آئندہ پانچ سال کے لئے ملک کے صدر کا انتخاب آج(ہفتہ) ہو رہا ہے، پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدر آصف علی زرداری دوسری بار اس عہدہ کے لئے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور منتخب ہونے کی صورت میں ملکی تاریخی کا یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا کہ کوئی سویلین دوسری بار صدر منتخب ہو۔آصف علی زرداری کا مقابلہ قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کریں گے۔ زرداری مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار ہیں جبکہ محمود خان اچکزئی کو سنی اتحاد کونسل کے پردے میں تحریک انصاف نے نامزد کیا جس کی منظوری خود بانی جماعت عمران خان نے دی۔

ماہرہ خا ن نے حاملہ ہونے کی خبر یں پھیلنے کے پیچھے چھپی وجہ بتادی

ملک میں صدارتی انتخاب براہ راست نہیں ہوتا، بلکہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کا تو سنگل ووٹ ہوتا ہے لیکن صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ برابر کرنے کے لئے تناسب مقرر کیا جاتا ہے اس کے حساب سے کم تعدادوالی اسمبلی کے اراکین کا ووٹ تو ایک شمار ہوگا تاہم اس سے زیادہ تعداد کی حامل اسمبلیوں کے ووٹ کم از کم والی نمائندگی کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے،چنانچہ پنجاب کے2.6اراکین کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔قومی اسمبلی کے ایوان میں اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے اراکین بھی اپنے ووٹ یہیں کاسٹ کریں گے جبکہ صوبوں کے لئے متعلقہ صوبوں کی اسمبلیوں کو پولنگ اسٹیشن بنایا گیا ہے۔ فریقین نے اپنی اپنی کامیابی کے لئے پورا پورا زور لگایا ہے، اتحادی جماعتوں کو توقع ہے کہ آصف علی زرداری ایک بڑی اور معقول اکثریت سے منتخب ہوں گے۔ گزشتہ روز (جمعہ) سبکدوش ہونے والے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو ایوان صدر میں الوداعی گارڈ آف آنر بھی دیا گیا وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں کہ نئے صدر کے انتخاب تک یہ عہدہ خالی نہیں رکھا جاتا۔ صدارتی انتخاب بھی جمہوری عمل ہے۔ تحریک انصاف احتجاج کرتے ہوئے بھی اس میں حصہ لے رہی ہے اور میدان خالی نہیں چھوڑا گیا۔

عریشہ رضی کی شادی کے بعد شوہر کے ہمراہ عمرہ ادائیگی

سنی اتحاد کے بینر تلے، تحریک انصاف کے اراکین ایوانوں کی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ احتجاج بھی جاری ہے۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے بینر تلے تحریک انصاف والوں نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا اور ایوان میں ہنگامہ کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے جانے والے فیصلے کے بعد خواتین اور اقلیتوں کے اراکین نے حلف لیا تھا۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں سے وہ حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب پانچ رکنی لارجر بینچ نے اس میں 14مارچ تک توسیع کر دی اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو ہدایت کی ہے کہ وہ مخصوص نشستوں پر نامزداراکین سے حلف نہ لیں۔ یوں سنی اتحاد کونسل کے مطالبے کے باوجود خالی مخصوص (خواتین اقلیتی) ان کو نہ دی گئیں اور الیکشن کمیشن نے یہ نشستیں باقی جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اسی کے خلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، یہ صورت حال اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرکے حکم امتناعی حاصل کیا گیا۔ حالانکہ دائرہ سماعت کا سوال ضرور پیدا ہوگا کہ پشاور ہائی کورٹ کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر حلف روکنے کا اختیار تھا یا نہیں؟ کہ صوبائی ہائیکورٹ کو خیبرپختونخوا کی حد تک انصاف کرنا چاہیے جبکہ قومی اسمبلی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ لاہور اور سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، ان سارے حالات کے باوجود صدارتی انتخاب آج ہو رہا ہے اور امکانی طور پر آصف علی زرداری منتخب ہو جائیں گے اور یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا کہ ان کو اتحادیوں کی طرف سے متفقہ امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔

تین فٹ کا نوجوان ڈاکٹر بن گیا

بار بار یہ گزارش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ افہام و تفہیم کا دائرہ وسیع تر ہونا چاہیے کہ ملک کو درپیش مسائل باہمی اتفاق رائے ہی سے حل کئے جا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا، بلکہ اب تو جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی بہت برہم ہیں اور انہوں نے واضح طور پر صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا اس سے قبل انہوں نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب میں بھی حصہ نہیں لیا تھا اور اصرار کے باوجود رائے شماری کے وقت کراچی چلے گئے تھے وہاں سے وہ لاہور آئے اور گزشتہ روز تک یہیں تھے۔ ان کو منانے کی کوشش تاحال تو کامیاب نہیں ہو سکی تاہم آئندہ کے لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا، مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتیں پرامید ہیں کہ وہ مان جائیں گے۔

شاہین آفریدی کا پی ایس ایل میں ایک سیزن اچھا نہیں گیا، دو بار جتوایا بھی ہے: سلمان بٹ

آصف علی زرداری، صدارتی حلف اٹھانے میں کامیاب ہوئے تو ان کو یہ معرکہ بھی سر کرنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن سخت برہم ہیں، انہوں نے لاہور میں قیام کے دوران جو گفتگو کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلانے کی طرف گامزن ہیں اور ایسی صورت میں ان کا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں بھی جا سکتا ہے اگر ایسا ہوا تو جس امن اور استحکام کاخواب انتخابی عمل میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی شاید وہ تکمیل پذیر نہ ہو، اگر کوئی ممکنہ تحریک بنی تو مولانا اپنا وزن ادھر ڈال دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان کے شکوؤں کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا تاہم رابطوں کے بعد ہی کوئی نتیجہ سامنے آئے گا، فی الحال موجودہ حالات کے مطابق ہی چلتے رہیں۔ مولانا کی تندہی کی وجہ سے تحریک انصاف والے بھی حوصلہ پکڑ رہے ہیں۔ اسد قیصر نے کہا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کے لئے وسیع تر اتحاد کی کوشش کی جا رہی ہے۔مولانا سے تو پہلے ہی ملاقات اور مذاکرات ہو چکے ہوئے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا ورلڈ کپ میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرنیوالے کھلاڑی کو ا لیکشن لڑانے کا فیصلہ

QOSHE -           صدر کون؟ فیصلہ آج ہوگا! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

          صدر کون؟ فیصلہ آج ہوگا!

10 29
09.03.2024

آئندہ پانچ سال کے لئے ملک کے صدر کا انتخاب آج(ہفتہ) ہو رہا ہے، پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے صدر آصف علی زرداری دوسری بار اس عہدہ کے لئے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور منتخب ہونے کی صورت میں ملکی تاریخی کا یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا کہ کوئی سویلین دوسری بار صدر منتخب ہو۔آصف علی زرداری کا مقابلہ قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کریں گے۔ زرداری مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار ہیں جبکہ محمود خان اچکزئی کو سنی اتحاد کونسل کے پردے میں تحریک انصاف نے نامزد کیا جس کی منظوری خود بانی جماعت عمران خان نے دی۔

ماہرہ خا ن نے حاملہ ہونے کی خبر یں پھیلنے کے پیچھے چھپی وجہ بتادی

ملک میں صدارتی انتخاب براہ راست نہیں ہوتا، بلکہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کا تو سنگل ووٹ ہوتا ہے لیکن صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ برابر کرنے کے لئے تناسب مقرر کیا جاتا ہے اس کے حساب سے کم تعدادوالی اسمبلی کے اراکین کا ووٹ تو ایک شمار ہوگا تاہم اس سے زیادہ تعداد کی حامل اسمبلیوں کے ووٹ کم از کم والی نمائندگی کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے،چنانچہ پنجاب کے2.6اراکین کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔قومی اسمبلی کے ایوان میں اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے اراکین بھی اپنے ووٹ یہیں کاسٹ کریں گے جبکہ صوبوں کے لئے متعلقہ صوبوں کی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play