برطانیہ کی جمہوری تاریخ کے حوالے سے پڑھا اور سنا کہ سالوں بعد کرامویل کی قبر کھود کر اسے پھانسی دی گئی۔ یہ برطانیہ کا واقعہ ہے، اپنی جگہ، آج (بدھ) پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک ایسے باب کا اضافہ ہو گیا۔45سال بعد سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بنچ نے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل والے مقدمہ کے حوالے سے رائے دی ہے کہ بھٹو کو نہ تو فیرٹرائیل کا موقع دیا گیا اور نہ ہی بنیادی حقوق کے حوالے سے ان کے بنیادی حق پر عمل کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں نو رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس پر متفقہ رائے دی اور یوں گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں مدفون بھٹو کو اتنے سالوں بعد انصاف مل گیا اور ان پر لگا داغ اس حد تک دھل گیا کہ پیپلزپارٹی کا شروع سے یہ موقف رہا کہ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ تعصب کے باعث بنا اور ان کے خلاف سماعت غلط ہوئی اور سزائے موت دی گئی۔.

جیکولین فرنینڈس کی رہائشی عمارت کی 17ویں منزل پر آگ لگ گئی

اس فیصلے نے ماضی کی یادیں تازہ کردیں اور زندگی کے ان لمحات کے واقعات کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہو گئی۔1965ء کی پاک بھارت جنگ، ملکی سرحدوں کے دفاع اور پھر معاہدہ تاشقند یاد آیا، میں نے نہ صرف 1965ء ستمبر بلکہ 1971ء کی پاک بھارت لڑائی بھی دیکھی اور کوریج بھی کی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاست میں عملی حصہ لینے کے بعد پیپلزپارٹی کی بیٹ کی کوریج بھی کی اور یوں میں براہ راست بھٹو کے عروج و زوال سے وابستہ رہا، معاہدہ تاشقند کے بعد ان کا کابینہ سے مستعفی ہونا اور پھر ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے روانگی اور لاہور آمد پر ان کے بے مثل استقبال کی بھی رپورٹنگ کی اور بعدازاں پارٹی کے قیام سے رپورٹنگ چھوڑنے تک پیپلزپارٹی کی بیٹ مستقل طور پر میرے پاس رہی اور یوں میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو تک کے ادوار کی رپورٹنگ بھی کی۔

ترکیہ نے اسرائیل کو سنگین نتائج سے خبردار کردیا

میں نے کئی سال تک کورٹس رپورٹنگ بھی کی اور اس دور میں بھی یہ بیٹ بھی میرے پاس تھی۔جب بھٹو لاہور آئے اور پھر پیپلزپارٹی قائم کی۔ نواب محمد احمد خان کا قتل ہوا اور مقدمہ تھانہ سول لائنز لاہور میں درج کیا گیا۔ایف آئی آر سربمہر کر دی گئی تھی۔ بھٹو وزیراعظم تھے۔ یہ مقدمہ یونہی پڑا رہا، جب ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو ان کے دور میں اس مقدمہ میں بھٹو کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ اول سے آخر تک بھٹو کی کسی درخواست کو منظور نہ کیا گیا اور اس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے اختیارات استعمال کرکے مقدمہ کی سماعت براہ راست اپنی قیادت میں ہائی کورٹ میں کی اور پانچ رکنی بنچ بنا کر سماعت مکمل کرکے موت کی سزا دی جو اپیل پر سپریم کورٹ میں اکثریتی فیصلے کے تحت برقرار رہی اور نظرثانی اپیل خارج ہونے کے بعد ان کو پھانسی دے دی گئی۔ وہ گڑھی خدا بخش کے خاندانی قبرستان میں مدفون ہوئے اور آج یہ قبرستان ایک مقبرے کی صورت میں موجود ہے اور یہاں بھٹو کے ساتھ ان کی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو،صاحبزادی بے نظیر بھٹو، صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو بھی مدفون ہیں اور یہ خاندانی قبرستان اور مقبرہ عوامی مقبولیت حاصل کر چکاکہ سندھ میں اکثر لوگ شادی کے بعد یہاں سلام کرنے آتے ہیں، پہلے یہاں 4اپریل کو بھٹو کی شہادت کا دن منایا جاتا اور اب اس میں 27دسمبر کا بھی اضافہ ہو چکا جس روز بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ سے واپسی پر شہید کیا گیا تھا۔

پاکستان سپر لیگ ہر سال پہلے سے بہتر ہورہی ہے: ویون رچرڈز

ذوالفقار علی بھٹو کے عروج و زوال اور اس مقدمہ اور بعد کے حالات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ بھٹو کو دنیا سے رخصت کر دیئے جانے کے باوجود بھی وہ ملکی سیاست پر چھائے رہے، ان کی اہلیہ اور صاحبزادی کے بعد ان کی جماعت کا پرچم اب ان کے نواسے بلاول کے پاس ہے جو اپنے والد آصف علی زرداری کے زیر سایہ ملکی سیاست میں نمایاں ہو چکے، اس حوالے سے بھی بہت کچھ جانتا ہوں تاہم اب ذکر ہے بھٹو کے مقدمہ قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی رائے کا، اس لئے یہی متعلقہ موضوع ہے، اس مقدمے کے حوالے سے بعض اہم باتیں ایسی ہیں جو بھٹو کی شخصیت کے باعث دب کر رہ گئیں، اس مقدمہ میں صرف بھٹو ہی کو سزا دی گئی اور نہ ہی وہ اکیلے پھانسی پر جھولے بلکہ ان کے ساتھ تو چار دیگر افراد بھی زندگی سے گئے، آج ان کو کوئی یاد نہیں کرتا، ان چاروں نے بھی کسی ”بڑے“ کے ایماء اور یقین پر اعتراف جرم کیا اور ان کو بھی سزائے موت دی گئی، ان کی طرف سے تو رحم کی اپیلیں تک کی گئیں جو سب رائیگاں گئیں، اس حوالے سے یاد آیا کہ بھٹو کی طرف سے بھی "MERCY"درخواست کا ذکر آیا ہے تو ریکارڈ کی درستگی کے لئے عرض ہے کہ جب بیگم نصرت بھٹو نے آخری ملاقات میں ارادہ ظاہر کیا تو بھٹو نے سختی سے منع کر دیا تھا اور یوں اہل خانہ یا خود بھٹو کی طرف سے ایسی کوئی درخواست نہ دی گئی، البتہ صدارتی ریکارڈ میں شاید معافی کی کوئی ایسی درخواست موجود ہے جسے بیگم نصرت بھٹو سے موسوم کیا جاتا ہے لیکن بیگم نصرت بھٹو نے اپنی زندگی میں تردید کر دی تھی کہ انہوں نے رحم کی کوئی اپیل بھی کی، لیکن بات کرنے کے لئے کچھ تو چاہیے شاید اس کا بھی اہتمام کر لیا گیا ہو۔

وزیراعظم پشاورآئے،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپوراستقبال کیلئے نہ آئے

صدارتی ریفرنس کی سماعت کے آخری وقت میں مستغیث احمد رضا خان قصوری خود پیش ہوئے اور انہوں نے وضاحت کی جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ بھٹو ان کو بہت بڑا درجہ دیتے اور ان کی بات مانتے تھے اور ان پر کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے تھے یہ درست کہ احمد رضا قصوری، بھٹو کے قریب تھے لیکن معلوم تاریخ یہ ہے کہ یہ اکیلے نہیں تھے ابتداء میں بھٹو کے ساتھ آنے والے طالب علموں میں امان اللہ خان، راشد بٹ اور دیگر دوست بھی تھے۔ امان اللہ خان اور احمد رضا قصوری کے درمیان تو نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ بہرحال ذکر مقصود ہے احمد رضا خان قصوری کا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ بھٹو ان کی بہت مانتے تھے۔ تو عرض کروں آج بھی متعدد حضرات ایسے ہیں جو جانتے ہیں کہ اس دور میں بھٹو اپنے کارکنوں کی محفل بھی جماتے تھے اور ایسی ہی محافل میں یہ حضرات بھی شریک ہوتے تو بھٹو، احمد رضا قصوری سے کہتے۔ بھئی تم نے وزیرخارجہ ہونا ہے تو ذرا وہ تقریر تو سناؤ جو اقوام متحدہ میں کرو گے تو محترم رضا قصوری بڑے جوش سے تقریر کیا کرتے اور محفل محظوظ ہوتی تھی۔ احمد رضا قصوری یہ بھی بھول گئے کہ مقدمہ اور بھٹو کی گرفتاری کے دوران بیگم نصرت بھٹو ان کی والدہ کے پاس قصور والے گھر گئیں اور احمد رضا قصوری کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ”بہن گھر آ گئی، اس لئے معاف کیا“۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟

اس کے علاوہ یہ تو اب دلائل میں کہا جا چکا کہ بھٹو کو سزا قتل کے مقدمہ میں ضابطہ فوجداری 109کے تحت سزا دی گئی جو معاونت کی ہے اور آج تک اس مقدمہ کو حوالہ کے طور پر کہیں استعمال بھی نہیں کیا گیا اور یہ بات تو جسٹس (ر) منظور اپنے دلائل میں کہہ چکے کہ بھٹو سے ایک اپیل کا حق چھین لیا گیا اور یہ بھی عدالتی تاریخ ہے کہ قتل کا ٹرائل ہائی کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بنچ نے کیا اور مقدمہ کی سماعت کے دوران مولوی مشتاق، بھٹو کی توہین کرتے رہے۔

بہرحال، انصاف مل گیا، بلاول نے شکریہ ادا کر دیا اب بات تفصیلی فیصلہ کے بعد ہوگی کہ متعلقہ واقعات بہت ہیں۔

غوطہ خور کوجھیل سے گھڑیوں کا خزانہ مل گیا

QOSHE -     اور انصاف مل گیا، بھٹو قتل، ریفرنس کا فیصلہ! - چودھری خادم حسین
menu_open
Columnists Actual . Favourites . Archive
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close
Aa Aa Aa
- A +

    اور انصاف مل گیا، بھٹو قتل، ریفرنس کا فیصلہ!

12 1
07.03.2024

برطانیہ کی جمہوری تاریخ کے حوالے سے پڑھا اور سنا کہ سالوں بعد کرامویل کی قبر کھود کر اسے پھانسی دی گئی۔ یہ برطانیہ کا واقعہ ہے، اپنی جگہ، آج (بدھ) پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک ایسے باب کا اضافہ ہو گیا۔45سال بعد سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بنچ نے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل والے مقدمہ کے حوالے سے رائے دی ہے کہ بھٹو کو نہ تو فیرٹرائیل کا موقع دیا گیا اور نہ ہی بنیادی حقوق کے حوالے سے ان کے بنیادی حق پر عمل کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں نو رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس پر متفقہ رائے دی اور یوں گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ) میں مدفون بھٹو کو اتنے سالوں بعد انصاف مل گیا اور ان پر لگا داغ اس حد تک دھل گیا کہ پیپلزپارٹی کا شروع سے یہ موقف رہا کہ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ تعصب کے باعث بنا اور ان کے خلاف سماعت غلط ہوئی اور سزائے موت دی گئی۔.

جیکولین فرنینڈس کی رہائشی عمارت کی 17ویں منزل پر آگ لگ گئی

اس فیصلے نے ماضی کی یادیں تازہ کردیں اور زندگی کے ان لمحات کے واقعات کی فلم آنکھوں کے سامنے چلنا شروع ہو گئی۔1965ء کی پاک بھارت جنگ، ملکی سرحدوں کے دفاع اور پھر معاہدہ تاشقند یاد آیا، میں نے نہ صرف 1965ء ستمبر بلکہ 1971ء کی پاک بھارت لڑائی بھی دیکھی اور کوریج بھی کی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاست میں عملی حصہ لینے کے بعد پیپلزپارٹی کی بیٹ کی کوریج بھی کی اور یوں میں براہ راست بھٹو کے عروج و زوال سے وابستہ رہا، معاہدہ تاشقند کے بعد ان کا کابینہ سے مستعفی ہونا اور پھر ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے روانگی اور لاہور آمد پر ان کے بے مثل استقبال کی بھی رپورٹنگ کی اور بعدازاں پارٹی کے قیام سے رپورٹنگ چھوڑنے تک پیپلزپارٹی کی بیٹ مستقل طور پر میرے پاس رہی اور یوں میں نے ذوالفقار علی........

© Daily Pakistan (Urdu)


Get it on Google Play