اُمیدکے روزن اور پیارا پاکستان
پاکستان میں حالات تو کیا بدلنے ہیں واقعات بھی نہیں بدلتے۔ بس صرف کیلنڈر پرہندسے بدل جاتے ہیں۔ کولہو کے بیل کی مثال اگر کسی پر صادق آتی ہے تو وہ ہم ہیں۔ قومیں تو ایک بار رونما ہونے والے واقعات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتی ہیں، انہیں دوبارہ نہیں ہونے دیتیں، مگر ہم ہیں کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پرانے واقعات کی گردان کرتے نظر آتے ہیں۔ مثالیں تو اس حوالے سے بہت سی ہیں تاہم تازہ مثال اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے چیف جسٹس کو لکھا گیا خط ہے۔ معاملے کو سنجیدہ طریقے سے نمٹانے کی بجائے حکومت نے پھر بچگانہ مداخلت کی، جلد بازی میں وزیراعظم شہبازشریف چیف جسٹس سے ملنے سپریم کورٹ گئے۔ آناً فاناً سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن بنا دیا۔ اب یہ عقدہ کھلا ہے تصدق حسین جیلانی نے حکومت کو ابھی رضامندی نہیں دی تھی، سوچنے کا موقع دینے کو کہا تھا۔اس بات کو وفاقی وزیر قانون نے بھی تسلیم کیا ہے مگر صرف فون پر ان سے بات کرنے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ نتیجہ کیا نکلا کہ انہوں نے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی اپنے خط میں یہ رائے بھی دی کہ چھ ججوں نے یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے معاملے کی انکوائری کے لئے لکھا ہے جو ایک آئینی ادارہ ہے، اس لئے وہ اس کے معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ سوال یہ ہے کیا یہ بات یک رکنی کمیشن بنانے والوں کو پہلے سے معلوم نہیں تھی؟ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے انکار سے معاملہ بگڑا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے اس خط سے پیدا ہونے والی صورت حال کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سات رکنی لارجر بنچ بنا دیا........
© Daily Pakistan (Urdu)
visit website