
04.11.2023

اسرائیل فلسطین جنگ میں آگ اور بارود کی مسلسل یلغار کو تقریباً ایک ماہ ہونے کو ہے۔ اس جنگ نے جہاں اسرائیل کے متشدد اور انتہا پسند صیہونیوں کے عزائم کو بے نقاب کیا ہے وہیں جمہوری مزاج کی ترقی یافتہ حکومتوں کی جمہور مزاجی کو بھی بے نقاب کیا ہے۔

امریکا اور برطانیہ سمیت یورپ بھر کی حکومتوں نے جس ڈھٹائی کے ساتھ فلسطین بالخصوص غزہ کے 17 سالہ محاصرے اور ان پر مسلط بربریت کو نظر انداز کیا ہے ، وہ بجائے خود انسانی حقوق کے ریکارڈ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

یوکرائن پر روسی حملے پر شدید رد عمل اور اسے ہر طرح کی اخلاقی اور جنگی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش ان مغربی ممالک کے ہاں غزہ میں بربریت کے شکار فلسطینیوں کے لیے ، یکجہتی ایک جرم بن گیا۔ امریکا برطانیہ اور یورپ میں اکثر جگہ یکجہتی کے اظہار میں فلسطین کا پرچم لہرانا حتیٰ کہ نام لینا بھی ایک جرم قرار دے دیا گیا۔عالمی سیاست میں منافقت مفادات کی خاطر ایک سفارتی آرٹ ہے۔

نئے ورلڈ آرڈر میں تجارت، مفادات اور سیاست کچھ یوں گتھے ہوئے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جانچنے کا پیمانہ بھی یک طرفہ ہے۔امریکا، برطانیہ اور یورپ سمیت بالعموم تمام حکومتوں نے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے تباہ کن بمباری کو جائز مانا اور اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

مغربی میڈیا میں ہر فلسطینی کو حماس کا دہشت گرد قرار دے کر پروگراموں میں شریک ماہرین کو ان کی تنقید پر الفاظ منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی........

© Express News


Get it on Google Play