پنجاب کی کہاوت ہے، ”رنڈی نے رنڈاپا کٹنا چا ہندی اے، مشٹنڈے نئیں کٹن دیندے“ (مطلب یہ کہ بیوہ تو عزت کے ساتھ اپنا وقت گزارنا چاہتی ہے لیکن گلی محلے کے نوجوان ایسا نہیں کرنے دیتے)۔ یہ کہاوت ہمارے ملکی سیاسی حالات پر پوری طرح ٹھیک بیٹھتی ہے کہ یہاں برسراقتدار حضرات تو وقت گزارنا اور کچھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ”مشٹنڈے“ ان کو ایسا نہیں کرنے دیتے، ان محترم حضرات کی بھی کئی اقسام ہیں، کچھ تو خود سیاسی ہیں مگر سب سے خطرناک ٹولہ وہ ہے جو صحافت کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہا ہے، ان کے مقابلے میں ہم جیسوں کا بُرا حال ہے کہ ہم مفاہمت کا پرچار کرتے کرتے قلم گھسیٹ ہو گئے ہیں اثر کوئی نہیں ہوتا، آج کل صحافت کی بھی کئی اقسام ہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارم بہت گرم ہے اور وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں جانتے، ہم بوڑھے لوگ تو یوں بھی اب کچرا گنے جا رہے ہیں، اب ایسا ہوتا ہے اور بتدریج اس صنف سے لوگ متاثر ہونے کے باوجود محسوس کرنے لگے ہیں کہ یہ جرنلزم تو بہرحال نہیں، کچھ اور ہی ہے تاہم میرا آج روئے سخن ان معتبر حضرات کی طرف ہے جو یقینا معزز پیشہ صحافت سے تعلق رکھتے اور اس پر کوئی دو آراء بھی نہیں تاہم انہی میں کئی دانشور اور سینئر حضرات وہ بھی ہیں جو یہ فرض کئے بیٹھے ہیں کہ وہ وہی بیل ہیں جس کے سینگوں پر دنیا کھڑی ہے اور وہ جب چاہتے ہیں سینگ ہلا کر زلزلہ برپا کر دیتے ہیں۔

دوران پرواز طیارے میں فنی خرابی، حادثے میں 50 سے زائد افراد زخمی

حسن اتفاق سے ایسے حضرات معتبر بھی ہیں کہ قاری بھی ایسے ہی مزاج کے ہو گئے اور توڑ پھوڑ ہی پسند کرنے لگے ہیں۔ میں نے گہری نظر سے مشاہدہ کیا (معذرت کے ساتھ) کہ ایک معتبر تعداد ایسی ہے جو اہم ہے اور وہ کسی بھی حکمران کو چین نہیں لینے دیتے۔ موجودہ حکومت کو آئے ابھی چار روز ہوئے ہیں کہ ان حضرات کی طرف سے ان کے جانے کی ”خوشخبری“ بھی سنائی جانے لگی ہے۔ اللہ اللہ کرکے اعتبار اور اعتماد کی فضا بنی ہے لیکن یہ ہضم نہیں ہو رہی، اب معلوم نہیں ان کا ہدف مسلم لیگ (ن) ہے یا پیپلزپارٹی، یہ راج دلارے اب ان کے درمیان اتحاد کو وقتی اور دھوکا دہی قرار دے کر کہے جا رہے ہیں کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ اللہ کا خوف بھی نہیں کہ ہمارا ملک کس گرداب میں ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ دشمن تاک میں ہے اور سب کچھ بیرون ملک سے درآمد ہو رہا ہے۔ معیشت اس کنارے پر ہے کہ اب اسے سنبھالنے کے لئے ایک اور ٹیکنوکریٹ ماہر کی خدمات حاصل کرنا پڑی ہیں۔

بالی ووڈ فلم کی شوٹنگ کے دوران بنائی گئی21دن کی فوٹیج گم گئی

ہمارا فرض تو یہ ہے کہ ہم ملک کو گرداب سے نکالنے کے لئے معاونت کریں یہ نہیں کہ گرتی دیوار کو دھکا دو کا نعرہ مستانہ بلند کرنا شروع کر دیں، ہمیں تو کوشش کرنا ہوگی کہ بدقسمتی سے ملک میں جو تقسیم ہو چکی وہ ختم ہو اور سب مل کر اس دلدل سے باہر نکلنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے سب سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کو انا کی قربانی دے کر غیر مشروط طور پر ایک میز پر آنا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک فریق ہی کو ذمہ دار ٹھہرائیں اور دوسرے کو قطعی مظلوم قرار دے دیں، یہ ظلم اور مظلومیت بھی میز پر ہی طے ہونا چاہیے۔ اس لئے ہمارا تو اول روز سے یہی مطالبہ اور مشورہ ہے کہ سب ملک و قوم کی خاطر انا قربان کرکے ایک میز پر بیٹھ کر مستقل حل تلاش کریں۔ اللہ ہمیں وباؤں اور بلاؤں سے بچائے۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

QOSHE -         ایک دردمندانہ عرض، خود سے! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

        ایک دردمندانہ عرض، خود سے!

10 1
14.03.2024

پنجاب کی کہاوت ہے، ”رنڈی نے رنڈاپا کٹنا چا ہندی اے، مشٹنڈے نئیں کٹن دیندے“ (مطلب یہ کہ بیوہ تو عزت کے ساتھ اپنا وقت گزارنا چاہتی ہے لیکن گلی محلے کے نوجوان ایسا نہیں کرنے دیتے)۔ یہ کہاوت ہمارے ملکی سیاسی حالات پر پوری طرح ٹھیک بیٹھتی ہے کہ یہاں برسراقتدار حضرات تو وقت گزارنا اور کچھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ”مشٹنڈے“ ان کو ایسا نہیں کرنے دیتے، ان محترم حضرات کی بھی کئی اقسام ہیں، کچھ تو خود سیاسی ہیں مگر سب سے خطرناک ٹولہ وہ ہے جو صحافت کے نام پر اپنا کاروبار چلا رہا ہے، ان کے مقابلے میں ہم جیسوں کا بُرا حال ہے کہ ہم مفاہمت کا پرچار کرتے کرتے قلم گھسیٹ ہو گئے ہیں اثر کوئی نہیں ہوتا، آج کل صحافت کی بھی کئی اقسام ہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارم بہت گرم ہے اور وہ اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں جانتے، ہم بوڑھے لوگ تو یوں........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play