مودی حکومت نے کشمیریوں کی زمینوں پر کسی نہ کسی بہانے قبضہ جمانے اور ان پر بھارتی ہندوؤں کو بسانے کی اپنی مذموم مہم اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد تیز کر دی ہے جس کا واحد مقصد علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے ا چھگام میں ”مہاراشٹر ہاؤس“ کی تعمیر کیلئے 20 کنال اراضی مہاراشٹر حکومت کو فراہم کی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ سے ’مہاراشٹرا بھون‘ کی تعمیر کے لیے علاقے میں اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔اس اراضی پر77 کروڑ کی لاگت سے مہاراشٹر بھون تعمیر کیا جائے گا۔

جیکولین فرنینڈس کی رہائشی عمارت کی 17ویں منزل پر آگ لگ گئی

بھارتی حکومت پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ مقبوضہ وادی کے تینوں خطوں، جموں، کشمیر اور لداخ میں فوج نے دس لاکھ چون ہزار سات سو اکیس کنال زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ آٹھ لاکھ پچپن ہزار چار سو سات کنال کے مجموعی رقبہ پر فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور انڈو تبیتّن بارڈر پولیس یا آئی ٹی بی پی غیر قانونی طور قابض ہے۔ جبکہ ایک لاکھ ننانوے ہزار تین سو چودہ کنال کے حقوق حکومت نے مقامی قانون کی رْو سے فوج اور دیگر ایجنسیوں کو منتقل کردئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بڈگام نے مہاراشٹر حکومت کو زمین کی منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اراضی نئے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے تھی۔بارایسوسی ایشن نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر بڈگام نے مہاراشٹر حکومت کو اراضی کی منتقلی کی کارروائی کر کے ایک انتہائی منفی کردار ادا کیا کیونکہ ان کے اس اقدام سے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بارایسوسی ایشن نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اراضی کی مہاراشٹر حکومت کو منتقلی کے اپنے فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے اور اس پر ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

ترکیہ نے اسرائیل کو سنگین نتائج سے خبردار کردیا

اس حوالے سے لداخ سرفہرست ہے جہاں چار لاکھ تین ہزار چھہ سو کنال سے زائد رقبہ پر فوج کے کیمپ اور اہم تنصیبات قائم ہیں۔ اسی طرح شمالی کشمیر کی تیرہ تحصیلوں میں کْل ملاکر اکیاون ہزار نو سو بانوے کنال زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس خطے کے اوڑی اور کرناہ تحصیلوں میں وسیع رقبہ پر فوجی تنصیبات ہیں۔سرکار کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کی تحصیلوں میں بیس ہزار سات سو ستانوے کنال اراضی فوج کے تصرف میں ہے۔ وسطی کشمیر کے سرینگر، بڈگام اور گاندربل خطوں میں پچپن ہزار چار سو اڑسٹھ کنال زمین پر فوج اور نیم فوجی عملہ مقیم ہے۔

پاکستان سپر لیگ ہر سال پہلے سے بہتر ہورہی ہے: ویون رچرڈز

زرعی زمینوں، میوہ باغات اور رہائشی مکانوں کو فوج و نیم فوجی عملہ سے خالی کروانے کے لئے یہاں کی ہند نواز جماعتیں وقفہ وقفہ سے سیاسی مہم چلاتی رہی ہیں۔ اس دوران حساس سماجی حلقے بھی وادی میں فوج کے پھیلاؤ پر فکرمند ہیں۔ مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مقبوضہ جموں وکشمیر عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا مسلسل شکار ہے۔ مقبوضہ علاقے میں امن و ترقی کے بی جے پی حکومت کے دعوے بالکل بے بنیاد ہیں اور علاقے میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے علاقے کے دورے سے قبل پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں اور بلا جواز پابندیوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔بھارت کے ہندوتوا وزیراعظم نریندر مودی 7 مارچ کو سری نگر کا ایک روزہ دورہ کررہے ہیں۔

وزیراعظم پشاورآئے،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپوراستقبال کیلئے نہ آئے

فوجیوں نے سری نگر، بڈگام، گاندربل، پلوامہ، اسلام آباد اور کولگام اضلاع کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پرچھاپوں اور گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فوجی گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو ہراساں کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو کیمپوں اور تھانوں میں طلب کیا جا رہا ہے جہاں انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سرینگر میں خاص طور پر فورسز کے اضافی دستے تعینات کیے گئے ہیں، اہم راستوں اور شاہراہوں پر مزید چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جہاں فورسز اہلکارگاڑیوں، مسافروں اور راہگیروں کی سخت تلاشی لے رہے ہیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ نریندر مودی کا مقبوضہ علاقے کا دورہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ گزشتہ 76برس سے بھارتی مظالم کا شکار کشمیریوں کے آگے نریندر مودی کی حیثیت ایک مجرم سے زیادہ کچھ نہیں۔ بھارتی فوجی مودی ہی کے حکم پر حق خودارادیت کے مطالبے کی پاداش میں کشمیریوں کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم بھارت کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں۔

غوطہ خور کوجھیل سے گھڑیوں کا خزانہ مل گیا

نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دورے کا مقصد دنیا کو دکھانا ہے مقبوضہ کشمیر کے حالات نارمل ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا دکھا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی حکومت کی سازش کو ہر وقت ناکام بنا دیا۔ ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس کی جانب سے دی گئی جس کا مقصد نام نہاد بھارتی سرکار کو کھلا پیغام دینا ہے کہ کشمیری آزادی کے مطالبے سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے اور تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر آسانی سے نہیں بیٹھیں گے۔

یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے موجودہ تحریک کو کم و بیش تمام کشمیری قیادت کی حمایت حاصل ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کے حالات بھارتی حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ فوجی طاقت کے ذریعے غلام بنائے رکھنے کی حکمت عملی کا الٹا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے بھارتی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے۔کشمیری نوجوان کھل کر پہلی دفعہ بھارتی فوج اور پولیس کے سامنے آگئے ہیں جس سے بھارتی حکومت بوکھلا گئی ہے۔

QOSHE -            مقبوضہ کشمیر میں اراضی کی بندر بانٹ - ریاض احمدچودھری
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

           مقبوضہ کشمیر میں اراضی کی بندر بانٹ

5 0
07.03.2024

مودی حکومت نے کشمیریوں کی زمینوں پر کسی نہ کسی بہانے قبضہ جمانے اور ان پر بھارتی ہندوؤں کو بسانے کی اپنی مذموم مہم اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد تیز کر دی ہے جس کا واحد مقصد علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے ا چھگام میں ”مہاراشٹر ہاؤس“ کی تعمیر کیلئے 20 کنال اراضی مہاراشٹر حکومت کو فراہم کی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ سے ’مہاراشٹرا بھون‘ کی تعمیر کے لیے علاقے میں اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔اس اراضی پر77 کروڑ کی لاگت سے مہاراشٹر بھون تعمیر کیا جائے گا۔

جیکولین فرنینڈس کی رہائشی عمارت کی 17ویں منزل پر آگ لگ گئی

بھارتی حکومت پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ مقبوضہ وادی کے تینوں خطوں، جموں، کشمیر اور لداخ میں فوج نے دس لاکھ چون ہزار سات سو اکیس کنال زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ آٹھ لاکھ پچپن ہزار چار سو سات کنال کے مجموعی رقبہ پر فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور انڈو تبیتّن بارڈر پولیس یا آئی ٹی بی پی غیر قانونی طور قابض ہے۔ جبکہ ایک لاکھ ننانوے ہزار تین سو چودہ کنال کے حقوق حکومت نے مقامی قانون کی رْو سے فوج اور دیگر ایجنسیوں کو منتقل کردئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بڈگام نے مہاراشٹر حکومت کو زمین کی منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اراضی نئے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے تھی۔بارایسوسی ایشن نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر بڈگام نے........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play