پاکستان میں غربت اور تعلیم کی کمی سے جڑا ایک خطرناک رجحان نظر آتا ہے، وہ ہے کم عمری اور بچپن کی شادیاں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے۔

صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ کم عمری کی شادی کے رواج کی جڑیں ثقافتی اور روایتی اصولوں میں گڑی ہیں، جو غربت، تعلیم کی کمی، اور لڑکیوں کی صحت اور بہبود پر کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کے بارے میں محدود آگاہی کی وجہ سے قائم ہیں۔

کم عمری کی شادی کے اکثر سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے ان کو اکثر تعلیم کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حمل، ولادت کی پیچیدگیوں اور محدود معاشی مواقع کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ عوامل معاشرے میں صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں۔ کم عمر دلہنوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور ان کے گھر والوں میں فیصلہ سازی کی طاقت محدود ہوتی ہے۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 40 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 37 فیصد ہوگئی۔ جیکب آباد میں یہ شرح 47 فیصد تھی جو سال 2019 میں ایک فیصد کم ہوکر 46 ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق کراچی ضلع وسطی میں یہ شرح 14 فیصد تھی جو کم ہوکر 13 فیصد جبکہ کراچی ایسٹ میں 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 22 فیصد تھی جو 2019 میں 21 فیصد ہوگئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانگھڑ میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 36 فیصد تھی جو کم ہوکر 35 فیصد ہوگئی۔ ٹنڈو محمد خان میں 2014 میں یہ شرح 48 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 14 فیصد ہوگئی۔ لاڑکانہ میں کم عمر شادیوں کی شرح 37 فیصد تھی جو کم ہوکر 21 فیصد ہوگئی۔ دادو میں 35 سے 21 اور تھرپارکر میں 50 سے کم ہوکر یہ شرح 36 فیصد ہوگئی، جبکہ 2014 میں خیرپور میرس میں یہ شرح 41 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 29 فیصد ہوگئی۔

اس حوالے سے یونیسیف پاکستان کی جینڈر اینڈ ڈیولپمنٹ ایکسپرٹ فہمیدہ خان کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیاں نوجوان لڑکیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بچپن کی شادیاں ابتدائی حمل میں کم سن ماں اور بچے دونوں کےلیے جسمانی اور ذہنی سنگین خطرات کا باعث بن سکتی ہیں۔

بچپن کی شادیاں نہ صرف لڑکیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ اس کے نتائج نوجوانوں پر بھی ہوتے ہیں۔ کم عمری میں شادی کرنے والے لڑکوں کو اسکول چھوڑنے، کم تنخواہ والی ملازمتوں میں کام کرنے اور ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ جبکہ وہ ایک خاندان کی کفالت کی ذمے داریوں کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں۔ ان کی چھوٹی عمر، ان کی تعلیم، سیکھنے اور ذاتی ترقی کو متاثر کرتی ہے۔ بچپن کی شادیوں میں جوڑے کو اکثر متعدد پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جذباتی اور مالی وسائل کی کمی تعلقات کو کشیدہ کرتی ہیں۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافی ثناء اللہ ہاشمانی کا کہنا ہے کہ سندھ میں کم عمری کی شادی سے نمٹنے کی کوششوں کےلیے ایک نکتہ نظر کی ضرورت ہے جو اس کی بنیادی وجوہات اور اس کے فوری نتائج دونوں کو حل کرے۔ شادی کےلیے کم از کم عمر مقرر کرنے کے لیے حکومتی پالیسیوں اور قانون (سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013) کے اقدامات کو لاگو کیا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لڑکیوں کے بالغ ہونے سے پہلے ان کی شادی نہ کی جائے۔ اس کے ساتھ آگاہی مہم اور تعلیمی اقدامات ہونے چاہئیں جن کا مقصد اصولوں کو تبدیل کرنا، صنفی مساوات کو فروغ دینا، اور لڑکیوں کو اپنی زندگی کے بارے میں باخبر انتخاب کرنے کےلیے بااختیار بنانا ہے۔

سندھ میں کم عمری کی شادی سے نمٹنے کےلیے کمیونٹی کی بنیاد پر مداخلتیں بھی بہت اہم ہیں۔ کم عمری کی شادی کے خاتمے اور لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے پیغامات کو فروغ دینے کےلیے مذہبی اور کمیونٹی رہنماؤں کو شامل کرنا سماجی اصولوں اور طرز عمل کو تبدیل کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

عورتوں اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی سماجی رہنما ماروی اعوان کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی کا عمل بچوں کی زندگی کے تمام مراحل کو پیچیدہ بنادیتا ہے۔ صحت کے ساتھ کمر عمری کا حمل زندگی کےلیے خطرناک ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادیوں سے مسلسل دباؤ اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، جس سے بہت سارے ذہنی مسائل جنم لیتے ہیں۔

بچیوں کی کم عمری کی شادی انہیں صلاحیتوں سے محروم کردیتی ہے۔ اکثر گھروں میں ان بچیوں کو ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، چھوٹی عمر ہونے کے باعث وہ خود کو محفوظ نہیں کرسکتیں۔ جن خاندانوں میں بچی کو بھیجا جاتا ہے وہ بہت ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، اس طرح کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ ماروی اعوان کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز اس لیے رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی قانون موجود ہے یا اس عمل کے کیا نقصانات ہیں۔ ابھی بھی پرانی روایات پر عمل ہورہا ہے، لوگوں تک معلومات درست طریقے سے نہیں پہنچتیں، عوامی لاعلمی کے علاوہ جو ادارے ان قوانین پر عمل کرواتے ہیں، انہیں خود کم عمری کی شادیوں کے قانون کے حوالے سے زیادہ علم نہیں ہوتا، جس کے باعث دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کو ثقافتی و روایتی سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بچیوں کو کیسے محفوظ کرنا ہے؟ کیسے عدالت میں پیش کرنا ہے؟ دارالامان پہنچانا ہے، ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔

دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنواتے، جس کے باعث کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں عمر کا تعین کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے کاغذات بہت ضروری ہیں۔ نکاح خواں کا اہم کردار ہوتا ہے، چائلڈ میرج ایکٹ 2013 میں بہت واضح ہے کہ نکاح خواں کم عمر کے لڑکے یا لڑکی کی شادی کروائیں گے یا کم عمر بچی کی بڑی عمر کے شخص سے شادی کروائیں گے تو انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہاں نکاح خواں عمر کی تصدیق نہیں کرتے اور نکاح پڑھا دیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر نکاح خواں رجسٹرڈ نہیں ہوتے، اور کم عمری کی شادیوں کی رجسٹریشن نہیں کروائی جاتی۔ ان عوامل کی وجہ سے بہت سی کم عمری کی شادیاں رپورٹ نہیں ہوتیں۔

لڑکیوں کےلیے معیاری تعلیم تک رسائی بچپن کی شادی کو روکنے اور لڑکیوں کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کےلیے بااختیار بنانے کےلیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ لڑکیوں کو اسکولوں تک رسائی، محفوظ تعلیمی ماحول اور تعلیمی وسائل میسر ہوں، غربت اور کم عمری کی شادیوں کو روکا جاسکتا ہے، جس سے لڑکیوں کو اپنی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے کے مزید مواقع مل سکتے ہیں۔

سندھ میں کم عمری کی شادی کے مسئلے سے نمٹنے کےلیے متعدد اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ضروری ہے، جن میں سرکاری ایجنسیاں، غیر سرکاری تنظیمیں، کمیونٹی لیڈرز اور بین الاقوامی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان اداروں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی زیادہ موثر اور پائیدار مداخلتوں کا باعث بن سکتی ہے۔

کم عمری کی شادیوں کا خاتمہ نوجوانوں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کےلیے بہت ضروری ہے۔ اس کےلیے موثر کوششوں کی ضرورت ہے جس میں تعلیمی پروگرام، قانونی اصلاحات، اور کمیونٹی بیداری کے اقدامات شامل ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کےلیے معیاری تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔
جبکہ کم عمری کی شادی کے حوالے سے موجود قوانین کا موثر نفاذ بھی ازحد ضروری ہے۔

بچپن کی شادی کے خلاف اور صنفی مساوات کو فروغ دینا اس نقصان دہ سائیکل کو توڑنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک بھر میں کم عمری کی شادی کے خاتمے کےلیے پائیدار نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post کم عمری کی شادی appeared first on ایکسپریس اردو.

QOSHE - کم عمری کی شادی - فہمیدہ یوسفی
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

کم عمری کی شادی

13 2
25.01.2024

پاکستان میں غربت اور تعلیم کی کمی سے جڑا ایک خطرناک رجحان نظر آتا ہے، وہ ہے کم عمری اور بچپن کی شادیاں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے۔

صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ کم عمری کی شادی کے رواج کی جڑیں ثقافتی اور روایتی اصولوں میں گڑی ہیں، جو غربت، تعلیم کی کمی، اور لڑکیوں کی صحت اور بہبود پر کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کے بارے میں محدود آگاہی کی وجہ سے قائم ہیں۔

کم عمری کی شادی کے اکثر سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے ان کو اکثر تعلیم کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حمل، ولادت کی پیچیدگیوں اور محدود معاشی مواقع کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ عوامل معاشرے میں صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں۔ کم عمر دلہنوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور ان کے گھر والوں میں فیصلہ سازی کی طاقت محدود ہوتی ہے۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 40 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 37 فیصد ہوگئی۔ جیکب آباد میں یہ شرح 47 فیصد تھی جو سال 2019 میں ایک فیصد کم ہوکر 46 ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق کراچی ضلع وسطی میں یہ شرح 14 فیصد تھی جو کم ہوکر 13 فیصد جبکہ کراچی ایسٹ میں 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 22 فیصد تھی جو 2019 میں 21 فیصد ہوگئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانگھڑ میں کم عمری کی شادیوں کی شرح 36 فیصد تھی جو کم ہوکر 35 فیصد ہوگئی۔ ٹنڈو محمد خان میں 2014 میں یہ شرح 48 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 14 فیصد ہوگئی۔ لاڑکانہ میں کم عمر شادیوں کی شرح 37 فیصد تھی جو کم ہوکر 21 فیصد ہوگئی۔ دادو میں 35 سے 21 اور تھرپارکر میں 50 سے کم ہوکر یہ شرح 36 فیصد ہوگئی، جبکہ 2014 میں خیرپور میرس میں یہ شرح 41 فیصد تھی جو 2019 میں کم ہوکر 29 فیصد ہوگئی۔

اس حوالے سے یونیسیف........

© Express News (Blog)


Get it on Google Play